• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورۂ امریکہ کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ کے منہ سے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کے الفاظ کیا نکلے، تمام پاکستانی خوشی سے اچھلنے لگے کہ بس اب مسئلہ کشمیر حل ہوا کہ ہوا مگر چند ہی دن بعد مودی سرکار نے ٹرمپ کارڈ کھیل کر اپنے تئیں مسئلہ کشمیر حل کر ڈالا۔ حالیہ G-7اجلاس میں بھی صدر ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کی مگر مودی نے یوں ہنس کر ٹال دیا جیسے یہ مسئلہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی سرکار اس وقت شدید خود فریبی کا شکار ہے، وہ اپنے طور پر فتح کے نشے میں دھت ہے مگر دوسری جانب ردعمل بھی روز بروز شدید سے شدیدتر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تمام تر پابندیوں اور کرفیو کے باوجود بھی مقامی تحریک کو دبایا نہیں جا سکا، عالمی سطح پر میڈیا میں مسئلہ کشمیر جتنا اب زیر بحث آ رہا ہے، پہلے شاید کبھی نہ آیا ہو، وزیراعظم عمران خان نے بھی جنرل اسمبلی اجلاس میں دبنگ تقریر کا وعدہ کیا ہے، جمعہ کے روز جو پاکستانیوں نے باہر نکل کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا ہے، اس کو بھی عالمی میڈیا نے بھرپور کوریج دی ہے، قوم سےخطاب میں وزیراعظم پاکستان نے آخری حد تک کشمیریوں کی مدد کے عزم کا اظہار کیا ہے؛ تاہم جنگ کے امکانات کا بھی اعادہ کیا ہے اور ساتھ ہی بھارت اور اقوام عالم کو خبردار بھی کیا ہے کہ ایٹمی طاقتوں کی لڑائی میں ہار جیت نہیں ہوا کرتی بلکہ دونوں کی تباہی ہوتی ہے اور اس تباہی کے اثرات دور دور تک ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اور عالمی سطح پر کیے گئے ان اقدامات کا اثر بھارتی سرکار پر کس حد تک ہوتا ہے، کشمیریوں کی جدوجہد کس انتہا تک پہنچ پاتی ہے یہ تو وقت ہی بتائےگا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں اور پاکستانی حکومت جذبہ زور پکڑ سکتا ہے کیونکہ بھارت جنگ کے علاوہ اپنا انتہائی قدم اٹھا چکا ہے۔ پاکستان ابھی تک نہایت دانشمندی سے سیدھی انگلیوں سے گھی نکالنے کے لیے کوشاں ہے تاہم ٹیڑھی انگلیوں کے لئے بھی تیار و چوکس ہے۔ بھارتیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ شہادت کے جذبے کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ آج کل بھی جبکہ خطہ ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے، پاکستان میں عوام الناس کا جوش و جذبہ دیکھ کر عجب War Festivityکا گماں ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حالت جنگ میں صرف پاکستانی فوج ہی نہیں لڑا کرتی بلکہ ہر ہر پاکستانی جانباز سپاہی کے قالب میں ڈھل جاتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی قوم میں یہ دم خم کہاں کہ بائیس کروڑ سربکفن جانثاروں کے سامنے کھڑی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی بدمستی اور حماقت سے سب سے بڑھ کر نقصان بھارتی عوام کا ہی ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے شہروں میں سول سوسائٹی اور سمجھدار بھارتیوں نے باہر نکل کر اپنی حکومت کے حالیہ اقدامات کی مخالفت شروع کر دی ہے، ہمیں یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ پورے بھارت میں صرف آر ایس ایس کے انتہا پسند ہندو ہی آباد نہیں بلکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو امن پسند ہیں اور پُرامن زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ بھارتی سرکار کی ہٹ دھرمی اور غیر دانشمندانہ اقدام نے دراصل ایک ارب سے زائد بھارتیوں کی زندگیاں داؤ پر لگا دی ہیں، انہیں اپنا جان و مال خطرے میں دکھائی دینے لگا ہے، لہٰذا اب جبکہ ایسے بھارتیوں کو اپنے سروں پر جنگ کے بادل منڈلاتے نظر آ رہے ہیں تو انہیں خاموش تماشائی نہیں بنے رہنا چاہئے بلکہ باہر نکل کر مودی سرکار کے ہاتھ روکنا چاہئیں۔ ایٹمی جنگ مسئلہ کشمیر کا حل ہرگز ہرگز نہیں ہے بلکہ مکمل تباہی و بربادی ہے۔ کسی ایک ملک کے عوام اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ایٹم بم صرف ہم گرائیں گے اور دوسرے ہلاک ہوں گے۔ نہیں جناب! آنکھیں کھولیں، جنگوں میں ایسا نہیں ہوا کرتا۔ آپ کو وزیراعظم پاکستان کے وہ الفاظ یاد ہوں گے کہ جنگ شروع کرنا بہت آسان مگر پھر وہ کس طرف اور کہاں تک جائے، یہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ لہٰذا بھارتی عوام، کشمیری اور پاکستانی، انہیں جذباتیت سے ہٹ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا۔ اس وقت مودی سرکار کو مذاکرات کے لئے یا تو بھارتی عوام مجبور کر سکتے ہیں یا پھر 5اگست کے بھارتی اقدام کے جواب میں پاکستان کا کوئی سخت ترین اقدام کہ بھارتی وزیراعظم شور مچاتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آن بیٹھیں اور سب فریق Win Winپوزیشن میں مسئلہ کشمیر حل کر لیں۔

تازہ ترین