• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقیاتی اسکیموں میں جائز حصہ نہیں مل رہا، وزیراعلیٰ سندھ

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کو ترقیاتی اسکیموں میں اسکا جائز حصہ نہیں دیا گیا، نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں سندھ کے ساتھ ظلم ہوا، 74 ارب روپے سے ایک انچ روڈ نہیں بنایا گیا، مراد علی شاہ نے کہا کہ بزنس کمیونٹی بھی وزیراعظم سےنالاں ہے،پتہ نہیں وزیراعظم کن کی ہدایت پرچل رہےہیں، اکنامی میں 3فیصد بھی نمونہیں ہوسکی ، وزیراعظم نےفیصلےکرتےوقت صوبوں وتاجروں کواعتمادمیں نہ لیا، جب تک اسٹیک ہولڈرزکوساتھ نہیں لیں گےتومسائل رہیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے این ای سی اجلاس سے واپس آنے کے بعد کراچی میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نثار احمد کھوڑو، مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب، وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ، ممبر صوبائی اسمبلی اعجاز جکھرانی و دیگر بھی موجود تھے۔

سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں ہونے والی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ این ای سی کے اجلاس میں کل ہم اسلام آباد گئے تھے، گزشتہ سال نیشنل اکنامک کونسل کے 2 اجلاس ہوئے۔ گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں پانچ سال کا منصوبہ منظوری کے لیے پیش کیا گیا، رواں سال نیشنل اکنامک کونسل کا کوئی بھی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔

وزیراعظم نیشنل اکنامک کونسل کی سربراہی کرتےہیں، نیشنل اکنامک کونسل کے کم ازکم 2 اجلاس ہونے چاہئیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ قومی اقتصادی کونسل آئینی ادارہ ہے، پہلی بار ایسا ہوا کہ این ای سی میں 3 ایڈوائزر لیے گئے، آئین میں لکھا ہے ادارے کی سال میں 2 میٹنگز ہونی چاہئیں، 30 جون تک دوسری میٹنگ ہوگی تو آئینی تقاضے پورے ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نےفیصلےکرتےوقت صوبوں وتاجروں کواعتماد میں نہیں لیا،جب تک صوبوں یعنی اسٹیک ہولڈرزکوساتھ نہیں لینگےتومسائل رہیں گے۔ وہ سمجھ رہےہیں کہ معیشت میں4فیصدگروتھ ہوگی جومیں نہیں سمجھتا کہ ہوگی۔ اجلاس میں 5سال کامنصوبہ منظوری کےلیےپیش کیا، میں نےان سےکہاآپ نے5سالہ منصوبہ صوبےسےشیئرکیا، ان کےپاس میرےسوال کاجواب نہیں تھا۔

انھوں نے کہا کہ وفاق صوبوں کواعتمادمیں لیکرفیصلہ کرے، وفاق اسکیموں سےمتعلق خود ہی فیصلےکررہاہے، وزیراعظم پی ایس ڈی پی منظورکیےبغیرمیٹنگ سےچلےگئے، صنعت کارمجھ سےکہتےہیں وزیراعظم ہم سےنہیں ملتے۔انہوں نے کہا کہ میں نےکہاوزیراعظم سےاکتوبرمیں این ای سی میں ملاقات ہوئی تھی، میں نےوزیراعظم کوکہاسندھ کوپی ایس ڈی پی میں حصہ نہیں مل رہا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ کو اسکیموں میں جائز حصہ نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی نے این ای سی میں جائے بغیر پی ایس ڈی پی (پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام) کو بدل دیا اور ستمبر 2018 میں دوبارہ پی ایس ڈی پی بنا دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے 36 منصوبے پی ایس ڈی پی سے نکال دیئے گئے۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حوالےس ے سندھ کے ساتھ ظلم ہوا ہے، 74 بلین روپے خرچ کیئے گئے جبکہ سندھ میں صرف  1.1   بلین روپے خرچ کیا وہ بھی زمین کے حصول پر خرچ کیے،میرپورخاص-عمر کوٹ سیکشن ہائی وے اسکیم ختم کردیاگیا۔مراد علی شاہ نے کہا کہ روہڑی میں دریا پر پل بنانے کا نواز شریف نے اعلان کیا تھا، ان کے دور میں پہلے 5 کروڑ بعد میں ڈھائی ارب رکھے گئے، میں خوش تھا کہ 4 سال میں اسکیم مکمل ہو جائے گی لیکن یہ اسکیم بھی روک دی گئی۔

شہداد پور، حیدر آباد اور سکھر میں سڑکوں کی اسکیمیں بھی ختم کر دی گئیں۔انھوں نے کہا کہ نواز شریف نے کہا تھا گرین لائن کو ایک سال میں مکمل کریں گے، اس کے انفرا اسٹرکچر پر 3 سال لگ گئے، جب موجودہ وفاقی حکومت سے بات کی تو کہا بسیں آپ لائیں۔ اسکے بعد شہدادپور ۔ حیدرآباد اور حیدرآباد ۔سکھر روڈ کی اسکیمیں بھی ختم کر دی گئیں۔

نادرن بائی پاس منصوبہ جوکہ چھ رویہ تھا اسے بھی پی ایس ڈی پی سے نکال دیا گیا۔اسکے بعد ٹنڈو جام ایچ ای سی اسکیم تھی، مہران یونیورسٹی سینٹر آف آرٹ منصوبہ بھی نکال دیا گیا۔منچھر جھیل کو تازہ پانی دینا تھا وہ بھی نہ ہوسکا، کے بی فیڈر کی لائننگ اور سکھر بیراج کی اسکیمیں بھی نکال دی گئیں۔میں نے وزیراعظم کو کہا کہ آپ نے ہماری 36 اسکیمیں تو نکال ہی دی ہیں اب 31 اسکیمیں اور مزید نکال رہے ہیں، اگر وفاق نے کوئی فیصلہ کرنا ہے تو صوبوں کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ ایس تھری کی اسکیم بھی نکال دی گئی ہے، ایس تھری منصوبہ کیلئے وزیراعظم نے کہاکہ اس میں گھپلے ہوئے ہیں، جس پر میں نے ان سے کہا کہ جس نے بھی گھپلے کئے ہیں، ملوث افراد کو سزا دیں، لیکن کراچی کے شہریوں کو تو سزا نہ دیں۔انھوں نے کہا کہ ایک طرف سندھ میں ترقی پر گالیاں دی جا رہی ہیں دوسری طرف وفاق کہتا ہے کہ سندھ میں کوئی ترقی پذیرعلاقہ نہیں، جب کہ ٹنڈو جام میں ایک منصوبہ تھا وہ بھی نکال دیا گیا۔

 اگلے سال 119 ارب کی اسکیمیں ہیں، ایک طرف کہتے ہیں 10 سال میں سندھ نے کچھ نہیں کیا، دوسری طرف سمری میں اعتراف کیا گیا کہ سندھ میں کوئی کم ترقی والا علاقہ نہیں، وفاق اسکیموں سے متعلق فیصلے خود کر رہا ہے۔ حیدرآباد یونیورسٹی کی 2 ارب کی اسکیم کے لیے بھی صرف 50 کروڑ رکھے گئے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے دیگر صوبوں کو لوکلائیزڈ کیا ہے لیکن سندھ کی لوکلائیز اسکیم پر سنجیدہ نہیں۔

انھوں نے کہا کہ آئندہ سال کے پی ایس ڈی پی میں 129 بلین روپے کی اسکیمیں ہیں لیکن سندھ کو ان میں کوئی بھی خاص شیئر نہیں دیا گیا۔وفاقی حکومت کہتی ہے کہ صوبوں کی سڑکوں کی اسکیمیں نہیں کریں گے تو پھر وفاقی حکومت ساؤتھ پنجاب، بلوچستان اور فاٹا میں سڑکوں کی اسکیمیں کس بنیاد پر جاری رکھے ہوئے ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ میں پسماندہ علاقے نہیں، اور یہی الفاظ میں نے وزیراعظم کو کہا کہ آپ اپنی تقریر میں یہ ضرور کہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ این ایف سی اجلاس کے آخر میں وزیراعظم پی ایس ڈی پی بنا منظور کئے اٹھ کر چلے گئے ، دوسرے روز اخبار میں پڑھا کہ منظور کرلیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وفاقی وزیر برائے ریونیو خسرو بختار سے آج وڈیو کال پر بات چیت ہوئی جنھیں تمام مسائل سے آگاہ کردیا گیا جس پر انھوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ کچھ اسکیمیں جو ختم کی ہیں وہ دوبارہ شامل کریں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 7 ستمبر 2018 کو میں نے وزیراعظم کو خط لکھا تھا کہ جامشورو۔ سیہون روڈ 14 بلین روپے کا ہے جس میں سندھ حکومت نے 7 بلین روپے دیئے ہیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پورا سال گزر گیا اور 14 ارب کی اسکیم پر صرف 15 کروڑ خرچ ہوئے، اس منصوبے پر وزیر اعظم کو خط لکھا جس پر ایکشن لیا گیا مگر نتیجہ صفر ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مراد سعید اسٹیٹ منسٹر تھے وہ کراچی آئے لیکن وزیراعلیٰ ہاؤس میں آنے کو تیار نہیں تھے،اسٹیٹ منسٹر سے مکمل منسٹر بن گئے کیونکہ انہوں نے وزیراعلیٰ سے ملنے سے انکار کیا۔ انھوں نے بتایا کہ 62 بلین روپے کےکراچی پیکیج پر 162 روپے بھی نہیں ملے،گرین لائین منصوبہ کے لئے وفاقی حکومت بسیں دینے پر رضامند ہوئی تھی لیکن کچھ بھی نہیں کیا۔

رواں سال اپریل میں کابینہ اجلاس ہوا، جس میں ایک نفیس منسٹر نے کہا کہ جو سندھ حکومت اسپتالوں پر خرچ کر رہی ہے وہ ہم ایٹ سورس ختم کر دیں گے، اور یہ وجہ ہے کہ وزیراعظم ہر چیز پر نفیس لوگوں کی باتوں میں گمراہ ہوتے ہیں، کچھ لوگ غلط مشورے دے رہے ہیں اور غلط مشورے لیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 7 مارچ 2018، این ای سی کا اجلاس ہوا، شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے، میں نے کہا کہ اسکیم کا صوبہ کے تحت لوکیشن لائک وائیز ہے اور یہ فیصلہ ہوگیا، لیکن اب بھی اسکیم کی لوکیشن نہیں لکھ رہے،اس سے پتہ نہیں لگتا کہ کتنی اسکیمز سندھ کو دی گئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ تھر میں ہم پاور پلانٹس کو پانی دینا چاہتے ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں یہ صوبے کی پانی اسکیم ہونی چاہیے،ہم نے کہا کہ سکھر بیراج، کوسٹل ہائی وے بھی پی ایس ڈی پی میں شامل کریں،میں نے پرپوز کیا ہے کہ موٹروے سے دادو تک اندر سے روڈ تعمیر کریں لیکن ابھی تک انھوں نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔

انھوں نے بتایا کہ نئے پی ایس ڈی پی میں روڈ نیٹ ورک، ایریگیشن اور ہائیر ایجوکیشن کی اسکیمز میں سندھ کو نظرانداز کیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 35 بلین روپے کے منصوبے پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ کو دیے کہ وفاق کی اسکیمز کو ایگزیکیوٹ کریں لیکن یہ کام ہوتے ہوتے 7 بلین روپے کے ہوگئے ہیں،88 اسکیمز سندھ بیسڈ ہیں جو حذف ہو رہی ہیں،ایس تھری منصوبہ 8 بلین روپے کا تھا، شروع میں 50:50 شیئر تھا، یہ کنسیوڈ تھا اس میں ضروری کمپونینٹ شامل نہیں کیے گئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ 100 فیصد انٹریٹڈ پانی سمندر میں ہوتا ہے۔ مزید کہا کہ آئینی ادارے این ای سی، سی سی آئی جس کا ہر 90 دن میں اجلاس ہونا ہے لیکن یہ نہیں کرتے،ابھی سی سی آئی کی میٹنگ شیڈول ہوئی لیکن انھوں نے منسوخ کردی اب شاید 17 جون کو ہوگی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں اچھا سوچتا ہوں، شاید اس لیے کہ نفیس نہیں ہوں، اجلاس سے اٹھ کے جانا غیر سنجیدہ قدم ہے، وزیراعظم نے پی ایس ڈی پی کو منظور نہیں کرنا تھا شاید ممبران ہی منظور کرلیتے ہیں، کیا وہ سنجیدہ نہیں؟ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ مالی مشکلات کا شکار ہے، ہم اپنے بجٹ میں کچھ نئی اسکیمیں شامل کرنے کے خواہاں ہیں۔

انھوں نے کہاکہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے این ایف سی، 18ویں ترمیم کو سی سی آئی کے اجلاس میں مستقل فیچر کیا ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی ہی حکومت چلا سکتی ہے۔ اپنی پریس کانفرس میں انھوں نے کہا کہ سندھ حکومت دوسری صوبائی حکومتوں سے بہتر چل رہی ہے، ہم عوام کے ووٹ سے آئے ہیں اس لیے ہمیں عوام کی فکر ہے۔ مزید کہا کہ وہ شخص جس پر قوم کو فخر تھا کہ وہ تمام مسائل سے ملک کو نکالیں گے وہ خود نکل گئے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سرکولر ریلوے پاکستان ریلوے چلائے گی، یہ وفاقی حکومت کاسبجیکٹ ہے،جب پی ایم ایل(این) حکومت نے لاہور میں میٹرو بنایا تو ہم نے وفاق کو کہا تھا کہ، کے سی آر ہمیں دیں،جو وفاق نے کنسیشن لاہور اورنج میٹرو کو دی ہیں وہ کے سی آر کے لیے سندھ کو بھی دی جائیں۔وزیراعظم نواز شریف نے کے سی آر پر ساورین گارنٹی، کے یو ٹی سی کا کنٹرول اور س پیک میں مدد دینے پر وفاقی حکومت رضامند ہوگئی تھی، لیکن کے سی آر کو 8 ماہ کے بعد ساورین گارنٹی دی گئی۔


منصوبہ سست روی کا شکار ہوگیا حالانکہ کے سی آر منصوبہ کا رائیٹ آف وے بھی انھوں نے ہمیں نہیں دیا ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت کے پاس ریلوے بوگیز اور انجن نہیں ہم 15 دن میں کس طرح لوکل ٹرین چلائیں گے،مراد علی شاہ نے کہا کہ ہمارے ساتھ وفاق کا اچھا سلوک نہیں، ہم اپنا حصہ ان سے لیں گے، لیکن انکی نااہلی کا حل ہمارے پاس نہیں، ہم نے انکو حل بتایا ہے کہ سیلز ٹیکس سندھ کو دے دیں، ہم وصولی کرکے دیں گے لیکن یہ بات وہ نہیں مانتے۔

انھوں نے کہا کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ اسمبلی میں جمع ہوتی ہے، جو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پاس جاتی ہے۔ انھوں مزید کہا کہ میں خیبرپختونخواہ کی بھی آڈیٹر جنرل کی رپورٹ آپ کے سامنے رکھو گا۔ انھوں نے کہا کہ سندھ کی اپوزیشن جماعتوں کو پتہ ہی نہیں، میں 2002 سے سیاستدان رہا ہوں، سیاسی نظام اور سیاسی کام جانتا ہوں، لیکن یہ لوگ کبھی سیاسی سسٹم کے قریب سے بھی نہیں گزرے اور بڑے منصب پر آگئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ نشتر روڈ کے 1.9 بلین روپے کی اسکیم وفاقی حکومت کر رہی ہے اور اس پر 880 ملین روپے خرچ ہوئے ہیں، منگھوپیر 2.4 بلین روپے کی اسکیم ہے اور اس پر 1.37 بلین روپے خرچ ہوا ہے، یہ بنا وفاقی حکومت کر رہی ہے، لیکن اس کا الزام ہمارے اوپر لگا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کہتی تھی کہ 4.4 ٹریلین وصول کرے گی، جس میں ہمیں 100 بلین روپےکے لگ بھگ کم ملے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ این ای سی کا کام ہے کہ اکنامکس سے فنانس پر صوبوں کو گائیڈ کریں، لیکن یہ اپنا کام نہیں کررہے ۔ وفاقی حکومت ہیوی ٹیکسز لگانے جا رہی ہے، ہم ٹیکس ان پر لگاتے ہیں جن کو سہولت دیتے ہیں، لیکن یہ سب پر ٹیکس لگا رہے ہیں،ہمارا غربت کے خاتمے کا پروگرام ہے، جو ہم شروع کرنے جارہے ہیں، اس پروگرام کا چیئرمین پیپلز پارٹی دس جون کو لوگوں کےسامنے  اعلان کریں گے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ ایڈز کا پھیلنا تشویشناک ہے، ہمیں اس کو کنٹرول کرنا ہے لیکن اس پر سیاست کرنا ناقابل برداشت ہے، ہم عوام کی اسکریننگ کروا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم انڈونمنٹ فنڈ قائم کررہے ہیں،متاثرین کی تصدیق بھی مخفی رکھیں گے، میڈیا کو بھی چاہیے کہ ان متاثرین کے نام نہ لیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ایچ آئی وی قابل علاج ہے، لیکن  اسکی بروقت تشخیص ہونا ضروری ہے۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں سندھ کو خاص طور کراچی جناح ایوینیو پر فلائی اوور کی 14 بلین روپے کی اسکیم ہے اور ڈملوٹی تا ایجوکیشن سٹی روڈ، گرین لائین بی آر ٹی کی بھی 10.4 بلین روپے کی ایک اسکیم ہے لیکن اسکے لیے صرف 1 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔

تازہ ترین