• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اولاد، جہاں والدین کے لیے فرحت و انبساط کا باعث ہوتی ہے، وہیں اس کا دکھ بھی دنیا کے ہر غم سے بڑا ہوتا ہے۔ ماں باپ کا بس چلے، تو اپنی آنکھوں سے اولاد کو دَم توڑتے دیکھنے سے پہلے خود موت کو گلے لگالیں۔ مَیں بھی ایسی ہی ایک دکھیاری ماں ہوں، جس کے بیٹے کو کینسر جیسا موذی مرض نگل گیا، یہ میرے لیے اتنا بڑا دکھ اور صدمہ ہے کہ مَیں اب تک اس کیفیت سے باہر نہیں نکل سکی، آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ 

میرا بیٹا، میرا لختِ جگر، ’’عدن‘‘ جب پیدا ہوا، تو ہر ماں کی طرح میں بھی اولاد کی خوشی پاکر جھوم اٹھی، اس کی مَن موہنی صُورت دیکھ کر دنیا کے ہر غم سے بے نیاز ہوجاتی تھی۔ جب ایک سال کا ہوا، تو بڑی دھوم دھام سے اس کی پہلی سال گرہ کی تقریب منعقدکی۔ خاندان بھر کے سب ہی لوگوں کو بڑی چاہ سے مدعو کیا۔ سال گرہ کے دوسرے روز ہی سے ننّھے ننّھے قدموں سے چلنا شروع ہوا، تو گھر کے سب ہی افراد کی خوشی دیدنی تھی…وقت کا پہیّہ گھومتا رہا اورقدرت کے دیئے اس تحفے سے کھیلتے، اس کی معصوم ادائوں، اس کے روٹھنے منانے کے دوران تین برس ایسے گزرے کہ پتا ہی نہ چلا۔ عام بچّوں کی طرح میرانورِ نظر بھی اکثر موسمی بخار اور نزلہ زکام کا شکار ہوجاتا، تو معمولی ادویہ کے استعمال سے چند ہی روز میں صحت یاب بھی ہوجاتا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے، اُس روز شام کو ہم نے اُس کی تیسری سال گرہ کی تقریب حسبِ سابق دھوم دھام سے منائی، خوب ہلّا گُلّا ہوا، سب ہی خوش تھے، پھر اچانک رات میں اسے بخار چڑھ گیا۔مَیں نے اسے بخار کا سیرپ پلا کر سلادیا۔ دوسرے روز اٹھا، تو پھر بخار سے تپ رہا تھا۔ ہم معمولی بخار سمجھ کر سیرپ پلاتے رہے، دو روز بعد بھی یہی کیفیت برقراررہی، تو گھر کے قریبی کلینک لے گئے، ڈاکٹرنے کچھ ٹیسٹ کے بعد انکشاف کیا کہ اس کے خون میں وائٹ سیلز ختم ہوگئے ہیں۔ 

ڈاکٹر کے مشورے پر خون چڑھایا گیا، تو انفیکشن ہوگیا، جس کے باعث میرا عدن کئی ہفتے اسپتال میں داخل رہا۔ اس دوران مختلف ٹیسٹس کے بعد ڈاکٹرز نے ہمیں یہ درد ناک خبر سنائی کہ ’’آپ کے بیٹے کو خون کا سرطان ہے۔‘‘ خبر کیا تھی، جیسے سر پر اچانک کسی نے بم پھاڑ دیا ہو، پَیروں تلے زمین نکل گئی، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔ بہرحال، اللہ رب العزت، آزمائش میں ڈالتا ہے، تو کڑے سے کڑے حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت بھی دیتا ہے۔ چلڈرن کینسر اسپتال میں 4سال تک میرے نورِ نظر کا علاج باقاعدگی سے ہوتا رہا۔ 

کیموتھراپی کے لیے خوشی خوشی اسپتال جاتا، اسے نئے کپڑے پہن کر اسپتال جانا اچھا لگتا تھا۔ اس طرح چار سال کا عرصہ گزرگیا، علاج مکمل ہونے پر ڈاکٹرز کے مشورے پر اسکول میں داخل کروادیا۔ 6مہینے باقاعدگی سے اسکول بھی جاتا رہا۔ ٹیچرز اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھےکہ ’’انتہائی ذہین بچّہ ہے، سب بچّوں میں سب سے پہلے کھڑے ہوکر جواب دیتا ہے۔‘‘ مگر پھر چھے ماہ بعد اس کی طبیعت اچانک بگڑنے لگی، دوبارہ ٹیسٹ کروائے، تو بدقسمتی سے رپورٹ خراب آئی اور ڈاکٹرز نے تمام رپورٹس کی بنیاد پرانکشاف کیا کہ ’’آپ کے بیٹے کی زندگی محض چھے ماہ رہ گئی ہے۔‘‘کس قدر دردناک لمحہ تھا وہ، جب ڈاکٹر نے یہ جملہ کہا تھا،جسے سنتے ہی گویا میری دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔ مَیں مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اترتی چلی گئی۔ 

اس کے بعد مَیں کراچی کے ہر اُس علاقے میں گئی کہ جہاں کسی دَم دُرود سے میرے عدن کو شفا مل سکتی تھی، مگریہ تو اللہ ہی بہتر جانتا تھا کہ اس کے حق میں کیا بہتر ہے۔ ٹھیک چھے ماہ بعد ہمارا عدن ہم سب کو روتا چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنےخالقِ حقیقی کے پاس چلا گیا۔ آج میرے گھر کے نور، جگر کے ٹکڑے کوہم سے بچھڑے چار برس ہوچکے ہیں، مگر میں ابھی تک اس کی معصوم شرارتوں،دل موہ لینے والی مسکان کے حصار سے نکل نہیں پائی، مجھے یقین ہے، بہشت کے باغِ عدن میں میرا عدن بھی کہیں کِھلے پھول کی مانند مسکرا رہا ہوگا۔

(کوثر عارف(والدہ)،کورنگی، کراچی)

تازہ ترین