• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد اب اس بات پر توجہ دی جارہی ہے کہ وہ کونسے عوامل ہیں جو طالب علموں کو کلاس روم کے اندر اور باہر سیکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں طالب علموں کے لیے نئے خیالات متعارف کروائے جارہے ہیں، جن سے انہیں اپنا ہوم ورک کرنے اور امتحانات دینے کی قابلیت کے بارے میں تشویش کا سامنا کرنے اور سیکھنے کی جانب راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ 

یہ نئے دور کی ضرورت ہے اور بہت سے اساتذہ، ریسرچرز اور تعلیمی مشیر اس بات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہیں کہ اپنی مہارتو ں اور صلاحیتوں کی آبیاری کے دوران طلبہ اتنی ساری پیچیدہ معلومات کو ایک ہی وقت میں کیسے ہضم کر پائیں گے۔

پس منظر

سائنسدان اور نفسیات دان بہت زیادہ فکر مند ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو کوئی روّیہ اپنانے پر مجبور کرتی ہے جبکہ ماحول بھی ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی تحقیق تواتر سے طلبہ کی اسکول و کالج میں کیریئر کی فیصلہ سازی کے حوالے سے کی جاتی رہی ہے اور اب اس ضمن میں نئے سوالات بھی شامل کیے جارہے ہیں کہ درحقیقت طلبہ کو کون سے ذرائع کی ضرورت ہے۔ 

اس قسم کی چھان بین ان طلبہ کیلئے بہت اہم ہے، جو نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہیں، فیس ادا نہیں کرپاتے ، گھر اور گھر سے باہر معاندانہ رویہ کا شکار ہوتے ہیں یا پھر اپنے تعلیمی شوق کو پورا کرنے کیلے جدوجہد کرتے ہیں۔

جذبہ اور ترغیب

باقاعدگی سے کلاس اٹینڈ کرنا، اسائنمنٹس مکمل کرنا اور پڑھائی پر توجہ دینا، یہی سب سے اہم رویّے ہیں، جن کے بارےمیں تحقیق کار وںکا کہنا ہے کہ ان کو اوائل عمری میں ہی سیکھنا بہت ضروری ہے۔ اسی سے بچوں کی صلاحیت مستحکم ہوتی ہے اور وہ بڑے بڑے خیالات کو اپنے اندر جذب کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہی جذبہ ، ترغیب اور مائنڈ سیٹ ان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتاہے۔ یہی چیز انہیں پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے سپروائزر کے احکامات کے مطابق عمل کرنا سکھاتی ہے ۔

کیا سیکھنا ہےاور کیا نہیں 

اکثر لوگو ں کے نزدیک سیکھنے کا مطلب ہے زیادہ دیر تک یاد رکھنا۔ ریاضی او رسائنس کے اصول، غیر ملکی زبان یا لوگو ں کے نام ہمار ا ذہن ایسے محفوظ رکھتا ہے کہ بوقت ضرورت کام آئے۔ 

اگرآپ نے یاد رکھنے کی مہارت نہ سیکھی تو آپ کو کچھ تفصیلات ہمیشہ یاد رکھنا مشکل ہوں گی۔ اسی لئے انسانی دماغ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے نزدیک یاد رکھنے اور سیکھنے میں فرق ہوتاہے اور دونوں الگ چیزیں گردانی جاتی ہیں۔

سیکھنے کے عمل کو عموماً رویے کی تبدیلی سے جوڑا جاتاہے اور لوگ اسے مہارت، علم یا تعلیم سے سیکھے گئے طریقوں پر عمل کرکے ظاہر کرتے ہیں۔ علم دراصل مہارت، اقدار، رویّوں، فہم اور ترجیحا ت کے حصول کا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف معلومات کی روشنی میں کوئی نتیجہ اخذ کیا جائے۔ آپ کا ماحول یہ سب چیز یں آپ کو سکھاتا ہے۔ 

ہمارے سیکھنے کا عمل سرسری معلومات سے شروع ہو کر اسے پرکھنے کی صلاحیت تک پہنچ جاتاہے۔ اس ضمن میں یہ تعلیمی اداروں کی مہارت پر منحصر ہے کہ وہ طلبہ میں سیکھنے کے عمل کو کتنی پختگی بخشتے ہیں یا اس عمل میں ان کی کتنی مدد کرتے ہیں ۔

سیکھنے کے تین انداز ہیں یعنی دیکھ کر، سن کر اور اپنے ہاتھ سے کوئی کام انجام دے کرسیکھاجاتا ہے۔ سیکھنے کے نقطہ نظر (Approach) پر بات کی جائے تو یہ چار ہیں۔

(1) منتقل کرنا : یعنی معلومات، نظریات، مہارت اور علم کو دوسروںتک پہنچانا، رہنمائی کرنا یا سکھانا۔

(2)اخذ کرنا :خود کھوج لگانا،تجربہ کرنا، پوچھنا ، تجسس کرنا ، تحقیق کرنا ، یعنی پورے شعور سے سیکھنا۔

(3) ظہور : اس سے مراد تدبر، غوروفکر، مکالمے ، تخلیقی بیان اور تجربات سے نئے نظریات اور مفاہم کا ادراک حاصل کرنا۔

(4) لاشعوری تجربہ : غیر محسوس طریقے سے کوئی زبان، ثقافت ، عادت، سماجی اصول، تعصبات اور روّیوں کو سیکھنا ۔

سیکھنے کے مراحل بھی چھ ہیں، جیسے جاننا، سمجھنا، استعمال کرنا ، تجزیہ کرنا، ترکیب لڑانا اور جانچنا۔ ان میں سے ہر ایک کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں۔ اسی طرح سے سیکھنے کے اصول بھی ہیں۔ 

جیسےآمادگی ( یعنی آپ خود سیکھنا نہ چاہیں تو کوئی آپ کو نہیں سکھا سکتا، آزادی (خوف ، بھوک پیاس میں سیکھنا ممکن نہیں)، اثر انگیزی (حوصلہ افزائی سے سیکھنے کا عمل تیز ہوتا ہے)، ضرورت(ضرورت میں انسان جلدی سیکھتا ہے)، شوق (شوق میں بھی یہی صورتحال ہے)، ٹھوس سے خیالی ( پہلے انسان ٹھوس چیزیں سیکھتاہے، پھر خیالی چیزوں پر یقین کرتاہے)، آسان سے مشکل(عموماً یہی ہوتاہے)، اولیت (جس چیز سے پہلے واسطہ پڑے، وہ زیادہ سیکھتا ہے)، تازگی (جو واقعہ نیا ہوگا وہ زیادہ ذہن میں رہے گا)۔

سکھانا بھی سیکھنا ہوتا ہے

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذہن صرف معلومات جمع کرنے یا لغت کے طورپر نہیں دیا ہے بلکہ تحقیق، تفہیم ،تدبیر ،تعبیر اور تنقید کیلئے دیا ہے۔ اسی لیے طلبہ کو صرف چند اصطلاحات اور فارمولوں کا رٹا لگوانے کے بجائے انہیں ایک متحرک، متفکر اور متوازن انسان بنانے کی ضرورت ہے۔ 

اس کے علاوہ ان کی رہنمائی کی جائے، ان کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے حوصلہ افزائی کی جائے۔ ان کے اندر مباحثہ، مکالمہ ، مطالعہ ، مذاکرہ، تخلیق، تنقید ، تربیت، تحقیق، ابلاغ ، خطابت، قیادت اور نظامت کی صلاحیتیں پروان چڑھائی جائیں۔ یہ سب عوامل والدین او ر تعلیمی اداروں کو سیکھنا چاہئیں تاکہ ہم اپنے بچوں کو بہتر طورپر سکھا سکیں۔

تازہ ترین