• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت سے دوستوں نے کہا کہ’ٹینشن اور ٹاک شوز نے لوگوں کو ادھ مُواء کررکھا ہے اس لئے اس بار وہ قصہ سنائیں جس میں ایک گوری نے ایک پاکستانی افسر کے چرنوں کو ہاتھ لگا کر معافی مانگی تھی“۔ چلیں وہ بھی سن لیں ۔
ماسکوکے IBISہوٹل کا کرایہ توزیادہ تھا مگر یہ جان کر تمام دوستوں (گریڈ بیس کے دس پاکستانی افسروں )کو قدرے اطمینان ہوا کہ ناشتہ کمپلیمنڑی ہے اورکرائے میں ہی شامل ہے ۔ہوٹل پہنچ کر تھکاوٹ کے باعث سب لوگ جلدی سوگئے اورصبح اپنی اپنی عادت کے مطابق جلد اور بدیراُٹھ کر ڈائننگ ہال میں آئے اورناشتہ کرکے چلے گئے سب پر بھاری ۔۔۔بھرکم افسرمکّرمی میمن صاحب کو جب اس طرز ِطعام کی خبر ملی تو سخت برافروختہ ہوئے (پاکستان سے آتے ہوئے جب جاوید نے جہاز میں میمن صاحب کی خوش خوراکی کے بارے میں پوچھا تو فضل کہنے لگا کہ بلاشبہ اس میدان میں ان کا کوئی مّدِمقابل نہیں ڈائیٹنگ کامشورہ دینے والے کودہشت گرد سمجھتے ہیں ان کی پسندیدہ جگہ طعام گاہ ہے جہاں ان کا جوش وولولہ اور صلاحیتیں اوجِ کمال پر پہنچ جاتی ہیں قریبی عزیزانہیں وزن کم کرنے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں۔ ایک بار بھابی صاحبہ ڈاکٹر کے پاس لے گئیں تو جاتے ہی کہنے لگے ڈاکٹرصاحب”کھانا چھوڑنے کی بات نہ کریں یہ بتائیں کہ میں کیا کھاؤں جس سے میرا وزن کم ہو“۔انہوں نے فوری طورپراپنے کمرے میں تمام دوستوں کی ایمرجنسی میٹنگ طلب کرلی جس میں انفرادی طورپرطعام گاہ میں جانے اوروہاں سے جلدی فارغ ہوجانے پرناپسندیدگی کااظہارکیا۔نیز اس صبح کو زندگی کی ایک انتہائی ناکام صبح قراردیتے ہوئے اپنے خطاب میں تنظیم ،اتحاد اورمنصوبہ بندی کی اہمیت پر روشنی ڈالی ،ہوٹل کے کرائے پر تحفظات کا اظہارکیا اوراس کی کسرکسی اور کھاتے یعنی ناشتے میں نکالنے کی تجویز دی جسے سب نے برضاورغبت قبول کیا۔تقریرکے اختتامی حصّے میں انہوں نے بڑے پرجوش اندازمیں انصاف کی اہمیت اورفضیلت کو اجاگرکیا جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ کل ناشتے کے ساتھ بھرپورانصاف کیا جائے گا۔کمرے سے نکل کرجاوید نے کہاکہ میمن صاحب کواپنی وُسعت ِشکم اوربسیارخوری پربڑامان ہوگا مگر ہمارے محمودصاحب بھی مقابلہ جَم کرکریں گے۔
دوسرے روز صبح میمن ومحمود کی مشترکہ قیادت میں ہماراڈائننگ ہال میں داخل ہونے کا اندازکسی لانگ مارچ سے کم نہ تھا ۔آنکھوں سے اُبلتے ہوئے جارحانہ عزائم دیکھ کرطعام گاہ کی انچارج مس مارگریٹ خوفزدہ ہوگئی مگر جلدہی وہ دوسرے مہمانوں کی طر ف متوجہ ہوگئی۔
ڈائیننگ ہال میں محمودصاحب نے اشیائے خوردونوش پر طائرانہ بلکہ تھانیدارانہ نظرڈالی ،میمن صاحب نے عقابی کی بجائے قصابی نظروں سے جائزہ لیا یعنی ہردوحضرات نے ہدف کو ایسے دیکھا جیسے قصائی بکرے کو،تھانیدارغریب ملزم کواورٹی وی اینکرمہمانوں کو دیکھتا ہے ۔
اس کے بعد ہدف سے نظریں ہٹائے بغیرترجیحات کا تعین کیا گیا ،حکمت ِعملی ترتیب دی گئی ،میسرہ کی کمان
محمودصاحب اورمیمنہ کی خود میمن صاحب نے سنبھال لی۔ قلب پر جاوید،رضااورریاض کو مقررکیا گیا اوربڑے منظّم طریقے سے ہدف کی جانب پیش قدمی شروع کردی گئی۔ جونہی محمودصاحب نے اشارے سے ’یلغارہو‘کا اعلان کیا، میمنہ والوں نے تازہ فروٹ پریلغارکردی۔میسرہ والے بھُنے ہوئے مُرغ پرٹوٹ پڑے خود میمن صاحب جوس کی میز پرحملہ آورہوئے ۔قلب والوں کا حملہ اس قدراچانک اورشدید تھا کہ نہ کوئی جگ بچ سکااورنہ کوئی ٹرے سامنے ٹھہرسکا عفّت پریشان ہوکر کہنے لگیں لوگ بڑی عجیب نظروں سے ہمیں دیکھ رہے ہیں مگرکمانڈر وں نے یہ کہہ کر بی بی کا اعتراض مستردکردیاکہ”تندیٴ بادِ مخالف سے گھبرانے والے کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتے“محمودومیمن جوس کے تین تین جگ پیٹ میں انڈیلنے کے بعد سیریل کی جانب بڑھے اُدھرمیمنہ والوں نے تربوز،سیب اورمالٹوں کے کشتوں کے پشتے لگانے کے بعد انڈوں اورآملیٹوں کے ساتھ پنجہ آزمائی شروع کردی۔ میں اورسہیل مکھن اوربریڈ سے دودوہاتھ کرنے لگے تو میمن صاحب نے یہ کہہ کرروک دیا کہ اصل معرکہ اسی محاذپر ہوگا اوروہ پوری تیاری کے ساتھ ہوگا۔ایک نان کمرشل وقفے کے بعد تازہ دم ہوکرسلائش شہداورمکھن سے دست بدست جنگ شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ ناشتے کا وقت ختم ہوگیا ہے۔فوری طورپراضافی وقت مانگا گیا،مذاکرات ہوئے ہم نے ہال میں تاخیر سے آنے کی دلیل دی ۔مس مارگریٹ نے ہماری حساب دانی سے زیادہ جذبوں کی فراوانی سے متاثر ہوکر اضافی وقت عنایت کردیاجس پرمیمن صاحب نے سب کومبارکباد دی ۔مکھن اورجام کی اہمیت وفضیلت اجاگر کرنے کے لیے محمود صاحب نے ایک مشہور تحصیلدارکا پسندیدہ شعرسنایا جسے وہ اپنا ماٹواورمشن سمجھ کرہرروزعلی الصبح خالی پیٹ سات دفعہ پڑھا کرتا تھاکہ #
کرنی پڑے جو نوکری مالِ حرام کے بغیر
ایسے ہے جیسے ناشتہ مکھن وجام کے بغیر
میں، سردارنواز اورسہیل پہلے ہی پورے جوش اور ولولے کے ساتھ مکھّن وجام سے پنجہ آزمائی کررہے تھے، اب تازہ دم کمک پہنچنے سے حملے کی شدّت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اورہدف کو تہس نہس کرکے رکھ دیا گیا ہر ٹرے کے خاتمے پر رضا کاصوفیانہ لَے میں نعرہ گونجتا کہ عُلا پھر ایک باروہی مکھّن وجام اے ساقی ‘ ، میدانِ کارزارکا یہ عالم تھا کہ بقولِ فیض جابجا بکھرے ہوئے میز پہ برتن ڈھیروں! ایک محتاط اندازے کے مطابق اس معرکے میں جَیم کی آٹھ بوتلیں ،چارکلومکھن اوربیس درجن سلائس کام آئے۔اس جنگ ِدست بدست کے بعد میمن صاحب ہانپتے ہوئے ایک طرف بیٹھ گئے ۔جاویدنے پوچھا ”رج گئے او“اشارے سے کہا ”نئیں تھک گیا واں“مس مارگریٹ جس کے بارے میں سردارنواز کی ماہرانہ رائے تھی کہ یہ شرمیلی کم اورغصیلی زیادہ ہے کی آنیاں جانیاں بڑھ گئیں ،تو اس کے تیور دیکھ کرسالاروں نے ہاتھ بلندکرکے یلغار روکنے کا اعلان کردیا اوروہ اپنی ٹیم کومیدان یعنی ڈائننگ ہال سے باہر لے گئے۔دوسرے روز پھر اسی طرح اہداف کا جائزہ لیا گیا۔ ترجیحات طے ہوئیں ۔حکمت ِعملی تیارہوئی محمودصاحب نے منہ سے طبلِ جنگ بجایا اور’یلغار‘ہوکے نعرے کے ساتھ ہی وطنِ عزیز کے شاہین اہداف پرٹوٹ پڑے دوسرے روز حملے کی شدت پہلے سے کہیں زیادہ تھی ۔جاتے ہی رضا نے چھری لہرائی اورہاتھ گھماکرایک جواں سال بگّوگوشے کو کاٹ کررکھ دیا۔جاوید کانٹے سے مسلح تھااس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،کانٹا برچھی کی طرح تربوز کے سینے میں اُتاردیا۔ عفّت ڈبل روٹی اورجیم پرتابڑتوڑحملے کررہی تھی ۔پاکستانی سول سروس کے جانبازوں کی چھریوں اورکانٹوں سے بجلیاں کوندرہی تھیں اوراہداف کٹ کٹ کرگررہے تھے۔ ڈاکٹر سکندرصاحب تاریخی اورتحقیقی حوالے دیکر جذبات کو گرما رہے تھے ۔میمن ومحمودکے ولولے دیکھے نہ جاتے تھے وہ دونوں ہاتھوں کا بھرپوراستعمال کررہے تھے ۔اگردائیں ہاتھ میں جوس کا جگ ہے تو بائیں میں شہد کا پیالہ ہے۔ دائیں میں آملیٹ ہے تو بائیں میں جیم ہے ،ان کے ہاتھوں کی مصروفیت دیکھ کر ڈاکٹر سکندرنے آگے بڑھکرعلم خود اُٹھالیا ۔جاوید کی پُر جوش آواز گُونجی #
جَیم توجَیم ہے تِکّے بھی نہ چھوڑے ہم نے
روس کے شہروں میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
معرکے میں کئی چھریاں کام آئیں اورکئی کانٹے ٹوٹ پھوٹ گئے مگر دست بدست معرکہ جاری رہا ۔سات آٹھ حملوں کے بعد جب میمنہ اورمیسرہ والے تھک کربیٹھنے لگے تو میمن صاحب نے ہال کو تقریراسکوائر سمجھ کر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ساتھیو’آج کے اس معرکہٴ حق وباطل میں اگر ہم نے ہمّت ہاردی تو تاریخ اورپیٹ کبھی معاف نہیں کریں گے۔ہم پر لازم ہے کہ سترہ حملے پورے کرکے معرکہٴ سومنات کی تاریخ دھرادیں، آگے بڑھو اوراسے سومنات بنادو“اورپھر وقت نے دیکھاکہ واقعی سٹاف کالج کے صَف شکنوں نے ڈائیننگ ہال کو سومنات میں تبدیل کردیا ۔مارگریٹ کی بے بسی قابلِ رحم تھی ۔کیا دیکھتے ہیں کہ وہ آہستہ آہستہ میمن صاحب کی جانب بڑھی بہت قریب پہنچ کر اس نے میمن صاحب کے گھٹنوں کو چھوا پھر ہاتھ باندھ لیے اورالتجا کی” وے تُوں جِتیامیں ہاری“ پھرمادام نے ٹوٹی پھوٹی اردومیں پوچھا ”آپ سارے کا سارا گوجرانوالہ سے آیا ؟“ میمن صاحب نے جواب دیا ”نہیں ہم سب پاکستان کے افسرہیں جو کھانے پینے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں“ مادام کی اپیل پر ہاتھ روک لئے گئے ،ہتھیار رکھ دئیے اورعلم سمیٹ لئے گئے معاہدہ طے پاگیا مبارکبادیں دی گئیں۔میمن ومحمودکو فتح کے گلدستے پیش کئے گئے جو انہوں نے فوری طورپرڈاکٹر صاحب کے حوالے کئے اورخودحسب ِمعمول تیز قدموں سے Toilets کی جانب چل پڑے۔
تازہ ترین