16اکتوبر کو اقوام متحدہ کے عالمی ادارۂ خوراک و زراعت (ایف اے او) کی اپیل پر دنیا بھر میں عالمی یومِ خوراک منایا جاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد اقوامِ عالم کا شعور بیدار کرتے ہوئے خوراک کے مجموعی وسائل میں اضافہ کرنا اور غذائی سلامتی کو یقینی بنانے پر زور دینا ہے تاکہ دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کر نے میں عالمی، علاقائی و ملکی سطح پر درپیش مسائل کو باہمی کاوشوں سے حل کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کی جا سکے۔ عالمی ادارۂ خوراک و زراعت ہر سال اس عالمی دن کو نئے موضوع کے ساتھ منانے کی اپیل کرتا ہے۔ اس سال کا موضوع ’’غذائیت سے بھر پور صحت مند غذا کی فراہمی‘‘ ہے جو کرۂ ارض پر موجود ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔ جسے زیرو ہنگر کی موثر پالیسی اپنا کر دنیا بھر کو ٹھوس اقدامات اختیار کرنے پر زور دینا ہے۔ اس ضمن میں ایف اے او کا نعرہ ہے کہ ’’آج کا موثر عمل سنوارے گا ہمارا مستقبل‘‘ جس کا مقصد یہی ہے کہ ہر ملک کے حکمران پالیسی ساز، سرکاری اہلکار، نجی رضا کار، ذرائع ابلاغ اور سب سے بڑھ کر کاشتکاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بڑی چھوٹی فصلوں کی پیداوار و معیار بڑھانے اور غذائی اشیاء کی مناسب داموں پر فروخت کو یقینی بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں تاکہ معیاری، متوازن اور صحت مند غذا مطلوبہ مقدار میں ہر شخص کو میسر آ سکے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 2050ء تک دنیا کی آبادی ساڑھے نو ارب سے زائد ہو جائے گی جس کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہمیں بڑی چھوٹی فصلوں کی پیداوار میں جدید ٹیکنالوجی اور موثر تدابیر اختیار کرتے ہوئے کم از کم 40تا 50فیصد اضافہ یقینی بنانا ہو گا جس کیلئے دنیا کے تمام ممالک کو خوراک و زراعت کیلئے موثر پالیسیاں اور ٹھوس اقدامات اپنا کر غذائی وسائل کو درپیش تیز تر موسمیاتی تبدیلیوں، گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی آلودگی، زیر کاشت اراضی کی زرخیزی میں بتدریج کمی اور آبپاشی کیلئے پانی کے وسائل میں شدید کمی پر قابو پانے کیلئے زیرو ہنگر پروگرام اپنا کر غربت کی لکیر سے نیچے، زندگی بسر کرنے والے بھوک زدہ و مفلوک الحال افراد کو غذائی کمی سے نجات دلانا ہو گی۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت 820ملین افراد غربت، فاقہ کشی اور متوازن غذا سے محروم ہیں، اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ چند برسوں میں ناقص اور ناکافی غذا سے متاثرہ افراد کا تناسب ہر تیسرے فرد تک بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا میں 670ملین بالغ افراد، 120ملین نوجوان لڑکے لڑکیاں اور 40ملین سے زائد 5سال تک کے بچے موٹاپے کا شکار ہیں۔ ناکافی غذا اور فاقہ کشی سے متاثرہ مفلوک الحال اور لاغر افراد ہی کئی مہلک بیماریوں کی زد میں آ کر تیزی سے سے اموات کا شکار نہیں ہو رہے بلکہ ناقص، غیر متوازن و غیر معیاری، بازاری غذا اور فاسٹ فوڈ سے موٹاپا زدہ افراد میں سے ہر پانچواں فرد بھی امراض قلب، بلڈ پریشر، شوگر، ہیپاٹائٹس اور کینسر جیسے موذی امراض میں مبتلا ہو رہا ہے جس پر دنیا بھر کی حکومتوں کو ہر سال 20کھرب ڈالرز علاج معالجے پر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ماہرین نے ان گمبھیر مسائل پر قابو پاکر غربت، فاقہ کشی اور مفلوک الحالی کو کم کرنے کیلئے دنیا کے زیادہ وسائل کے حامل ممالک کو کم وسیلہ ممالک کی فاضل غلہ سے بھر پور مدد کرنے، انہیں خوراک و زراعت کے وسائل کی سلامتی کو درپیش مسائل پر قابو پانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی بہم پہنچانے، تیز تر موسمیاتی تبدیلیوں، ماحولیاتی آلودگی سے نبرد آزما ہونے کیلئے دنیا بھر کے ممالک کو یکجا ہو کر موثر حکمتِ عملی اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت کے خاتمہ اور فاقہ زدہ کثیر آبادی کو پوری مقدار میں متوازن اور سستی غذا فراہم کرنے کیلئے بھی پاکستان کو خوراک و زراعت کی موثر و مربوط پالیسی اختیار کرنے اور اس پر پوری طرح عمل درآمد کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس ضمن میں کسانوں کو زرعی مداخل کی سستے داموں فراہمی، چھوٹے کسانوں کو اجتماعی کھیتی باڑی، بلاسُود قرضے اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے قابل بنانا ہوگا۔ فصلوں کو کیڑوں و بیماریوں سے بچائو کیلئے مربوط حکمت عملی اور موسمیاتی اثرات سے بچائو کی تدابیر سے ذرائع ابلاغ اور موبائل فون سروسز کے ذریعے بروقت آگاہ کرنا ہو گا۔ زیرو ہنگر پروگرام کے تحت زرعی اجناس، لائیو اسٹاک، فشریز اور پولٹری کی پیداوار و معیار کو بڑھانا ہوگا۔ فصلوں کی کٹائی اور بعد از برداشت 40تا 45فیصد زرعی اجناس اور 30تا 35 فیصد دودھ کے ضیاع پر قابو پانا ہوگا۔ عوام کو متوازن، صحت مند اور سستی غذا کے حوالے سے آگاہی دینا ہوگی۔ پانی کے باکفایت استعمال کے بارے عوامی شعور بیدار کرنا ہو گا۔