• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’محسن نقوی‘‘ شاعری کی ہر صنف میں نام کمایا، سیاست میں بھی متحرک رہے

سید ثقلین علی نقوی

جنوبی پنجاب کے شہر، ڈیرہ غازی خان کی پس ماندہ سرزمین پر5مئی 1947ء کو سیّد چراغ حسین شاہ کے گھر ایک بچّے نے آنکھ کھولی۔ والدین نے سیّد غلام عبّاس نقوی نام رکھا۔ جب یہ نوجوان، گورنمنٹ کالج بوسن روڈ، ملتان سے گریجویشن کے بعد جامعہ پنجاب، لاہور کے شعبۂ اُردو میں داخل ہوا، تو دنیا نے اُسے محسن نقوی کے نام سے جانا۔محسن نقوی نے بچپن ہی سے عصری تعلیم کے ساتھ، مذہبی تعلیم کی طرف بھی بے حد توجّہ دی۔ وہ قرآنِ مجید اور دیگر مذہبی کُتب ذوق و شوق سے پڑھتے۔ نیز، اُن کا شروع ہی سے ادب کی جانب رجحان تھا۔ ایم اے اُردو کے دَوران ہی اُن کا پہلا مجموعہ” بند قبا‘‘ شایع ہوا۔ اس دَوران اُنہیں گورنمنٹ کالج، ملتان کے بہترین شاعر ہونے کی حیثیت سے گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔ وہ پہلے مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی سرائیکی وسیب اور گرد و نواح کے ادبی حلقوں میں معروف ہو گئے۔بعدازاں، لاہور منتقل ہوئے، تو وہاں بھی ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے رہے۔

محسن نقوی نوجوانی ہی میں پیپلزپارٹی کے اسیر ہو گئے تھے اور پھر دمِ آخر تک اس تعلق کو نبھایا۔ اُنھوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کو مضبوط کرنے میں بھرپور اور اہم کردار ادا کیا۔ پارٹی کی خاطر لاٹھیاں کھائیں، متعدّد بار جیل گئے اور اُنھیں کئی کئی ماہ نظر بند بھی رکھا گیا، مگر اپنے مقصد سے ہٹے اور نہ ہی پارٹی کو چھوڑا۔ پیپلز پارٹی کے قائد، ذوالفقار علی بھٹّو نے پارٹی سے بے لوث محبّت اور اَن تھک محنت و لگن کو سراہتے ہوئے اُنھیں جے یو آئی کے سربراہ، مفتی محمود کے مقابلے میں پارٹی ٹکٹ دیا۔1990ء میں نظیر بھٹّو حکومت کی برطرفی کے بعد ملتان آئیں، تو محسن نقوی نے جلسۂ عام میں اُنھیں یوں خراجِ تحسین پیش کیا ؎ اے عظیم کبریا…سُن غریب کی دُعا…سازشوں میں گِھر گئی…بنتِ ارضِ ایشیا…لشکرِیزید میں…اِک کنیزِ کربلا…فیصلے کی منتظر…اِک یتیمِ بے خطا…ٹال سب مصیبتیں…ہے دُعا تِرے حضور…واسطہ حسینؓ کا…توڑ ظلم کا غرور…یااللہ، یارسولؐ …بےنظیر، بےقصور۔

محسن نقوی کئی حوالوں سے منفرد شناخت رکھتے تھے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اُن کی شاعری اُنہیں ان سب حیثیتوں میں ممتاز کرتی ہے۔ وہ بنیادی طور پر غزل گو تھے، مگر اُن کی نظمیں بھی داد سمیٹتی رہیں۔ وہ ادب کے ہر رنگ اور شاعری کی ہر صنف پر نہ صرف خُوب صورتی سے پورے اُترتے نظر آتے ہیں، بلکہ اُنھوں نے ہر صنف کو اپنا رنگ دیا۔محسن نقوی کے کلام میں صرف موضوعات کا تنوّع ہی موجود نہیں، بلکہ اُنہوں نے زندگی کی تمام کیفیتوں کو جدید طرزِ احساس عطا کیا۔ اُنہوں نے اپنی شاعری صرف الف لیلٰی تک محدود نہ رکھی، بلکہ بالادست طبقات کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا، جنہیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ اُن کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویّے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں اَزل سے جاری معرکۂ حق و باطل ہے۔ نیز، اُنھیں مرثیہ نگاری میں بھی مہارت حاصل تھی۔ اُنہوں نے اپنی شاعری میں واقعۂ کربلا کے استعارے جابہ جا استعمال کیے، پھر یہ کہ اُن کی رومانی شاعری بھی نوجوانوں میں خاصی مقبول ہے۔ اُن کی کئی غزلیں، نظمیں تو زبانِ زدِ عام ہیں اور اُردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ محسن نقوی نے ایسے کئی نادر و نایاب خیالات کو اشعار کا لباس پہنایا کہ پڑھ کے قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ پھر اُن کی نثر، جو شعری مجموعوں کے دیباچوں کی شکل میں محفوظ ہو چُکی ہے، وہ بھی بلا شبہ تخلیقی تحریروں کی صفِ اوّل میں شمار کی جا سکتی ہے۔علاوہ ازیں، اُنھوں نے ایک اور صنفِ سخن، قطعہ نگاری میں بھی نام کمایا۔ ان کے قطعات کے مجموعے” ردائے خواب” کو اُن کے دیگر شعری مجموعوں کی طرح بےحد پزیرائی حاصل ہوئی۔ نقّادانِ فن نے اسے قطعہ نگاری میں ایک نئے باب کا اِضافہ قرار دیا۔

استاد نصرت فتح علی خان نے محسن نقوی کی غزل ” کب تک تو اونچی آواز میں بولے گا، تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا‘‘ بہت خُوب صورتی سے گائی، جس پر اُنھیں برطانیہ میں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ محسن نقوی نے فلم ساز، سردار بھٹی کی فرمائش پر فلم ” بازارِ حُسن” کے لیے ایک گیت ” لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے‘‘ تحریر کیا، جس پر اُنہیں’’ نیشنل فلم ایوارڈ‘‘ ملا۔ اُن کی شاعری کا ایک بڑا حصّہ اہلِ بیتؓ سے منسوب ہے، اس لیے وہ’’ شاعرِ اہلِ بیتؓ‘‘ کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ اُن کے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں۔وہ ایک بلند پایہ خطیب بھی تھے۔ مجالس میں اپنے مخصوص انداز میں ذکرِ اہلِ بیتؓ اور واقعاتِ کربلا بیان کیا کرتے۔اُن کی تصانیف میں عذابِ دید، خیمۂ جاں، برگِ صحرا، طلوعِ اشک، بندِ قبا، ریزہ حرف،رختِ شب، موجِ ادراک، فراتِ فکر اور دیگر شامل ہیں۔1994ء میں حکومتِ پاکستان نے اُنہیں صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی سے نوازا۔ محسن نقوی کو دودفعہ کھانے میں زہر ملا کر دیا گیا،مگر چراغ نہ بجھا، تو اُنھیں 15 جنوری 1996ء کی شام، مون مارکیٹ میں اُن کے دفتر کے سامنے گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ تاہم، محسن نقوی آج بھی اپنی شاعری کی صُورت ہم میں موجود ہیں اور اس اَمر کا ثبوت بھی کہ امن و محبّت کے نام لیواؤں کو نفرت یا جہالت کے اندھیرے کبھی نہیں مٹا سکتے۔ اُنھی کے اشعار ہیں؎ قتل چُھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ…اب تو کُھلنے لگے مقتل، بَھرے بازار کے بیچ…اپنی پوشاک کے چِھن جانے پہ افسوس نہ کر…سَر سلامت نہیں رہتے، یہاں دستار کے بیچ۔

تازہ ترین