• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سِتار نواز استاد نفیس احمدکا تعلق کلاسیکل موسیقار گھرانے سے ہے۔ کم عمری سے ہی وہ سُراور تال کی پرپیچ وادیوں کے مکین ہیں۔ستار پر گائیکی اورانگ بجانے پر انہیں ملکہ حاصل ہے،تاہم وہ سب کے اور خود اپنے بھی نقاد ہیں۔پاکستان میں کلاسیکل موسیقی کے حوالے سے ان کا انداز فکر مختلف ہے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے2014میں انہیں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔وہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس(ناپا)کراچی میں شعبہ موسیقی کے سربراہ بھی ہیں۔گزشتہ دنوں ایک ملاقات میں ان سے موسیقی کے حوالے سے گفت گو ہوئی ،جس کی تفصیل نذرقارئین ہے:

 جنگ:ستار نوازی آپ کا شوق ہے یا اسے محض پیشے کے طور پر اپنایا ہے؟

نفیس احمد:عام طور پر شوق پیشہ نہیں بنتااور یہ خوش قسمتی ہوتی ہے کہ آپ کا شوق پیشہ یا ذریعہ معاش بن جائے۔ ستار نوازی یقیناً میرا شوق ہے بلکہ میں اسےشوق سے کچھ زیادہ ہی کہوں گا۔ میں نے بہت کم عمری میں اپنی خواہش پر سِتار سیکھنا شروع کیا تھا،بعدازاں اسے پیشہ بنا لیا۔ شاید شوق سے زیادہ یہ میری ’ضد ‘بن گیا تھا۔

جنگ:’’ضد‘‘ کیوں بنا، وجہ بتائیں گے؟

نفیس احمد:دراصل میں نے جس عمر میں ستار سیکھنے کی ضد کی تھی اُس عمر میں بچے عموماًوالدین سے ضدیں کرتے ہیں۔ ایک راگ درباری کی پرانی بندش ہے ’’انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند‘‘ … میرے والد اُستاد فتح علی خان تھاکا شمار پاکستان کے تین بڑے ستار نوازوں میں ہوتا تھا۔ استاد کبیر خان،استاد شریف خان پونچھ والے اور تیسرے میرے والد تھے۔ یہ تینوں پاکستان کے مایہ ناز ستار نواز مانے جاتے تھے۔

جب میں نے ستار سیکھنے کی ضد کی تو والدبالکل راضی نہ تھے،چوں کہ کم عمر تھا انہوں نے مجھے بہت ڈرایا دھمکایا باقاعدہ خوف زدہ کیا،وہ کہتے، تم سختی برداشت نہیں کر سکو گے۔ اگر تم نے اس ساز کو اُٹھا لیا تو تمہیں صرف ’’اچھا‘‘ بجانا پڑے گا۔

اگرچہ والد صاحب کی شدید خواہش تھی کہ ان کی اولاد ستار سیکھے یاکلاسیکل موسیقی میں دل چسپی لے، جیسا کہ بچے باپ دادا کے فن کو اپناتے ہیں لیکن اُنہوں نے مجھے سکھانے میں بہت تردّو کیا وہ سمجھتے تھے کہ اُس وقت یہ میرے لئے مشکل ہو گا، میں چوتھی کلاس میں تھااور آٹھ برس کا تھا۔

جنگ:پھر والد صاحب کو کس طرح راضی کیا؟

نفیس احمد:تھوڑا وقت لگا انہیں منانے میں، کچھ میری قسمت اچھی تھی، کچھ خاندان کے بزرگوں نے بھی والد صاحب پر زور ڈالا۔ ظاہر ہے ہمارے ہاں رواج ہے کہ بزرگوں کی بات سن لی جاتی ہے تو میری والدہ کی چچی نے ایک دن والد صاحب کو سمجھایا کہ بچے کو شوق ہے اسےسکھائو، اس طرح مجھے کچھ سپورٹ ملی لیکن والد صاحب نے کیا وہی جو انہوں نے کہا تھا۔ کوئی لحاظ نہیں کیا۔ انہوں نے ایک طرح سے مجھ پر مہربانی ہی کی ، اگر انہوں نے سختی نہ کی ہوتی تو ظاہر ہے آج میرا کسی اور پیشے سے تعلق ہوتا ۔

جنگ:ستار نوازی میں آپ کے استاد ’’والد صاحب‘‘ ہیں یا کسی اور سے بھی باقاعدہ تعلیم حاصل کی؟

نفیس احمد:میرے والدہی میرے استاد ہیں،جبکہ میرے والدکے مطابق ’’پوری دنیا استاد‘‘ ہوتی ہے۔ جہاں جہاں سے جو سیکھ سکتے ہو، سیکھ لو۔

جنگ :ستار سیکھنے کے دوران سزائیں بھی ملیں؟

نفیس احمد: بڑی ’’مہربانیاں‘‘ کیں انہوں نے۔ والدکے سکھانے کے طریقہ کار میں لاڈو پیار نہیں تھا ۔وہ صبح ایک سبق یاد کرواکر خود ریڈیو پاکستان چلے جاتے۔ تین بجے تک گھر آتے۔ جاتے وقت مجھ سے کہتے کہ میں واپس آئوں تو یہ دو چار لائنیں ٹیمپو میں مجھے سنانی ہیں۔ ظاہر ہے بہت بڑا چیلنج ہوتا تھا۔ ہم سارا دن اپنا سبق بہتر طور پر دُہراتے رہتے،جب وہ سبق سنتے توہمیں دھمکانے کے لیے ڈنڈا یا لوہے کا ٹکڑا ضروراُن کے ساتھ ہوتا۔ 

ہماری نظر ستار بجاتے ہوئے مستقل اُس لوہے کے ٹکڑے پر ہوتی تھی کہ یہ کب اُٹھے گا۔اُس پریشر کی وجہ سے شاید جلد ہی سیکھ بھی لیا،تاہم انہوں نے ان اوزاروں سے پٹائی کبھی نہ کی۔بنیادی طور پرانہوں نے نیک نیتی، شفقت، محبت اور محنت سے سکھایا۔

جنگ:موسیقی کو باقاعدہ پیشہ کب بنایا؟

نفیس احمد:ستار سیکھنے کےایک سال کے اندر اندر ہی والد صاحب کے ذریعے پرفارمنس دینے کے لیےبلایا گیا، میں آٹھ برس کا تھا۔لائیو پرفارمنس تھی۔وہ پروگرام آرکسٹرا کے ساتھ تھا، کمپوزر طفیل نیازی صاحب تھے، وہ موسیقی کی دنیا کے نہایت مختلف اور پیچیدہ کمپوزر تھے۔ تکنیکی طور پر وہ ایک چیلنج اور اپنے پیشے میں یکتافن کار تھے۔

اُن کی اپنی ہی تخلیق ہوتی تھی۔ انہوں نے مجھے بلا لیا ،یہی میرے سفرکا آغاز تھا جو آج تک جاری ہے۔ یہ 1972ء کی بات ہے۔ اس کے ساتھ ریڈیو، پی ٹی وی پر بھی پرفارم کیا۔ پی ٹی وی پر راگ رنگ کیا۔

جنگ:ستار کے علاوہ اور کون سا انسٹرومنٹ بجا لیتے ہیں؟

نفیس احمد:ستار نوازی کو اولیت دیتا ہوں ، لیکن ہر ساز بجا لیتا ہوں، ایسا نہیں ہے کہ میں نے کوئی ساز نہ بجایا ہو، ضرورتاً کی بورڈ، بانسری،سنتور اور رُباب بھی بجائے ہیں۔کبھی ٹریک بنانے کے لیے مختلف سازوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے ۔مجھے ’’ستار‘‘ کے ساتھ بہت عجیب سی ’انسیت‘‘ ہے ۔

جنگ:یادگار پرفارمنس کون سی ہے؟

نفیس احمد:بہت دل چسپ سوال ہے۔ کچھ یادگار پرفارمنس ایسی ہوتی ہیں جن میں کوئی بھی نہ ہو اور وہ یادگار ہو جاتی ہیں اور کچھ ایسی ہوتی ہیں، جن میں سامعین ہوتے ہیں۔ ویسے میں اپنا بہت بڑا نقاد ہوں ،دو یا تین بار ہی اپنی پرفارمنس سے مطمئن ہوا۔ ایک یادگار پرفارمنس کا ہمیشہ ذکر کرتا ہوں ۔ 24مارچ 2000ء میں جہلم شہر میں پرفارم کیا تھا۔جلسہ عام کی شکل میں سولو پرفارم کرنا آسان نہ تھا۔ 

’’سِتار‘‘ کے ساتھ عجیب سی ’’انسیت‘‘ ہے
پرفارمنس دیتے ہوئے بچپن کی ایک یادگار تصویر

میرے ایک شاگرد نے سارا ارینجمنٹ کیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ تھوڑے بہت سننے والے ہوں گے۔وہ پروگرام میونسپلٹی کے ایک پارک میں ارینج کیاگیا تھا۔ پورے علاقے میں بڑے بڑے ہورڈنگز لگائے ہوئے تھے کہ ’’ستار نوازپرفارم کریں گے‘‘ ۔جب میں وہاں گیا تو میرا تو سر چکرا گیا ،سوچا بھی نہ تھا کہ،یہاں ستار سننے کے لیے اتنے لوگ جمع ہوں گے، میرا نہیں خیال تھاکہ یہاں لوگوں کو ستار سننے کا شوق ہو گا یا وہ ایسا کوئی ذوق رکھتے ہوں گے،کیونکہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا کہ ایسا کوئی ایونٹ ہوا ہو جو عوام کے لئے اوپن ہو۔ میری بات سن کر میرا شاگرد بھی پریشان ہو گیا کہ اُس نے پبلسٹی تو بہت کردی تھی۔

بہرحال جب میں پرفارمنس دینے آیا تو پورا پارک لوگوں سے بھرا ہوا تھا، لوگ گرائونڈ کی بائونڈری وال تک پر بیٹھے تھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ پتا نہیں انہیں یہ کلاسیکل موسیقی سمجھ آئے گی بھی یا نہیں،مجھے ڈر تھا کہ اگر انہیں سمجھ نہیں آیا تو کہیں یہ کوئی ردّ عمل نہ کریں، خیر میں نے ستِار بجانا شروع کیا تو جہلم شہر کے لوگ جیسے سُن ہو گئے ۔ 

جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا مجھے اپنی سوچ پر شرم آرہی تھی کہ میں کتنا غلط سوچ رہا تھا۔ یہ لوگ نظم و ضبط کے ساتھ ساز سن رہے ہیں۔پہلے میں عام سُر کے ساتھ ستِار بجا تا رہا، پھر میں نےسوا گھنٹہ راگ بجایا۔اس کے علاوہ ایک پرفارمنس نیو جرسی میں تھی۔ 

استاد ذاکر حسین کے ساتھ، وہ بھی بہت یادگار تھی۔ ایک شکاگو میں ڈیڑھ گھنٹے سولو پرفارمنس دی تھی۔ اسی طرح ایک طارق خان کے ساتھ پرفارمنس تھی، اس پر فارمنس کو سننے کے لیے استاد بسم اللہ خان صاحب بھی تشریف فرماتھے اور کلاسیکل گلوکارہ گرجادیوی بھی موجود تھیں۔ بھارت کے ہی وائلن نواز پنڈت وی جی جوگ بھی تھے۔ان کے سامنے پرفارمنس دینا نہیں بھولتا۔ 

اس دن میں نے لیول ذہین میں رکھ کر بجایا کہ ان کے معیار کے مطابق پرفارمنس دی جائے۔ یہ 1993ء کی بات ہے میرے پاس اس کی کوئی ریکارڈنگ نہیں ہے اور کچھ مواقع پر استاد شوکت حسین خان صاحب کے سامنے بھی پرفارم کیا وہ بھی اس فن کی دنیا کے بڑے طبلہ نواز تھے۔

جنگ:ستِار نوازی میں کس سے متاثر ہیں ؟

نفیس احمد:اس کا جواب میں دو طرح دوں گا۔ ایک چیز اگر آپ کو پسند ہو، میں اُس کو خراب نہ بھی کہوں لیکن میں یہ کہوں کہ یہ میری پسند کی نہیں ہے تو اُس پر کئی مرتبہ لوگ ناراضی کا اظہار کرتے ہیں یا مجھے مغرور سمجھتے ہیں۔

میں چاہے برائی نہ بھی کروں صرف یہ کہہ دوں کہ یہ مجھے پسند نہیں ،تو پھرلوگ ذرا پیچھے ہو جاتے ہیں، میرے ساتھ یہ معاملہ ہے۔ ایمان داری کی بات ہے کہ ابا سے زیادہ راگ اور ستار نوازی میں فلسفیانہ اپروچ کسی اور میںنہیں دیکھی۔ والد صاحب کی موسیقی محسوس کرنے والی تھی۔اس کے علاوہ استاد امرت حسین خان اور استاد رئیس خان ان دونوں کے اسٹائل کو میں فالو تونہیں کرتا لیکن ایک بُنت کا انداز ہوتا ہے،مجھے ان دونوں کی موسیقی کی بُنت پسند ہے۔

جنگ:کلاسیکی موسیقی میں ’’استاد‘‘کب بنتے ہیں؟

نفیس احمد:یہ سارا کام قابلیت پرمنحصرہوتا ہے۔ اگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے وہ صلاحیتیں دی ہیں جس کے بعد آپ کو سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے تو میں اس گنتی میں خود کو نہیں سمجھتا،ہم اس حیثیت، قابلیت کے لوگ نہیں، ہم عام انسان ہیں، اللہ کی مہربانی ساتھ ہوتی ہے۔بعض اوقات خصوصیات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ 

آپ کی آواز اچھی ہو اور آپ کو پتہ بھی نہ ہو، راگ گائیکی کے لیے آپ کا گلے کا کنٹرول اچھا ہواوراس خصوصیت کا آپ کو اندازہ بھی نہ ہو۔ آپ کے ہاتھ کسی موسیقی کے آلے پر خود کارساز چھیڑتے ہوں۔ 

یہ خداداد صلاحیتیں ہیں ۔یہ ساری باتیں الہامی ہیں۔ کچھ نہیں پتہ کتنے راگ مکمل ہو جائیں تو آپ’’ استاد‘‘ کہلائیں۔ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ جس نے ٹیڑھے کاج کا بڑےپھولوں والا کُرتا پہن لیا،اس کے نام کے ساتھ استاد لگادیا جاتاہے۔میں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ استاد بہت معتبر، باعلم، محترم ہوتا ہے۔

جنگ:’’استاد‘‘ بننے کے لیے کون سے رموز سیکھنے ہوتے ہیں؟

نفیس احمد:اب اگر میں اس بارے میں کچھ کہوں گا تو تنقیدی پہلو نکلے گا۔ جس کی وجہ سے میں لوگوں میں ناپسندیدہ کہلاتا ہوں۔ میں کھل کر بولتا ہوں۔ مثلاً ایک کام مجھے نہیں آتا، دوسرے شخص کو آتا ہے اور اگر وہ کام میری ضرورت ہے تو مجھے دوسرے شخص سے پوچھ لینا چاہئے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں موسیقی لاوارث شعبہ ہے ۔

جنگ:کس بات کو بنیاد بنا کر موسیقی سیکھنے کا شوق رکھنے والے اس میدان میں آتے ہیں؟

نفیس احمد:یہ ایک بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ مجھ سے اکثر میر ے دوست کہتے ہیں کہ ایسی باتیں نہ کیا کریں۔ میں اُن سے کہتا ہوں کہ میں غلط کو صحیح کس طرح کہہ دوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر اُن(موسیقی پر طبع آزمائی کرنے والوں) سے کہا جائے کہ آپ سے یہ غلطی ہو رہی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں کوئی گھٹیا ترین الزام لگا رہا ہوں، جبکہ میں یہ چاہ رہا ہوں کہ آپ کی خامی ، خامی نہ رہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم حساس ہیں ہی نہیں ،نہ ہی ہونا چاہتے ہیں۔

جنگ:ری میکس موسیقی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

نفیس احمد:ری میکس موسیقی، ارتقاء کا عمل ہے،جو رکے گا نہیں۔ تجربات تو ہوتے ہیں، نئی نئی چیزیں تلاش کرتے ہیں،لیکن تجربات ناکام بھی تو ہوتے ہیں۔ لوگ باقاعدہ تربیت لینا نہیں چاہتے، بس موسیقی کے میدان میں کود جاتے ہیں۔ 

نئے لوگ جو تجربات کرتے ہیں جسے آپ ری مکس کہہ لیں یافیوژن کہہ لیں، اس میں آکر سب کچھ صحیح ہو یہ نا ممکن ہے۔ ہماری روایتی موسیقی جو ہے وہ ہی بھارت،نیپال،سری لنکا،افغانستان کی بھی ہے۔ علم سب جگہ ہے آپ اسے جو بھی نام دیں۔ 

تجربات مختلف ہیں۔ ہمارے ہاں تجربات ہو رہے ہیں ۔ مسئلہ کمرشلزم کا ہے اور سوال یہ ہے کہ ’’نیا کیا دے رہیں‘‘۔ ہم اپنی پروڈکٹ کی پیکنگ تبدیل کر دیتے ہیں۔ پروڈکٹ وہی ہے پیکنگ اور نام بدل کر مارکیٹ میں سیل کر دیا،جو پہلے ایک روپے کا تھا اب ہم تین روپے کا بیچیں گے،بس اسے یہ نہ کہیں کہ آپ نئی چیز متعارف کروا رہے ہیں۔

جنگ:اپنے شاگردوں کو پہلا سبق کیا دیتے ہیں؟

نفیس احمد:ایمان داری، اگر نیت صاف نہیں ہو گی تو کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ ایک بات یہ ہے کہ پیسا کمانے کیلئے ’’ڈھکوسلا‘‘ چاہیے اور سب سے آسان ڈھکوسلا’’ موسیقی‘‘ ہے۔ جس پر کوئی اعتراض ہی نہیں کرتا کہ تم خراب کر رہے ہو، میں تمہاری چیز نہیں خریدوں گا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ساری باتیں میں غصے میں کرتاہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگرسیکھناہے تو اسے شرائط یا اصول و ضوابط کے اندر ہونا چاہئے۔ 

اسے کسوٹی پر پرکھنا چاہئے۔ اگر اس کی کسوٹی پر آپ ’’زیرو‘‘ سے بھی نیچے ہوں تو یہ کسی کا بھی کہنے کاحق ہے کہ آپ موسیقی کی خدمت نہیں کر رہے۔ مجھے آج کل کے گلوکاروں سے کچھ نہیں لینا دینا میں صرف کوالٹی کی بات کرتا ہوں۔ موسیقی میں کوالٹی تو لے کر آئیں اور وہیں یہ سب مار کھاتے ہیں یا کمزور ہیں، ان کا ڈھکوسلا اگر چل گیا ہے تو یہ خود کو آرٹسٹ سمجھتے ہیں،لیکن آرٹسٹ اپنے فن کو جانتا ہے اُسے بیچتا نہیں ہے۔

جنگ:کلاسیکل موسیقی کا مستقبل کیا دیکھتےہیں؟

نفیس احمد:درحقیقت کلاسیکل موسیقی ہمارا فن اور ورثہ ہے،لیکن ہمارے ہاں کوئی چیز باہر سے آجائے تو ہم مرعوب ہوجاتے ہیں۔ ہماری روایتی موسیقی کو خطرہ ہے ۔ ہمارے ہاں ٹیلنٹڈلوگ ہیں لیکن بیرون ملک لوگ اسے پاکستانی موسیقی نہیں کہتے۔ 

ایک ٹھپہ لگ چکا ہے۔ ہماری موسیقی کو ’ہندوستانی کلاسیکی موسیقی‘ کہا جاتا ہے، وہ اس لئے کہ ہم نے کبھی اسے اپنایا ہی نہیں۔ ہونایہ چاہئے تھا کہ کوئی اگر ہماری ریکارڈنگز باہر لے کر جائے تو اسے سن کرہی کہہ دیاجائے کہ یہ’’ پاکستانی موسیقی ‘‘ہےیا یہ انداز ’’پاکستانی موسیقی ‘‘کا ہے،لیکن ہماری پہچان متاثر ہوئی ہے۔

جنگ:اس صورتحال سے کیسے نکل سکتے ہیں؟

نفیس احمد:اپنے اداروں کو مستحکم کریں، ہمارے کلچرل اداروں کو خاص کر حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گاکہ اس لاوارث موسیقی کو اپنائے ۔یہ ہمارے ملک کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ ہماری موسیقی کی پہچان ہے، جو بھارت سے یکسر مختلف ہے۔ 

افسوس کی بات ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھارت نے ہماری موسیقی کو چُرا کر نام کمایا ہے اور ہم دیکھتے رہ گئے، کیونکہ ہمارے ہاں موسیقی کو سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین