• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے‘‘، جہاں کروڑوں سیاسی کارکنوں کی بے لوث سیاسی جدوجہد کو جلا بخشا ہے وہیں غاصبوں، آمروں اور اُن کی کٹھ پتلیوں کیلئے یہ نام اور نعرہ خوفناک حد تک نا قابلِ برداشت ہے۔ وہ قوتیں جن کیلئے بھٹو کی زندگی، اُن کے عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی، 40سال قبل بھٹو کو جسمانی طور پر ختم کر کے سمجھ رہی تھیں کہ اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ اصل خطرہ ذوالفقار علی بھٹو نہیں بلکہ ’’بھٹو ازم‘‘ ہے یعنی آپ کسی فرد کو تو قتل کر سکتے ہیں مگر اُس کی فکر کو ختم نہیں کر سکتے، لہٰذا جن کیلئے ذولفقار علی بھٹو ایک فرد تھا، شاید ان کیلئے وہ زندہ نہ ہو لیکن جن کیلئے بھٹو ایک فکر، نظریہ اور فلسفہ تھا، اُن کیلئے وہ زندہ ہے اور ان کی جہدِ مسلسل میں زندہ رہے گا۔


بھٹو شہید اپنی فکر اور سوچ کے متعلق اپنے مخالفین سے یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ ’’میرا مقام ستاروں پر رقم ہے، میرا مقام بندگانِ خدا کے دلوں میں ہے۔ میں محکوموں اور محنت کشوں کا نمائندہ ہوں اور تم امیروں کی نمائندگی کرتے ہو۔ میں ادارے بنانے پر یقین رکھتا ہوں اور تم اُنہیں ہتھیانے کے متمنی ہو۔ میں ٹیکنالوجی پر یقین رکھتا ہوں، تمہارا ایمان ریا کاری پر ہے۔ میرا دستور پر یقین ہے، تم سمجھتے ہو کہ دستور کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔ میں خواتین کی آزادی چاہتا ہوں، تم انھیں اندھیرے میں چھپائے رکھنا چاہتے ہو۔ میں مشرق پر یقین رکھتا ہوں، تم مغرب کے کاسہ لیس ہو۔ جب تم پاکستان کی سلامتی کی بات کرتے ہو تو براہِ کرم ہمیں بتائو کہ تم پاکستان کو غرناطہ بنانا چاہتے ہو یا کربلا‘‘۔


ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کو چار دہائیاں گزر چکیں اور اِن چالیس سالوں میں شہید بھٹو کی فکر کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی، جس کے نتیجہ میں ملک کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے، جس نے عالمی سطح پر پاکستان کے ترقی پسند اور خوشحال ریاست کے تصور کو پامال کر دیا ہے۔ بھٹو دور میں کرپشن کا نام و نشان تک نہ تھا مگر بھٹو ازم کو ختم کرنے کیلئے ضیاء آمریت کی چھتر چھایہ میں کرپشن کی بنیادیں ایسی مضبوط ہوئیں کہ آج سیاست و کرپشن کو لازم ملزم گردانا جاتا ہے۔ سیاست کو عبادت کے بجائے مکر و فریب اور ریا کاری میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ وفاقی جمہوری سیاست کی صوبائی تعصب اور قومیتی منافرت میں تبدیلی کا عمل آج بھی جاری ہے۔ قائدِ عوام کی منتخب آئینی جمہوری حکومت کو ختم تو کیا جا سکتا ہے مگر دلوں سے بھٹو کی حکمرانی ختم نہیں کی جا سکی کیونکہ’’جو دل میں بس رہا ہے حکومت اُسی کی ہے‘‘۔


ہم ہمیشہ تاریخ کو کیوں جھٹلاتے ہیں، معاشرے اور ریاستیں عوام کے لاڈلوں کے ذریعہ ترقی کرتی ہیں اور فلاح پاتی ہیں۔ خواص کے لاڈلے ہمیشہ ناکام، نامراد اور بےنام ہی رہتے ہیں۔


ذولفقار علی بھٹو کے کارنامے اورملک و قوم کیلئے خدمات بیشمار و ان گنت ہیں مگر آج یہ ریاست (ہمالیائی غلطیوں کے باوجود) جن دو ستونوں پر کھڑی ہے وہ دونوں شہید بھٹو کے مرہونِ منت ہیں۔ 1973کا متفقہ آئین ، جو ریاست کی Internal Securityکی بنیاد ہے اور ہماری ایٹمی طاقت، جو External Securityکو یقینی بناتی ہے۔ اگر یہ دونوں نہ ہوتے تو خدا نخواستہ اس ریاست کو قائم رکھنا ناممکن تھا۔ 1973کا آئین نہ صرف متفقہ آئین ہے بلکہ یہ عوام کو ان کے بنیادی، انسانی، جمہوری اور معاشی حقوق فراہم کرتا ہے۔ بھٹو شہید کا دیا ہوا آئین آج بھی عوام الناس اور محروم طبقات کے حقوق کا علمبردار اور ضامن ہے۔1971اور آج کے پاکستان میں سب سے بڑا فرق آئین اور ایٹمی دفاعی صلاحیت ہے وگرنہ بھارت کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ بھٹو شہید کے یہ دو عظیم کارنامے تا ابد اسے امر رکھنے کی دلیل ہیں۔


ملک کو قائم ہوئے 72سال ہونے کو ہیں، بحیثیت قوم ہم نے بہت کچھ پایا اور بہت کچھ کھویا، 22کروڑ لوگوں کی ریاست کو آگے بڑھنے کیلئے سمت قائداعظم اور قائد ِ عوام دے چکے ہیں، وہ ہے جدید فلاحی ریاست کا قیام۔ اب ریاست کو اور قوم کو تدبذب سے باہر نکلنا ہے اور متفقہ طور پر سیکورٹی اسٹیٹ کے بجائے فلاحی ریاست کیلئے اقدامات کرنا ہیں۔ بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا دینا ہو کہ عوام کی سرداری کا انعام یہی ٹھہرے ،اب ہمیں سوچنا ہے کہ سیاسی قیادت کے مقدر میں کفر اور غداری کے فتوے ہی کیوں ہیں؟ بھٹو کے نام سے خوفزدہ قوتیں یاد رکھیں کہ سقراط، سیدنا امام حسینؓ اور منصور حلاج قتل ہونے کے باوجود تاریخ میں امر ہیں تو تاریخ ان کے پیروکار ذوالفقار علی بھٹو کو کیسے فراموش کر سکتی ہے۔ شر و جہل والے جان تو لے سکتے ہیں مگر فکر اور نظریہ کو ختم نہیں کر سکتے، یہی فکر ہمیشہ جمہور کی آواز بنتی ہے کہ ’’اُٹھے گا انا الحق کا نعرہ‘‘۔

تازہ ترین