• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں کسی کاروباری دورے پر بارسلونا میں تھا جب میں نے گلی میں چیزیں بیچنے والے ایک شخص کے پاس ایک بال دیکھی جو ایک ڈیوائس کے ساتھ منسلک تھی۔ یہ ڈیوائس بال کو تقریباً ساٹھ فٹ تک اچھالتی۔ جب بال واپس آتا تو اسے کیچ کیا جاتا۔ میں نے محسوس کیا کہ بال کو کیچ کرنے کے لئے مہارت درکار ہوگی تاہم میں نے یہ ڈیوائس اپنے بچوں کے لئےخرید لی۔ جب میں گھر آیا اور میرے بچوں نے اس کھلونے سے کھیلنا چاہا تو ہم نے دیکھا کہ یہ بال دو فٹ سے بھی اوپر نہیں جاتی۔ مجھے احساس ہوا کہ وہ چیزیں فروخت کرنے والا کم، شعبدے باز زیادہ تھا۔ اس وقت زیادہ تر پاکستانیوں کی حکومت کے بارے میں تیزی سے یہی رائے بن رہی ہے۔ وہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو چکا ہے۔

تمام سیاست دان اپنے عوام کے دل میں توقعات کی شمع روشن کرتے ہیں لیکن عمران خان نے عوام کے ہاتھ ایسے خواب فروخت کئے جن کی نظیر نہیں ملتی۔ مزید یہ کہ اپنے بیانیے کو جاندار بنانے کے لئے وہ پُراعتماد لہجے میں الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے اپنے دعوئوں کا حصار مضبوط کرتے رہے۔ ان کا ایک دعویٰ یہ بھی تھا کہ پاکستان سے ہر سال بارہ بلین ڈالر چرائے جا رہے ہیں۔ اور ایک مرتبہ پی ٹی آئی اقتدا ر میں آگئی تو یہ سلسلہ رک جائے گا۔ بارہ بلین ڈالر کی کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس سے نصف رقم حاصل کرنے کے لئے حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ انتہائی سخت اور تکلیف دہ معاہدہ کیا ہے۔ پھر یہ رقم بھی تین سال میں ملے گی۔

رنگین وعدے اپنی جگہ، لیکن بہت سے لوگ پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کی دیو مالائی داستان سن کر بے چینی محسوس کر رہے تھے۔ اب ایک طرف سنہرے خواب تھے، دوسری طرف پی ٹی آئی کی اناڑی قیادت۔ ان دونوں کو ہم آہنگ کرنے، قابلِ فروخت چورن تیار کرنے اور سابق حکومت کے ترقیاتی کاموں کو بے وقعت کرنے کیلئے ضروری تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی پیہم کردار کشی کی جائے۔ چنانچہ ’’مودی کا یار‘‘ اور انتہائی حساس مذہبی معاملات کو سیاسی بیانیے کاحصہ بنانے کی جسارت کی گئی۔لیکن کیا کیجئے، جو خواب انتہائی سندر اور پُرکشش تھا، اب ایک مہیب عفریت کا روپ دھار چکا ہے۔ اس کی کربناکی صرف نوجوان اور بھولے بھالے افراد ہی نہیں، بہت سے دیگر ہنرمند بھی محسوس کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے سوچ لیا تھا کہ حکومت چلانا آسان ہے، بجٹ کا خسارہ پورا کرنا بچوں کا کھیل ہے، زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا اور ٹیکس کا حجم بڑھانا معمول کی مصروفیات میں سے ایک ہے۔ کسی بھی اچھی صبح یہ کام آسانی سے ہو جائیں گے۔ دیر بس حکومت میں آنے کی ہے۔ اس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری کی لائن لگ جائے گی، قیادت کو ایماندار پاتے ہی لوگ دھڑا دھڑ ٹیکس دینا شروع کر دیں گے اور سادگی پسند اور سلیقہ شعار حکومت اخراجات کم کر دے گی۔

لیکن جب میدانِ عمل میں کچھ کر دکھانے کا وقت آیا تو پی ٹی آئی کی بوکھلاہٹ دیدنی تھی۔ حکومت میں آتے ہی پتا چلا کہ پی ٹی آئی کے توشہ خانے میں مہارت ہے نہ ہنرمندی، منصوبہ سازی ہے نہ تیاری۔ پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والوں کی تمام امیدیں زمین بوس ہو گئیں۔ چونکہ غلطی تسلیم کرنا انسان پر گراں گزرتا ہے، اس لئے اب بھی اس کے کچھ حامی کسی معجزے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ بہرحال وہ بھی اپنے، اپنے بچوں اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ دس ماہ کے قلیل عرصے میں حکومت شہریوں کی فلاح کا ہر اشاریہ نیچے لے آئی ہے۔ پولیو کیسز سے ادویات کی قیمتوں تک اور ڈالر کی اونچی اُڑان سے گردشی قرضوں میں اضافے تک، کوئی محاذ ایسا نہیں جس پر اس کی کارکردگی کا پول نہ کھل رہا ہو لیکن معاشی شعبے میں اس کے اناڑی پن نے ملک اور اس کے عوام کا بے پناہ نقصان کیا ہے۔ نئے پاکستان کا وہ خواب جس میں اشیائے خور و نوش سستی ہوں گی، جہاں بچے بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھیں گے، جہاں ادویات کی قیمتیں شہریوں کی پہنچ سے باہر نہیں ہوں گی، اب بھی ایک خواب ہی ہے۔ درحقیقت تبدیلی اب ایک بھیانک خواب میں تبدیل ہو چکی ہے۔ حکومت میں دس ماہ گزارنے کے باجود پی ٹی آئی حکومت سابق حکومت کی بدعنوانی پر ایک بھی وائٹ پیپر شائع نہیں کر سکی۔ ایک بھی ایسے ٹھیکے کی تفصیلات سامنے نہیں لا سکی جس میں کوئی کک بیک وصول کی گئی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ کک بیکس کا عملی ثبوت پیش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن لاگت میں فرق دکھانا تو مشکل نہیں۔ مثال کے طور پر مسلم لیگ (ن) نے دو بلین ڈالر لاگت سے گیس کے تین پلانٹ لگائے۔

دنیا میں ایسے پلانٹس تلاش کرنا مشکل نہیں۔ پاکستانیوں کو کیوں نہیں بتایا جاتا کہ دیکھیں ان ممالک میں پاکستان کی نسبت کتنی کم لاگت سے ایسے پلانٹس لگائے گئے تھے؟ لاگت کا فرق مسلم لیگ (ن) کی بدعنوانی یا بدانتظامی کو ظاہر کر دیتا۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) حکومت نے قطر اور بعض کمپنیوں کے ساتھ ایل این جی معاہدے کئے۔ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ دیگر کمپنیوں یا ممالک نے مسلم لیگ (ن) کے کئے گئے معاہوں کی نسبت کہیں سستی ایل این جی حاصل کی تھی؟ نرخوں کا فرق عوام کو سابق حکومت کی غلط کاریوں کے بارے میں بتاتا۔ اور پھر اگر مسلم لیگ (ن) انتہائی بدعنوان تھی اور اب پی ٹی آئی انتہائی ایماندار ہے تو بدعنوانی کی نذر ہونے والی رقم اب بچ رہی ہو گی۔ یہ رقم کہاں ہے؟

معیشت تباہ کیوں ہو رہی ہے؟ یا پھر مسلم لیگ (ن) کے خلاف لگائے گئے الزامات جھوٹ کا پلندہ تھے؟ کوئی بھی حکومت سے پچاس لاکھ نئے گھروں یا ایک کروڑ نئی ملازمتوں کے بارے میں نہیں پوچھ رہا۔ تبدیلی کے اس ہوشربا دور میں لوگ دو وقت کی روٹی پوری کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب تو وہ نئے پاکستان کے بھیانک خواب کا تصور کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔

(صاحبِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین