• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
اردو کی ہر دم ہڑک رکھنے والوں کے دل میں اس سے متعلق بہت سی فکریں بھی لاحق ہیں کہ اس زبان کا کیا ہوگا؟ کیونکہ جب دنیا میں ہی بہت سی زبانیں اپنے وجودکی جنگ لڑ رہی ہیں تو اردو کوئی آسمانی صحیفہ تو ہے نہیں مگر ہمارا دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے جب ہم مختلف آرا و تبصرے تنقید سنتے ہیں تو احساس جاگ کر کچوکے لگاتا ہے کہ ہائے میری اردو کیا کروں میں تیری احیائو بقا کیلئے۔ دراصل ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ کافی نہیں ہے ہم صرف یہ ہی کرسکے کہ دنیاوی دیگر زبانوں کی طرف سے آنکھیں موند کر صرف اردو ہی بولتے رہے گھروں میں آردو کا چلن رکھنا ضرور مگر سختی سے اس پرکار بند نہ خود رہ سکے اور نہ ہی اپنی نسلوں میں اردو سے محبت کا جذبہ و دیعیت کرسکے، کہیں نہ کہیں دل میں دوسری زبانوں کو اپنی بڑائی اور دوسروں پہ دھونس و رعب کا عنصر جان کر دل و جان سے ان کی طرف بھی مائل ہوئے ہیں۔ دیسی اور ولائتی کا تڑکہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں رکھنے والے کب مخلص ہوسکتے ہیں اپنی زبان سے یا اپنی ثقافت سے یا اپنی تہذیب و روایات سے۔ اپنی زبان سے محبت کا یہ حال ہے کہ اگر ہماری نوجوان نسل سے ہم ان کا حال پوچھیں کہ آپ کیسے ہیں؟ پھر جواب میں وہ کہیں کہ I am ok تو ہم خوشی سے اثبات میں سرہلا دیتے ہیں کہ شکر ہے بچے نے جواب تو دیا بھلے ہی انگریزی میں آئی ایم او کے کہا پر جواب تو دیا۔ تو بچے کے جواب سے خوش ہونے والے اس کے سر پر اردو کا بھوت سوار نہیں کرتے کہ اردو میں جواب دو یہ بس اتنا ہی کافی ہے۔ تبھی پھر کہنا پڑے گا کہ اردو کا چلن گھروں میں رکھا مگر اپنے گھروں کو ہم باقاعدہ اردو گھرانہ نا بناسکے جو کبھی اردو کے گھرانے ہوا کرتے تھے برصغیر پاک و ہند میں۔
اردو کی فکر اپنی جگہ بجا ہے مگر کہا جارہا ہے کہ گزشتہ پچاس سالوں میں دنیا کی دیگر زبانیں بھی نہ ٹھہر سکیں بلکہ کہیں کہیں تو اس کے نام و نشان تک مٹ چکے ہیں یا مٹتے جارہے ہیں۔ پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد اردو زبان کو سینے سے لگا کر ہم نے بھارت سے ہجرت کی اور دیگر شعبوں کی طرح اردو کی آبیاری بھی کرتے رہے۔ تین چار دہائیوں تک تو ہمارے ملک میں اردو کا بول بالا رہا اور پاکستان کا ماحول بھی خاصا کلاسیکل رہا مگر پھر ہماری تہذیب نے انگڑائی لی، ثقافت نے غیروں کے گھر جھانکنا شروع کردیا۔ روایات فرسودہ لگنا شروع ہوئیں۔ رسوم کو غیر روایتی کہا گیا، پاکستان قدیم سا نظر آنے لگا۔ اردو کو گرچہ دفتری زبان کہا گیا مگر انگریزوں کی غلامی کرنے والوں کے اندرغلامی کے جراثیم ختم نہ ہوسکے اور انہیں انگریزی زبان کی ہڑک اٹھی یوں پھر انگلش میڈیم اسکول سسٹم نے جنم لینا شروع کیا کیونکہ انگریزوں کی دی ہوئی دولت نے نمک تو حلال کرنا تھا پھر اسی انگلش میڈیم اسکول سسٹم نے کئی جدید رجحانات کی بنیاد ڈالی جسے جدید دور کے تقاضوں کی مجبوری گردانا گیا پھر اسی اسکول سسٹم نے اردو کو خال خال ہی اہمیت دی، کہیں اردو نصاب شامل کیا گیا اور کہیں اردو کو بالکل ہی اگنورکیا گیا۔ مجبوری یہ کہ پھر بچے انگلش مضامین پر توجہ نہ دے سکیں گے پھر والدین کو بھی اس بات کی جلدی تھی کہ بچے فوراً سے فرفر انگلش بولنا شروع ہوجائیں اور یہ تبھی ممکن تھا جب اردو سے پوری طرح غفلت برتی جاتی۔ یوں پھر بعض گھرانے اردو گھرانے تو کیا کوکونٹ گھرانے بن کر رہ گئے یعنی ایسا ناریل جو باہر سے برائون اور اندر سے سفید ہوتا ہے۔ کتنا ہی شوق ہو آپ کو خیالات، سوچ، حالات، ماحول کو سفید(انگریزی) کرنے کا مگر آپ اپنی شکل اور حلیہ و پیکر تو نہیں بدل سکتے اگر وہ بدل سکتے ہو تو بھلے انگلش یا فرنچ ہو جائو۔ ہم سب اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ہمارے ملک میں آدھی سے زیادہ یعنی 60% فیصد تو دیہات کی آبادی ہے۔ شہری آبادی کا 10% فیصد بھی طبقہ انگلش میڈیم کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا مگر یہ کم فیصد کے طبقے نے شہری اور دیہاتی زندگی میں احساس کمتری پیدا کردیا اور ان کی دیکھا دیکھی پھرہر کسی نے اردو زبان کی حدود و قیود سے باہر آنا شروع کردیا۔ ممی ڈیڈی سے اب موم ڈیڈ کا اختصار انہیں امی جان اور ابا جان کی زحمت و دبا کر بولنے ہی کی قید سے آزاد کرگئے۔ تقلید جہاں اپنی زبان اپنی روایات کو بھسم کرتی ہے وہاں جرائم کو بھی جنم دیتی ہے۔ کیونکہ ہاتھی بندھا دیکھ دوسروں کے دروازوں پر پھر اپنا دروازہ اچھا نہیں لگتا مگر کون سمجھائے ان جدت پرستوں کو کہ اپنی چیز خواہ کیسی بھی ہو اپنی ہوتی ہے۔ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اردو صرف ہماری بول چال او وسیلہ اظہار بن کر رہ جائے۔ ہم اسے بھرپور دیکھنا چاہتے ہیں۔ جس میں بول چال سے علاوہ رسم الخط، لغایات، ڈکشنری جدید و قدیم الفاظ کی اور گرائمر وغیرہ سبھی کچھ ہو ہماری نوجوان نسل صرف بولنا ہی نہیں لکھنا پڑھنا بھی جانے۔ احساس کمتری کی تہہ دار چادر اورٹھ لی ہے لوگوں نے معلوم نہیں کیوں اپنی خوبصورت زبان اردو سے غفلت برت کر۔ جبکہ جب یہ رائج ہوئی اسے تہذیب کا، ادائے آداب کا، دھیمے سروں کی ملکہ کا نام دیا گیا اور بھی شاندار الفاظ سے نوازا گیا۔
کہنے والے تو کہتے ہیں کہ تشویش کی بات نہیں اردو دنیا بھر میں بولی جارہی ہے۔ یہ سن کر تسلی سی ہو جاتی ہے جبکہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ ہر اردو بولنے والے کی سانس کے ساتھ ہے۔سانس ختم تو زبان بھی ختم یعنی کہ آپ زندہ ہیں جب تک تو اردو بولی جاتی رہے گی مگر آپ کے بعد آپ کی نسل تو انگریزی ہی بولے گی۔ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ اردو نہ صرف سانس کے ساتھ ہے بلکہ عربی کے بعد اسے دینی زبان کا درجہ بھی ملا کہتے ہیں کہ بعض ممالک میں اردو کے مراکز قائم ہیں وہاں دینی تعلیم سے پہلے اردو کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اردو ہی کو ذریعہ بناکر دینی تعلیم کا آغاز کیا جاتا ہے۔ تشویش اپنی جگہ ہے مگر ماہرین کے مطابق اردو سانس اور رواج کے مطابق چلی رہے گی۔ اردو کو نقصان اردو والے ہی پہنچاتے ہیں۔ کیونکہ اس کی ترویج اور ترقی میں ہماری پیش رفت زیرو ہے۔ ہم غیر ممالک میں رہنے والے اس کی اہمیت خوب جانتے ہیں اور حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھیں۔ مگر جب اپنے ملک میں یہ غیر ہو جائے گی تو گلہ کیسا ؟ بھارت جہاں اور دشمنیاں نبھاہ رہا ہے وہاں وہ اردو بھی ختم کرنا چاہتا ہے وہ موضوع پھر کسی کالم میں بیان کریں گے۔
تازہ ترین