• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی وجوہات کے بنا پر بڑھتا ہوا قرضہ معیشت کے لئے خطرہ ہے، یہ معاشی پیداوار، روزگار اور غربت کے خاتمے میں حائل اہم رکاوٹ ہے۔ قرضوں میں اضافے کی بابت مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے حکومتی پالیسی پر شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور مقامی سرمایہ کار بھی بیرون ملک سرمایہ منتقل کرنے کی تدبیر کرتے ہیں، شرح مبادلہ پر بھی اس کا اثر ہوا ہوتا ہے اور نتیجتاً افراطِ زر میں بھی اضافہ ہوتاہے۔
اندرونی اور بیرونی قرضے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں آج سے پہلے ان میں اتنا اضافہ کبھی نہیں ہوا۔ 2000-07ء تک ان میں6.6فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا جبکہ 2007-12ء تک اس میں 21.5فیصد کی شرح سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔اندرونی قرضوں کی شرح میں24.1 فیصد سالانہ اضافے سے ملکی معیشت پر بدترین اثرات نمودار ہوئے ہیں۔ وطن عزیز کے اندرونی قرضوں میں اس غیر معمولی اضافے سے بجٹ میں ایک خاص حصہ اس مصرف کیلئے مختص کر دیا گیا ہے،خطرناک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اندرونی قرضوں پر شرح سود اصل رقم کے نوّے فیصد سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔
ملکی تاریخ میں بیرونی قرضوں کا حجم 66/ارب ڈالر ہے جس میں پچھلے 5 برس میں20/ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، اگر آئی ایم ایف کا پروگرام معطل ہو گیا ہوتا تو اس میں مزید 5.6/ارب ڈالر کا اضافہ ہوچکا ہوتا۔ قرضوں میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں بھاری اقتصادی اور کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ اور زرمبادلہ کی قدر میں کمی ہے۔ معاشی گورننس، کمزور اقتصادی ٹیم اور وزارت خزانہ کی قرضوں کی ناقص منصوبہ بندی نے جلتی پر تیل کام کیا۔
زرمبادلہ کی قدر میں کمی کے باعث صرف اندرونی قرضوں میں 18.5فیصد کی شرح سے1450/ارب روپے کا اضافہ ہوا۔خوفناک بات یہ ہے کہ 60 سالوں میں اندرونی قرضوں کا حجم 4.8 کھرب روپے تھا جو موجودہ حکومت کے دور میں 8کھرب روپے کے دگنے اضافے کے ساتھ 12.8کھرب روپے تک جا پہنچا ہے جس کے باعث سود کی ادائیگیوں میں بھی دگنا اضافہ ہوا ہے۔
ملکی ابتر معاشی صورتحال قرضوں میں اضافے کے بحران کا شکار ہونے کے خطرات کی غمازی کرنے والی بہترین مثال ہے۔ قرضوں کے ضخیم حجم اور زرمبادلہ کی گرتی ہوئی قدر کے باعث ملک ادائیگیوں کے بحران میں داخل ہوگیا ہے، جس پر حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کو نہ کوئی ندامت ہے اور نہ کوئی شرم۔
آئی ایم ایف کو بھاری ادائیگیوں کے باعث پاکستان کو 2012-13ء اور 2013-14ء میں قرضوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے بحران کا سامنا ہوگا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر جون 2012ء میں10.8 /ار ب ڈالر سے کم ہو کر جنوری2013ء میں8.7/ارب ڈالر رہ گئے۔ جس کے باعث پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا اور بالآخر سنگین حالات میں آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔ملکی قرضوں میں کمی کیلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ اگلے تین برس میں بجٹ خسارے ملکی مجموعی پیداوار کے3فیصد سے3.5فیصد تک رکھے۔ ٹیکس اصلاحات کا نفاذ کرکے اس میں اضافے سے بجٹ خسارے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ حکومت تباہی کا شکار قومی اداروں کی مکمل طور پر نجکاری کر دے اور ماضی کی طرح ان کی تنظیم نو کی سعی نہ کرے۔ شرح مبادلہ میں استحکام اور معاشی سرگرمیوں کا فروغ قرضوں میں کمی کی تذویر کا حصہ ہونا چاہئیں۔ صوبائی حکومتوں کے مالی نظم کے بغیر قرضوں میں کمی ممکن نہیں۔نئے این ایف سی ایوارڈ نے اس صورتحال کو ابتر بنانے میں جلتی پہ تیل کا کام کیا ہے کیونکہ اب اس کے اجراء کے بعد حکومتی قرضے، وفاقی حکومت کی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
قرون وسطہ کے دور کے یورپی فلسفی روسو کا مشہور قول ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر ہر جگہ یہ زنجیروں میں قید ہے، اسی طرح بے چارے پاکستانی بھی آزاد پیدا ہوتے ہیں لیکن انہیں بھی ہر طرف قرض کی زنجیروں نے گھیرا ہوا ہے۔2007ء میں ہر پاکستانی بچہ پیدائشی طور پر30 ہزار روپے کا مقروض تھا،2012ء میں 76000 ہزار روپے اور 2013ء میں یہ رقم 83000 روپے تک جا پہنچی ہے۔
پاکستان کا موجودہ معیار زندگی غیر متزلزل اور معاشی مستقبل انتہائی خطرے میں ہے۔ قرضوں میں غیر معمولی اضافے نے وطن عزیز کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہمارے حکمران لاپروائی سے ملکی وسائل خرچ کر رہے ہیں۔ قرضوں میں کمی کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں، کیا ایسے وقت میں ہماری سیاسی قیادت ان مسائل کے خلاف سینہ سپر ہو سکے گی؟
تازہ ترین