• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصباح طیب، سرگودھا

اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں، جن کواگر ہم گِننابھی چاہیں،تو نہیں گِن سکتےاوران نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ اُس نےانسان کو اچھائی اور برائی کا راستہ دکھادیا۔ مگر راہِ ہدایت پر چلنے کے لیے کسی انسان پر جبر نہیں کیا گیا،کیوں کہ اگر ایسا ہوتا، تووقتِ آزمایش کھرے ، کھوٹے کی پہچان کیسے ہوتی؟اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دُنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ خالقِ کائنات نے انسان کواس بات کی بھرپور آزادی دی ہے کہ وہ دنیاوی زندگی اپنی مرضی و منشاسے گزارکر آخرت برباد کرلے، یا دنیاوی زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق گزار کر اُخروی زندگی سنوار لے۔ربّانی زندگی سے مراد ایسی زندگی ہے، جو رب تعالیٰ کے احکامات کے عین مطابق ہو۔جس میں انسان کی زندگی کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی ذات ہو، ہر قول و فعل اللہ کی مرضی کے مطابق ہو۔ربّانی انسان، زندگی کے ہر معاملے میں رب کی رضا کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ رب کی پہچان ، اُس کی اِطاعت سے زندگی سنورجاتی ہے۔یعنی اگرہر عمل اللہ کی رضاکے لیےہو، توپھررب صِلہ بھی خوب فیّاضی سے دیتا ہے کہ نیّت کا تعلق باطن سے ہے ،جو صرف رَب ہی جانتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کو دو حصّوں ’’دنیا وی اور اُخروی‘‘ میں بانٹا ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ موت زندگی کا اختتام نہیں بلکہ ابدی زندگی کا آغاز ہےاور اُس زندگی کے سنوار کے لیے دُنیا کے نیک اعمال بے حد ضروری ہیں۔یعنی چاہے کچھ بھی ہوجائے، زندگی کتنی ہی سخت یا خُوش گوار کیوں نہ ہو، اللہ کو نہیں بھُلانا، ورنہ سرکشی پیدا ہوتی ہے ۔ اللہ کے نیک بندوں کی یہی پہچان ہے کہ وہ دنیا کی خوشی کو عارضی سمجھتاہے اور آخرت سنوارنے کے لیے ہر لمحہ مصروفِ عمل رہتا ہے۔ دَر حقیقت ایسےہی لوگ معاشرے کی تربیت کرتے ہیں، وہ لوگوں کو اچھی باتوں کی ترغیب دیتے ہیں، دوسروں کا مذاق نہیں اُڑاتےاور کسی کو خود سے کم تر نہیں سمجھتے۔ اُن کی باتیںسچّی اور سلجھی ہوئی ہوتی ہیں۔ربّانی زندگی ، در اصل مادّی زندگی سے یک سرمختلف ہے ، جس سے انسان کا مزاج بدل جاتا ہے ۔ ایسا انسان اسلامی شعار سے محبّت کرتا ہے۔ وہ بس رب کی معرفت چاہتا ہے ۔ اور معرفت کیا ہے؟ اللہ کو پہچاننا،جو نماز، دعا، اذکار سے ملتی ہے۔ جس طرح رَب تعالیٰ کے کمالات کا کوئی شمار نہیں، اسی طرح مومن کی معرفت کا سفر بھی ختم نہیں ہوتا۔ جو لوگ اپنی ذات اور قول و فعل کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھال لیتے ہیں، وہ اللہ کی حکمت کے راز کو پالیتے ہیں۔ اُن کی سوچ کا رُخ رَب کی طرف اور زندگی"Allah Oriented" ہوجاتی ہے۔

ایسے لوگوں میں اللہ کا اتنا خوف ہوتا ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنا محاسبہ کرتے ہیں۔ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو وہ اللہ سے شکایت کی بہ جائے صبر کرتے ہیںاوراُس کی حمد و ثناء میں کمی نہیں کرتے۔لہٰذا اگر ہمیں زندگی میں کوئی مشکل یا پریشانی پیش آئے، توہمیں رب ہی کی طرف پلٹنا چاہیےکہ یہ دنیا توفقط دو دن کی ہے، اس کی لذّتیں جلد ختم ہوجائیں گی۔اصل میں توہمیں آخرت کی تیّاری کرنی ہے، جوذکر، شُکر، تقویٰ، عمل میں نرمی، حسد سے بچنے، در گزر کرنے اور دوسروں کی مدد ہی سے ممکن ہے۔ایک مومن خود کو ہر لحظہ رب کی نگرانی میں سمجھتا ہے ،یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہی تو ہےاورجو لوگ اللہ کی رضا کے لیے ان مراحل سےگزرکر سُر خ رُو ہوتے ہیں ، آخرت میں ان کےلیے بڑا انعام ہے۔وہ ایسی جگہ رہیں گے، جہاں جوانی کو بڑھاپا نہیں، صحت کے بعد بیماری نہیں اور خوشی کے بعد غم نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی اطاعت کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ روزِ آخرت کی رسوائی و پشیمانی سے بچ سکیں۔ 

تازہ ترین