• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ اسلام کا وہ کتنا المناک اور درد ناک دور تھا جب دونوں طرف مسلمان تھے مگر ایک دوسرے کے خلاف تلواریں تانے کھڑے تھے اور پھر دونوں طرف گردنوں کے ڈھیر لگ گئے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ زیبا کو اس جہان ظاہری سے پردہ فرمائے ہوئے ابھی ربع صدی ہی گذری تھی یعنی پچیس سال بعد ہی کشت و خون کا یہ منظر دیکھنا پڑا تھا۔ دونوں طرف جید صحابہ کرام بھی تھے۔ ایک طرف امیر المومنین شیر خدا اسد اللہ الغالب باب مدینة العلم امی النبی فاتح خیبر، بدر شبیر و شبر امام الاولیا سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ اور دوسری طرف کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔روزانہ جنگ کا میدان سج جاتا دونوں طرف تکبیر کے نعرے بلند ہوتے، دونوں طرف خدائے رب ذوالجلال کی وحدانیت اور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت و رسالت پر یقین رکھنے والے تھے۔ ان میں سے ایسے ہزاروں تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی سعادت حاصل کی تھی اور شرف صحابیت سے سرفراز ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ کچھ دیر کے لئے حضرت علی المرتضیٰ کی فوج سے غائب ہو جاتے تھے اورجب میدان جنگ سج جاتا تو وہ واپس تشریف لاتے ان کے ساتھیوں نے چلے جانے اور دوبارہ آنے کی وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ کھانا امیر معاویہ کی فوج میں اچھا ملتا ہے اس لئے کھانا کھانے چلے جاتے ہیں لیکن دل علی المرتضیٰ کے ساتھ ہے اس لئے معرکہ آرائی کے لئے اور تلوار کے جوہر دکھانے کے لئے واپس آجاتے ہیں۔ اس واقعہ کو تقریباً تیس سال پہلے علماء اکیڈمی میں پروفیسر حافظ نور الحسن صاحب سے سنا تھا لیکن آج تک ذہن میں ہمیشہ کے لئے ایک ابدی سچائی کی طرح نقش ہوچکا ہے۔ سیدنا علی المرتضیٰ اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان ہونے والی خونی جنگوں نے اسلامی تاریخ کی سمت متعین کردی کہ اب تک تقریباً ہر دور کے اسلامی معاشرہ میں ایسے لوگوں کی اکثریت رہی ہے جن کے دل خالص دینی قیادت کے ساتھ دھڑکتے ہیں لیکن بعض ذاتی، گروہی، مسلکی اور علاقائی، جغرافیائی ،نسلی تعصبات اور مجبوریوں کی وجہ سے وہ ان طبقات کا ساتھ دیتے ہیں جہاں سے انہیں مالی منعفت اور دنیاوی مفاد نظر آتا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے خلاف جن لوگوں نے قرآن حکیم کو ”حکم“ یعنی ثالث بنانے کا مذہبی نعرہ بلند کیا تھا اس کے متعلق مولائے کائنات علی المرتضیٰ نے ارشاد فرمایا تھا ۔ ” کلمة الحق یرید بھا الباطل“ یعنی بات حق کی کررہے ہیں لیکن اصل میں اس سے مراد باطل خیالات ہیں۔ واقعہ کربلا نے اس حقیقت کو مزید واضح اور بے نقاب کردیا کہ امت مسلمہ میں دیانت، امانت اور صالحیت، تقویٰ پرہیزگاری، خدا خوفی اور سنت مطہرہ کی اتباع کی دعوت دینے والے کی بجائے لوگ اس گروہ کی طرف لپکیں گے جہاں انہیں دولت اور اقتدار کی ”جھنک“ اور ”چمک“ دکھائی دے گی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان تو خالصتاً اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن اب ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ نہیں یہ بات غلط ہے ہم نے اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کے لئے تو یہ وطن نہیں بنایا تھا وہ تو ہم ویسے ہی ذرا ہندوؤں کے غلبے سے تنگ آئے ہوئے تھے اور مالی طور پر خوشحال اور مستحکم ہونا چاہتے تھے اس لئے مسلمانان برصغیر کانہ تو کوئی مذہبی نظریہ تھا اور نہ یہ تحریک پاکستان کے پیچھے کوئی مذہبی دینی جذبہ تھا۔ علماء اورمشائخ تو ویسے ہی اس تحریک میں شامل ہوگئے تھے اصل میں تو یہ ”سیکولر“ یعنی لادین لوگوں کی تحریک تھی۔ یہ ہیں وہ خیالات اور نظریات جو آج کل ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں منتقل کئے جارہے ہیں اور انہیں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جارہا ہے اور ان کے ذہن گندے کئے جارہے ہیں۔ ایسے لا دین ”سیکولر“ عناصر کو تقویت دینے کے لئے ہماری طرح طرح کی بولیاں بولنے والی اور مختلف مسلکوں کی نمائندگی کرنے والی اسلامی جماعتوں اور جمعیتوں کی باہمی چپقلش اور مخالفت نے ان مذہبی جماعتوں کو ٹھوس اور فیصلہ کن انتخابی طاقت نہ بننے دیا۔ 1977 کی تحریک نظام مصطفیٰ میں ایک ایسا ماحول بنا جس میں امید پیدا ہوئی کہ شاید اب ملکی قیادت مذہبی رہنماؤں کے ہاتھ آئے گی۔ لیکن مولانا نورانی مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے ساتھی ”اسلام اسلام“ کرتے اسلام آباد کے سٹیشن پر اتر گئے اور جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کا حصہ بن گئے۔ اس کے بعد ایک طویل عرصے تک مذہبی جماعتوں کی ساکھ بحال نہ ہوسکی۔یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکہ مخالف ایجنڈے کی بنیاد پر اور انتخابی نشان ”کتاب“ کو قرآن مجید سے تشبیہ دے کر متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) دو صوبوں میں یعنی خیبر پختونخوا میں مکمل طور پر اور بلوچستان میں جزوی طورپر برسراقتدار آگئی لیکن لوگوں کو وہ تبدیلی نظر نہ آئی جس کی وہ آس لگائے بیٹھے تھے۔ اب پھر 2013 کے الیکشن کی آمد آمد ہے اور ان انتخابات میں حصہ لینے والے ”الیکشن الیکشن“ کا کھیل کھیلنے کے تیار ہو رہے ہیں، انتخابی میدان سج رہا ہے اور کھلاڑی کمر ،ہمت کَس رے ہیں اتحاد بن رہے ہیں ٹوٹ رہے ہیں۔ پرانے کھلاڑی پرانے حربے استعمال کرنے کے لئے پرتول رہے ہیں اور نئے کھلاڑی نیا جال بچھانے کا سوچ رہے ہیں۔ لیکن اس کے لئے کسی نجومی کی ضرورت نہیں کہ جس سے یہ لوگ یہ پوچھیں کہ آنے والے انتخابات کا نتیجہ کیا ہوگا اور بالخصوص مذہبی جماعتوں کا اس میں حصہ کتنا ہوگا۔ صاف نظرآرہا ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس آنے والے الیکشن میں بھی مذہبی جماعتوں کا حصہ ”بقدر جثہ“ ہوگا۔ اس سے مراد ان مذہبی جماعتوں کے لیڈروں کے جسمانی اور ”جثے“ کی طرف نشاندہی نہیں اس سے مراد ان کی سیاسی حیثیت سے ہے۔ یہ بڑے دکھ درد کی بات ہے کہ آج بھی مذہبی جماعتیں آپس میں مختلف عنوانات اور مختلف مخصوص مسلکی نظریات میں بٹی ہوئی ہیں اور ان کو الیکشن میں واضح پذیرائی حاصل ہونے کے امکانات بہت کم ہیں تقریباً تمام مذہبی جماعتیں خالصتاً سیکولر سیاسی جماعتوں سے الیکشن کا اتحاد کرنے کے لئے کوششیں کررہی ہیں ۔ یہ اتحاد کیا ہوتا ہے دراصل سیاسی جماعتوں کی طرف سے ملنے والی چند سیٹوں کی خیرات ہوتی ہے جو حاصل کی جاتی ہے اور اسے ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ کا نام دیا جاتا ہے۔ ہر مذہبی جماعت کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ اسے پارلیمنٹ میں دل بارہ نشستیں مل جائیں تاکہ وہ اپنا سیاسی وجود قائم رکھ سکے اور سیاست میں ”ان“ رہ سکے یعنی تبدیلی اور انقلاب کا پیغام دینے والے چند سیٹوں پر قناعت کرکے ان سیکولر سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کرلیتے ہیں جن کے خلاف اپنے کارکنوں کو اشتعال دلاتے رہتے ہیں ترکی میں الیکشن کے ذریعے مذہبی قوتوں نے متحد ہوکر کامیابی حاصل کی اور کررہے ہیں کیونکہ مقبول عوام ہیں، ایران میں آیت الللہ خمینی کا انقلاب آیا تو ایک فرد کے پیچھے پورا ایران کھڑا تھا۔ مصر اور لیبیا کے عوامی انقلاب کے پیچھے بھی حسنی مبارک اور قذافی کے خلاف مشترکہ سیاسی جدوجہد تھی۔ شام میں بھی ایک بھرپور عوامی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں لوگ ڈکٹیٹر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں ”مجاہدین “ جب تک متحد ہوکر غیر ملکی استعمار کے خلاف تھے انہیں کامیابی نصیب ہوئی جب وہ آپس میں لڑنے لگے تو عبرت کا نشان بن گئے۔ پاکستان میں الیکشن الیکشن کے اس کھیل میں مذہبی جماعتوں کو کبھی حصہ ملنے والا نہیں ہے۔ انہیں چند سیٹیں ملیں گی اوروہ اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔
تازہ ترین