• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہفتہ رفتہ کے دوران سیاسی میدان میں بعض اہم واقعات رونما ہوئے۔ نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست مسترد ہونے سے مسلم لیگی حلقوں میں مایوسی اور پژمردگی چھا گئی۔ شہباز شریف کے آشیانہ کیس اور رمضان شوگر ملز کے تفصیلی فیصلے کی خوشی اور اطمینان کو مسلم لیگی ابھی انجوائے کر رہے تھے کہ نوازشریف کے حوالے سے اس فیصلے نے مسلم لیگیوں کی مسرت کو گہنا دیا۔ بہرحال اب مسلم لیگی رہنما اس بات کا کریڈٹ لے رہے ہیں کہ ہم پر ڈیل ڈھیل یا این آر او کے جو الزامات لگائے جاتے تھے وہ تمام غلط، لغو اور بے بنیاد ثابت ہوئے۔ ظاہر ہے کہ جیسا کہ شہباز شریف کے حوالے سے جو فیصلہ آیا وہ بھی میرٹ پر مبنی ہے اور اسی طرح نواز شریف کے بارے میں بھی فیصلہ میرٹ پر ہی ہوگا۔

اس فیصلے کا تجزیہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے کہ اگر نوازشریف ضمانت پر رہا ہو جاتے تو انتخابات کے سات آٹھ ماہ میں سیاسی منظر تبدیل ہو جاتا۔ تحریک انصاف کی حکومت مشکل کا شکار ہوجاتی، حکومت اور دیگر اداروں کا موقف اور منصوبہ بندی ناکام ہوجاتی، ویسے بھی تحریک انصاف کی حکومت کے طرفدار ہرگز نہیں چاہتے کہ ابھی تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی دبائو یا سیاسی خطرے کا سامنا کرنا پڑے۔ ابھی کوئی تبدیلی نہ تو منصوبے کا حصہ ہے نہ کوئی افورڈ کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے۔ ابھی اس حکومت کو مزید آٹھ دس ماہ آزمایا جاسکتا کیونکہ گزشتہ سات آٹھ ماہ کی کارکردگی ملی جلی ہے جس سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لئے معاملات اور فیصلے ابھی زیر التواء ہیں۔ ہوسکتا کہ نوازشریف کا طبی بنیادوں پر ضمانت کا معاملہ جب تک سپریم کورٹ میں جائے اس وقت تک حالات نواز شریف کے حق میں ہوجائیں۔ ضمانت مسترد ہونے کا ایک تجزیہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اب آصف زرداری کی گرفتاری یقینی ہے، پہلے سندھ یہ الزام دے سکتا تھا کہ پنجاب سے تو لیڈر کی ضمانت پر رہائی ہوگئی اور ہمارے لیڈر کو پکڑ لیا گیا۔ اب یہ اعتراض نہیں رہے گا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) حالات کے باعث قریب آجائینگے۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) کے لئے ایک پہلو سے یہ فیصلہ بہتر ہی ہے کہ نوازشریف جیل میں ایک سیاسی جدوجہد کی علامت کے طور پر موجود رہیں گے، اگر ان کی ضمانت ہوجاتی اور وہ بیرون ملک روانہ ہوجاتے تو موجودہ حکومت کو فری ہینڈ مل جاتا ان کے پاس نوازشریف کی ڈیل کے حوالے سے پراپیگنڈے کے لئے بھی کافی مواد حاصل ہو جاتا اگر نواز شریف کا موقف درست ہے تو انہیں ان ہی صعوبتوں اور مشکلات کے ساتھ اپنے موقف کو منوانے کے لئے مقابلہ کرنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی اس قدر بہتر نہیں ہے کہ اس کو آزاد اور تنہا چھوڑ کر من مانیاں کرنے کا موقع دے دیا جائے۔ اب عین ممکن ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز اپنے پرانے کھوئے ہوئے بیانیے پر واپس آجائیں ۔

شہباز شریف بھی عین ممکن ہے کہ وہ اسی فیصلے کے انتظار میں لب کشائی سے گریزاں ہوں ورنہ آشیانہ سکیم اور رمضان شوگر ملز کیس میں ان کی بےگناہی کے ہائیکورٹ کی جانب سے جو ریمارکس آئے ہیں ان ریمارکس کو عوام تک فخریہ انداز میں بیان کرنے کا ان کے پاس نادر موقع تھا، وہ نیب پر بھی کھلی تنقید کر سکتے تھے لیکن انہوں نے حالات کے پیش نظر’’مصلحت بلکہ مصالحت‘‘ سے کام لیا۔ فیصلے کا ایک ایک لفظ مسلم لیگیوں کا حوصلہ بڑھا دینے والا تھا۔ مسلم لیگی یہ کہنے میں ہرگز غلط نہ ہے کہ نیب نے شہباز شریف پر کرپشن، بے ایمانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا غلط اور صریحاً بے جا الزام عائد کیا۔ عدالت نے واضح طور پر اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ شہباز شریف نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا نہ بد عنوانی کی بلکہ نیب کی نیک نیتی پر شک کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ نیب کی پک اینڈ چوز پالیسی بدنیتی پر مبنی لگتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ حمزہ شہباز کا بھی رمضان شوگر ملز معاملے سے کوئی تعلق ثابت نہ ہوا۔ آشیانہ سکیم میں ایک انچ سرکاری زمین منتقل نہیں ہوئینہ کسی کو نقصان ہوا۔ فاضل جج صاحبان کا کہنا تھا کہ عدالت نیب کے الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ عدالت نے تو انصاف کردیا لیکن سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کی ذات اور سیاسی زندگی کےساتھ ہی مسلم لیگ کو ان الزامات سے جو نقصان پہنچا ہے یا پہنچایا گیا ہے اب اس کا ازالہ یا تلافی کس طرح ہوگی۔ ان کے سیاسی مخالفین خاص طور پر شیخ رشید ان کو چور، ڈاکو کہتے رہے۔ شیخ رشید تو شہباز شریف کو نواز شریف سے بڑا ملزم قرار دیتے رہے۔ اب ان کے الزام ہوا میں اڑ گئے۔ سوال یہ ہے کہ شیخ رشید آخر شہباز شریف سے اتنے خائف کیوں ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے شہباز شریف اور شہباز شریف کے لئے اسٹیبلشمنٹ نرم گوشہ رکھتے ہیں اور متبادل کے طور پر انہیں محفوظ رکھا گیا ہے۔ بہرحال مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے قومی مفادات کی ترجمانی کر رہی ہے کسی دوسری مخالفانہ سوچ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوا، البتہ جو فیصلے اور اقدامات ہو رہے ہیں اس میں یقیناً کسی شعوری کوشش یا سازش کا عنصر ہرگز شامل نہ ہوگا۔ نواز شریف کی ضمانت کے مسترد ہونے کی ٹائمنگ گوکہ مناسب نظر نہیں آتی لیکن مسلم لیگ(ن) پاک بھارت کشیدگی میں پوری طرح حکومت اور فوج کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ شہباز شریف اور دیگر رہنمائوں کے بیانات اس بات کا مظہر ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی کا موازنہ اگر شہباز شریف کے دور سے کیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ دونوں کی کارکردگی میں بہت سا فرق ہے۔ ترقیاتی کام جو جاری تھے وہ یا تو بند کر دئیے گئے یا ان پر کام سست کردیا گیا ہے۔ لاہور کے شہری اورنج لائن ٹرین کے مکمل ہونے کے منتظر ہیں نہ معلوم گزشتہ حکومت میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لئے کہاں سے دولت آرہی تھی اب موجودہ حکومت خزانہ خالی ہونے کا نعرہ فخریہ انداز میں لگاتی ہے۔ کوئی پراجیکٹ بند کرکے خوشی اور مسرت کا اظہار کرتی ہے بلکہ ایسا تاثر جاتا ہے کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کو برا سمجھتی ہے اسی لئے ترقیاتی بجٹ کافی کم کردیا گیا ہے۔ لاہور میں کئی دن سے ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کے ملازمین ہڑتال پر ہیں اور کوڑے کے ڈھیر کئی سال بعد دیکھنے میں آرہے ہیں کیا جارہا ہے کہ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہو سکی ہے۔ وزیر اعلیٰ جنوبی پنجاب کی محرومی کا بہت چرچا کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ پورے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں جس طرح کی ضروریات اور سہولتیں وسطی پنجاب اور خاص طور پر لاہور جیسے میٹروپولٹین شہر کو درکار ہیں اور وہ اس کے بجاطور پر عادی نہیں ہیں۔ ان سے جنوبی پنجاب کی محرومی کے نام پر ان کا جائز حق چھیننا ناانصافی ہوگی۔ جنوبی پنجاب کو صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر اور ان کے نوجوانوں کو ملازمتوں کی ضرورت ہے لیکن اب تک ان کے کیا کیا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب جلد بدیر دینا ہوگا۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین