• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزگار کیلئے یورپ جانے والے بے شمار پاکستانیوں نے مستقل طور پر وہیں سکونت اختیار کرلی ہے ، ان کے بچے وہیں پیدا ہوئے وہیں تعلیم حاصل کی اوراب وہیں نوکری یا کاروبار کررہے ہیں۔ ان میں سے کئی مالی طور پرخاصے خوشحال ہیں اور پرآسائش زندگی گزار رہے ہیں ۔مگر ان کی زندگی میں ایک خلاء ہے انہیں وہ خوشی اور وہ Inner Satisfaction حاصل نہیں ہے جو ان کے آبائی ملک میں ان سے بہت کم آمدنی والے لوگوں کو حاصل ہے۔ اُن کے جسم وہاں ہیں مگر روحانی رشتہ اپنے ماں باپ کی سرزمین یا اُنکی قبروں سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے دماغ وہاں ہیں مگر دل پاکستان میں ہیں۔وہ اس تعلق ا وررشتے کو توڑنا نہیں چاہتے بلکہ اسے مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے دوست منیر لون صاحب لندن کے قریبی شہر ریڈنگ میں اپنے خوبصورت گھرکے گیٹ پر کھڑے ہوکر بتارہے تھے کہ ” وہ سامنے میرے والدین کا گھر ہے اس کے ساتھ دو گھر چھوڑ کر بھائی کا گھر ہے،بائیں ہاتھ ایک فرلانگ پر چچا کا گھر ہے، پچھلی گلی میں دوسرے بھائی کا گھر ہے اور ایک کلومیٹر پر سسرال کا گھر ہے“ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ خاندان کا اتنا قرب تو اپنے ملک میں بھی مشکل سے میّسر آتا ہے مگر اس کے باوجود کوئی کشش اور تڑپ ایسی ہے جو لون صاحب کو ہرسال پاکستان کھینچ لاتی ہے۔
لون صاحب نے ریڈنگ کے پاکستان کمیونٹی سنٹر میں پاکستانی اکابرین کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔ موضوع ”پاکستان اور پاکستان کے حالات“ تھا۔ میری گفتگو کا خلاصہ تھا کہ ’ خزاں کے دن پورے ہورہے ہیں اور بہت جلد گلستانِ وطن میں بہار آنے والی ہے‘۔ ”میرے بھائی ڈاکٹر نثاراحمد چیمہ کے دیرینہ دوست برادرم شاہد یونس (جومنتخب کونسلربھی ہیں )نے کچھ صاحب ِثروت دوستوں سے کھانے پر ملوایا جنہیں میں پاکستان کے حالات بہتر ہونے کی نوید سناتا رہا اوراپنے وطن میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دیتارہا۔ان کاجواب تھا۔”آپ کی باتیں تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہیں اب ہم ضرورسنجیدگی سے سوچیں گے۔“
برمنگھم میں ڈاکٹر جاویدحسین صاحب اور چوہدری اظہرمحمود صاحب نے ایک بہت بڑی تقریب منعقد کی جس میں سینکڑوں پاکستانیوں( جن میں ڈاکٹرز،پروفیسرز اور پروفیشنلزبھی شامل تھے) نے شرکت کی۔برمنگھم میں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں چلتے پھرتے ایسے ہی لگتا ہے جیسے آپ پرانی انارکلی میں گھوم رہے ہیں اورجہاں کوئی انگریز نظرآجائے تو اجنبی لگتا ہے ۔انتہائی باشعوراوراپنے آبائی وطن کے ساتھ گہرا لگاوٴ رکھنے والے سامعین سے خطاب کرتے ہوئے میں نے پاکستان کے Human resource،معدنی وسائل ،زرخیززمین، معتدل موسم، پاکستانی پروفیشنلزکی ذہانت اورقابلیت اورقوم کے جذبوں اورولولوں کا ذکرکیا اوران منازل کی جھلک دکھائی جو قوم نے انتہائی کٹھن حالات میں بھی طے کرلی ہیں ۔میں نے جب زور دے کر کہا کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کی محبت اورعقیدت صرف پاکستان کے ساتھ ہونی چاہیے اورانہیں متحد رہنا چاہیے ، آپ اپنے ماحول کومخاصمانہ پارٹی بازی سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ووٹ کا استعمال لازمی کریں مگریہاں آپ کے ہاتھوں میں مختلف پارٹیوں کے مختلف رنگوں والے جھنڈے نہیں صرف پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہونا چاہیے۔ یہاں کوئی ایسا کام نہیں ہونا چاہیے جس سے پاکستانی کمیونٹی تقسیم ہو ۔ توسامعین کی پر زور تالیوں سے انکا ردّ عمل واضح ہوگیا ۔کھانے کے دوران اور انفرادی ملاقاتوں میں زیادہ تر شرکاء نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”کہ پاکستان میں بلاشبہ Potential بہت ہے مگروہ مخلص اورپاک دامن لیڈرشب کب ملے گی جو ملک کو زوال کی پستیوں سے اٹھا کرترقی وکمال کی بلندیوں تک لے جائے “۔میرا واضح جواب تھا کہ” مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں اگر سوادوکروڑآبادی کے ملک ملائشیاکوایسی قیادت مل سکتی ہے اگر 4کروڑ آبادی والے ترکی کو مخلص لیڈر شپ مل سکتی ہے تو اٹھارہ کروڑ میں سے پاکستان کو ایمانداراورمخلص لیڈر شپ کیوں نہیں مل سکتی ۔ انشاء اللہ ضرورملے گی اورجلد ملے گی“۔ ہموطنوں نے یہ کہتے ہوئے ہمیں برمنگھم سے رخصت کیا کہ”آپ کی باتوں سے حوصلہ ملا ہے اورامیدکی روشنی نظرآئی ہے“۔
اوورسیز پاکستانی بھائیوں کا ایک بڑامسئلہ یہ ہے کہ وہ بڑ ے شوق اورچاہت سے اپنے ملک کے کسی بڑے شہرمیں رہائش کے لیے پلاٹ خریدتے ہیں اورجب اگلے سال دیکھنے آتے ہیں تو ان کے پلاٹ یا جائیدادپرعلاقے کے”معززین“یا”اکابرین“میں سے کسی کا قبضہ ہوچکا ہوتا ہے۔ میری اطلاع کے مطابق اب وزیراعلیٰ پنجاب
جناب شہباز شریف نے چیف سیکرٹری اورآئی جی پولیس کوہدایات دے دیہیں اورانہوں نے اوورسیزپاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنے پرسنل سٹاف افسروں کو فوکل پرسنز بنادیا ہے اب بیرونِ ملک رہنے والے کسی بھی بھائی یا بہن کا مسئلہ سن کرفوکل پرسنز متعلقہ ضلع یا تحصیل کے افسران کوہدایت جاری کیا کریں گے جس سے ان کے مسائل جلد حل ہونے میں بڑی مددملے گی۔باقی صوبوں میں بھی ایسا ہی ہوناچاہیے۔برطانیہ میں ہی پیدا ہوکر جوان ہونے والے پاکستانی لڑکوں اور لڑکیوں میں اپنے آبائی وطن کے بارے میں بے پناہ تجسّس اورلگاؤہے وہ پاکستانی ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتے ہیں ”ہمسفر“یہاں بھی بڑا مقبول ہوا۔بہت سے گھرانوں اور نوجوانوں میں سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سالی لارن بوتھ( جو حال ہی میں مسلمان ہوئی ہیں)کی پرجوش تقریروں کے تذکرے سننے کو ملے ۔برطانیہ کی دو نومسلم خواتین ایوون ریڈلی اورلارن اپنے دو ٹوک موقف اور مو ثّر اندازِخطابت سے انگریزوں کی نئی نسل خصوصاً اشرافیہ اورخواتین کو بہت متاثر کر رہی ہیں۔جو ولایت میں نے دیکھا اس میں خلوص اورگرمجوشی وافر تھی ۔لون صاحب ، بھابھی صاحبہ اور بیٹی عائشہ انواع واقسام کے دیسی اورولایتی کھانے کھلاتی رہیں،باہر بھی کھانوں اورملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ انگلستان میں منتخب ہونے والے پہلے پاکستانی میئر سرفراز کاہلوں صاحب نے کیمبرج میں اور ہمارے دوست ڈی آئی جی سلیم بھٹی کے بھائی خالدبھٹی نے لندن کے معروف ہوٹل ڈور چَیسٹرمیں کھانے کا اہتمام کیاتھا۔ میرے بھتیجے بیرسٹر عثمان چیمہ کے دوست بیرسٹر اختر گوندل نے لندن میں ایک ڈنر کا اہتمام کیا جس میں بڑی تعداد میں قانون دانوں نے شرکت کی۔ وہیں خوش گفتار، قانون دان شیخ اسلم اور انتہائی منجھے ہوئے سینئر صحافی خالد لودھی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ۔برٹش پولیس کے کچھ سینئر حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جنہوں نے بتایا کہ جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے ۔پولیسنگ کے عمل میں علاقے کے مکینوں اورشہریوں کی شرکت اورشراکت کا پہلے سے زیادہ اہتمام کیا جارہا ہے اوراب پولیس کمشنر کی انتخاب کے ذریعے تقرری کا نیا تجربہ کیا جارہا ہے۔ اس پرپولیس حکام کے خاصے تحفظات ہیں۔مجرموں کی شناخت پریڈ کا قدیم طریقہ بھی تبدیل کردیا گیا ہے اور اب گواہ کو خطر ناک مجرموں کے سامنے آنے کی ضرورت نہیں کمپیوٹر کی سکرین پر ہی اگر وہ مجرم کو شناخت کرلیتا ہے تو عدالت کیلئے یہ گواہی قابلِ قبول سمجھی جاتی ہے۔انگلستان میں بہت سے انگریزوں سے ملاقاتیں ہوئیں مگر جس ملاقات کا نقش دل و دماغ پر ثبت ہوگیا وہ لون صاحب کے ہمسایوں سے تھی ۔مسٹررابنسن ریلوے میں اعلیٰ افسر تھے اوران کی بیگم ویلیریا ٹیچر تھیں اب دونوں میاں بیوی ریٹائر ہوچکے ہیں اور سال میں تین چار مرتبہ دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کیلئے نکل جاتے ہیں ۔چائے پر اس انگریز جوڑے سے ہر موضوع پر بڑی طویل اور پرُلطف گفتگو ہوتی رہی۔ مسزرابنسن نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سکولوں میں ڈسپلن کم ہوگیا ہے ۔ان کے نواسے کو سکول میں لڑکے تنگ کرتے ہیں۔ہمیں یہ سن کر خوشگوارحیرت ہوئی کہ ان کی بیٹی ہر روز والدین کو ملنے ان کے گھر آتی ہے” لگتا ہے آپ بھی اپنے والدین کابڑاخیال رکھتی ہوں گی“۔میر ے پوچھنے پر رابنسن نے بتایا کہ” ہر روز صبح اُٹھتے ہی کھڑی کھول کر میری بیگم پکارتی ہے Good mornign mom , Good morning dadاس کے علاوہ ہر اتوار کویہ والدہ اور والد کی قبروں پر پھول لیکر جاتی ہیں اوراُن کے لئے دعا کرتی ہیں اور پچھلے بیس سالوں میں اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوا“۔جذبوں میں ڈوب کر کئے گئے والدین کے ذکر پر مسز رابنسن کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا جسے دیکھ کرڈرائنگ روم میں موجود سب کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ میں سوچنے لگا کہ یہ تو ہمارا وصف اور امتیاز تھا ۔کنبہ، رشتے ، رشتوں کا مضبوط بندھن، والدین سے محبت،ان کا احترام اور ان کی خدمت کاجذبہ مگرٹی وی انٹرنیٹ اورموبائل کی سکرینوں نے یہ وصف کمزورکردیا ہے ۔ خدانہ کرے کہ یہ امتیاز بھی ہم سے چھن جائے۔یہ تحریر دسمبرکے آخری دنوں میں لکھ رہاہوں وہ دسمبر جس کے آتے ہی زخم ہرے ہوجاتے ہیں ۔ انڈیاکی ننگی جارحیت نے مادرِ وطن کے دو ٹکڑے کردئیے ۔ایک بازو کاٹ کر رکھ دیا۔جسد ِملّت پرلگا ہوازخم اتنا گہراہے کہ قیامت تک نہ بھرسکے گا۔میں ٹین ایجر تھا جب میں نے اس سانحے پر بڑے معتبر اور باوقار لوگوں کو دیوانہ وار دیواروں سے ٹکریں مارتے دیکھا ۔کیسے بھول جاوٴں کہ میں نے پہاڑ جیسا حوصلہ رکھنے والے اپنے والد محترم کو دھاڑیں مار کرروتے دیکھا۔ محترمہ بشریٰ رحمن نے چند روز پہلے اپنے کالم میں اس دسمبر کاذکرکرتے ہوئے لکھا تھا ”یہ 16دسمبر1971ء کی شام تھی میں بچوں کو سینے سے لگاکر رو رہی تھی کیونکہ میرے بابا کی نگری لٹ گئی تھی، اتحاد کی نیّاڈوب گئی یقینِ محکم کی رسّی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔کون تھا جو نہیں رویا۔۔۔بابائے قوم کی سسکیاں میں نے خودسنیں آشیانے کے تنکے بکھر جانے پر پوری قوم تڑپ اٹھی تھی۔۔۔۔“ کیایہ تاریخ نہیں ہے۔۔۔۔تاریخ درست کرنے کے شوقین بتائیں کہ وہ تاریخ کے ان اوراق کو نئی نسل سے کیوں چھپانا چاہتے ہیں۔کیا وہ چاہتے ہیں کہ قائد کے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے والے مجر موں کی شناخت نہ ہو۔ان کے چہرے ڈھانپ دئیے جائیں، ان کے قصیدے پڑھے جائیں اور اُن کی پیروی کیاجائے۔کیا یہ تاریخ کاانمٹ نقش نہیں ہے کیا زندہ قومیں ایسے نقوش نئی نسل سے چھپاتی ہیں؟ جب سیاستدانوں کی مفادپرستی ‘ جرنیلوں کی ہوسِ اقتدار اور دشمن کی فوجوں نے مل کر ارضِ پاکستان کا مشرقی بازوکاٹ دیا تواس کے چند مہینے بعد اس زخم خوردہ ملّت کے مفکّرِ اعظم اقبال کا یوم ولادت تھا۔ حسب ِروایت لاہور کی سب سے بڑی تقریب یونیورسٹی ہال میں منعقد ہوئی۔ ہال لاہور کی اشرافیہ، پروفیسرز، ڈاکٹرز،وکلاء ،علماء اورطلباء سے کھچا کھچ بھراہوا تھا۔ مجلسِ اقبال کے سیکرٹری آغا شورش کاشمیری نے معروف شاعر مشیر کاظمی کو نظم پڑھنے کی دعوت دی جنہوں نے مائیک پرآتے ہی بتایا کہ میں آج صبح علامہ اقبال کے مزارپرپھول چڑھانے گیا تھا وہیں سے آرہا ہوں۔نظم کے پہلے دو شعروں پرہی سامعین تڑپ اٹھے اوردھاڑیں مارکررونے لگے نظم کے چند شعرسن لیجئے :۔
پھول لے کر گیا، آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ وطن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
شہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
رُوح ِقائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
چاند تارے کے پر چم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
سرنگوں تھا قبر پہ مینارِ وطن
کہہ رہاتھا کہ اے تاجدارِ وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا تھا حصارِ وطن
پوری نظم نہ شاعر سنا سکانہ سامعین سن سکے شاعر کی آواز آہوں اورسسکیوں میں دب کر رہ گئی اورتقریب ختم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔مگرملّت کے زخموں پرصرف آنسوؤں سے مرہم نہیں رکھا جاسکتا ،زندہ رہنے کا عزم اورولولہ رکھنے والی قومیں اپنے آنسوؤں کو خاک میں گُم نہیں ہونے دیتیں اور آنکھوں سے نکلنے والے موتیوں کی چمک میں اپنی منزل اور سمت تلاش کرلیتی ہیں۔ترآنکھیں تو ہوجاتی ہیں پرکیا لذّت اس رونے میں، جب خونِ جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا۔نئے سال کی دعا: اے قادرِ مطلق! وہ افراد یا گروہ جن کی ڈوریاں بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہیں انہیں اہل ِوطن کے سامنے پوری طرح بے نقاب کردے اور پاکستان کے ریاستی امور میں ان کا ہرقسم کا رول ختم کردے۔
Facebook:Zulfiqara Cheema@gmail.Com
تازہ ترین