• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پیسہ قانونی طریقے سے باہر گیا، اب بھی جارہا ہے، اس رقم سے خریدی گئی جائیداد جائز ہے، چیئرمین ایف بی آر

اسلام آ باد (مہتاب حیدر، خبرایجنسی) قو می اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو چیئرمین ایف بی آرشبر زیدی نے بتایا ہےکہ بیرون ملک پیسہ غیر قانونی طریقے سے نہیں گیا، اب بھی جارہا ہے، اس رقم سے خریدی گئی جائیداد جائز ہے۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کی حکومت نے پاکستانیوں کا ڈیٹا فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے، متحدہ عرب امارات اقامہ ہولڈر کو اپنا شہری کہتا ہے اور ڈیٹا فراہم نہیں کررہا جبکہ ملائیشیا کو اپنا دوسراگھر ڈیکلیئر کرنے والوں کا ڈیٹا بھی ملائیشیا نہیں دے رہا ،او ای سی ڈی کو کہا ہے دونوں ممالک ہمیں سپورٹ نہیں کر رہے، او ای سی ڈی نے ڈیٹا فراہم کرنے کے حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

پیسہ قانونی طریقے سے باہر گیا، اب بھی جارہا ہے،  چیئرمین ایف بی آر


جب چیئرمین خزانہ کمیٹی اسد عمر نے دریافت کیاکہ 10لاکھ ڈالرز سے زائد کے 325 کیسز میں کسی سیاست دان کابھی نام شامل ہےتو چیئرمین ایف بی آر نے نفی میں جواب دیا تاہم ایف بی آر کے ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل ٹیکسز نے بتایاکہ چند بینیفیشنل آنر ہیں، 2018 اور 2018 کی ایمنسٹی اسکیموں اور ٹیکس وصولی کی مدد میںایف بی آر کو 5.5 ارب روپے وصول ہوئے۔

دبائو ڈالنے پر ایف بی آر کےاعلیٰ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ عوامی نمائندوں میںسے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ کیا ہو کیوں کہ ایس کرنا ممنوع ہے، کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایف بی آرکو رواں سال 30 ستمبر کو45 ممالک سے پاکستانیوں کی جائیدادوں کا ڈیٹا موصول ہوا تاہم تکنیکی وجوہ کے باعث یہ ڈیٹا قابل مطالعہ نہیں ہے، قائمہ کمیٹی خزانہ نے بیرون ملک سے ریکوری کیلئے ایف بی آر کی کارروائیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

ادھر کمیٹی کو وزیر اقتصادی امور حماد اظہر نے بتا یا ہےکہ ایف اے ٹی ایف پر عمل نہ کیا تو 3 سال کیلئے نیا پلان دیدیا جائیگا، پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے اب تک 17 نکات پر عمل درآمد کرلیا ہے، پاکستان 7 جنوری کو حتمی رپورٹ پیش کرے گا، ایف اے ٹی ایف فروری 2020 میں پاکستان کے بارے میں فیصلہ کرے گا، جس پر کمیٹی نے FATF کے عملدرآمد نہ ہونیوالے 5نکات پر پریزنٹیشن بھی طلب کرلی۔

تفصیلات کےمطابق نمائندہ دی نیوز کا کہنا ہےکہ اربوں ڈالرز کی واپسی کی خواہش اور پاناما لیکس کے بعد واجب الادا ٹیکسز کے حصول کی خواہش اپنی افادیت کھوبیٹھی ہے کیوں کہ ایف بی آر 325بڑے کیسز سے صرف 5ارب روپے سے زائد ٹیکس ہی حاصل کرسکا ہے جس کی بیرون ملک سے آمدنی 10لاکھ ڈالرز ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے بھی ارکان پارلیمنٹ کے سامنے اقرار کیا تھا کہ پاکستان سے باہر بھیجی گئی قانونی رقم اور بیرون ملک بنائے جانے والے کسی بھی قسم کے اثاثوں کو غیر قانونی نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ اسے غیر ملکی کرنسی اکائونٹس آرڈیننس 2001 کا تحفظ حاصل ہے۔

اسد عمر کی قیادت میں پارلیمنٹ ہائوس میں منعقدہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا تھا کہ یہ میری اور ایف بی آر کی ذاتی رائے ہے کہ بیرون ملک بھجوائی جانے والی قانونی رقم اور وہاں اثاثوں کی خریداری کی اجازت ہے اور اسے غیر قانونی نہیں کہا جاسکتا۔

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات پاکستان کے اقامہ حاصل کرنے والے افراد کی معلومات فراہم نہیں کررہا ہے ، جب کہ ملائیشیا بھی معلومات کا اشتراک نہیں کررہا۔ ان کا کہنا تھا کہ او ای سی ڈی نے پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے لیکن متحدہ عرب امارات ہماری درخواست پر عمل کرنے کو تیار نہیں، ایف بی آر کی تحقیقات پر قائمہ کمیٹی نے مکمل عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ اس کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے کہ کیا بیرون ملک بھیجی جانے والی قانونی رقم قانونی ہے یا غیر قانونی کیوں کہ اسٹیٹ بینک اس بات سے اتفاق نہیں کرتا جو چیئرمین ایف بی آر یہاں کررہے ہیں۔

نمائندہ جنگ کےمطابق قائمہ کمیٹی خزانہ میں ایف بی آر حکام نے بتایا 31اکتوبر 2019تک او ای سی ڈی سے بیرون ملک پاکستانیوں کی 10لاکھ ڈالر سے زائد کی دولت اور اثاثہ جات کے 325کیسزکی تفصیلات موصول ہوئیں، ان میں سے 191 نے 2018 اور 2019 میں ایمنسٹی اسکیم حاصل کر لی اور 94ارب روپے کا کالادھن سفید کرایا اور اس طرح 5 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس ریونیو حاصل ہوا جبکہ باقی 115کیسز پر 4 ارب روپے کا ٹیکس عائد کیا گیا جس میں ایک ارب روپے ٹیکس ریکوری ہوئی ۔

134 میں سے19کیسز پر کارروائی نہیں ہو سکی ، 325 کیسوں میں سے 2018کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے تحت135 نےاستثنیٰ حاصل کیا اور 62 ارب 33کروڑ روپے کا بیرونی کالادھن سفید کرایا 2019 کی ایمنسٹی سکیم میں56کیسز میں 31ارب78کرورر وپے کا کالادھن سفید کرایا گیا ان میں سے کچھ سیاستدان بھی ہیں لیکن وہ کبھی بھی اقتدار میں نہیں رہے جبکہ کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے والا شخص نہیں،قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے چیئرمین اسد عمر نے اجلاس میں کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے ساڑھے پانچ ارب ڈالر کے سامنے آئے جو پاکستانی روپے میں 800ارب روپے بنتے ہیں اور اس میں سے بہت معمولی رقم ایف بی آر کو وصول ہوئی۔

خبر رساں ادارے کےمطابق وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر نے کہاکہ پاکستان دو بار ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہ چکا ہے، پاکستان میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا سیکریٹریٹ بنا یا جارہا ہے، پاکستان 27 ایکشن پراقدامات پر کر رہا ہے، ایف اے ٹی ایف مشکوک ٹرانزیکشن پر عمل درآمد مزید موثر مانگتا ہے، پاکستان کو فروری 2018 میں آئی سی آر جے کا پلان دیا گیا ہے، یہ 27 نکاتی ایکشن پلان ہے، جب ہم حکومت میں آئے 22 نکات پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا ،حکومت نے اب تک 17 پر نکات عمل درآمد کرلیا ہے ،پاکستان 7 جنوری کو حتمی رپورٹ پیش کرے گا، ایف اے ٹی ایف فروری 2020 میں پاکستان کے بارے میں فیصلہ کرے گا، آئی سی آر جے کا ایکشن پلان اگلے سال مکمل کرنا چاہتے ہیں، ٹیکنیکل کنسلٹنٹ تعینات کردیے گئے ہیں ،آئی ایم ایف ،اے ڈی بی اور ورلڈ بینک معاونت کررہے ہیں۔

نمائندہ جنگ کےمطابق قائمہ کمیٹی نے ایم این اے سید فخر امام کے پیش کردہ بنکنگ کمپنیز (قرضوں کی ریکوری، ایڈوانس، کریڈیٹس اور فنانسز) ترمیمی بل 2019، زرعی ترقیاتی بنک آف پاکستان ( تنظیم نو اور کنورژن) ترمیمی بل 2019اور فنانشل انسٹیٹوشن ( ریکوری آف فنانس ) ترمیمی بل 2019کی منظوری دے دی جبکہ انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بنک آف پاکستان کی تنظیم نو و کنورژن ترمیمی بل مسترد کر دیا۔

علاوہ ازیں وفاقی وزیر حماد اظہر نے کمیٹی کو بتایا کہ اگر پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اکتوبر 2020 تک ایشیا پیسیفک گروپ کی 40سفارشات پر مکمل عملدرآمد میں ناکام رہا تو آئندہ3 برس کے لیے نیا ایکشن پلان دیا جاسکتا ہے اور خطرہ ہے کہ آئندہ برسوں میں ایف اے ٹی ایف کی تلوار ملک پر لٹکتی رہے گی۔

وفاقی وزیر حماداظہر جو ایف اے ٹی ایف کے لیے پاکستان کے فوکل پرسن بھی ہیں نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کو اے پی جی کے 40سفارشات پر عملدرآمد اکتوبر 2020تک کرنا ہے اور پاکستان زیر نگرانی رہے گا۔

تازہ ترین