• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”شہیدوطن افضل گرو کا جسد خاکی حکومت ہند کے پاس ہے“مزار شہداء سرینگر کی ایک قبر پر یہ کتبہ لگایا گیا تھا۔ بھارتی فوجی دستوں نے قبرستان کا محاصرہ کر کے جسے ہٹا دیا۔ یہ قبر بہشت بریں کے اس مکیں کی منتظر ہے جسے9 فروری کی صبح تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔بھارت کی سپریم کورٹ کا فیصلہ عجیب لیکن حقیقت پر مبنی ہے جس میں گہرائی بھی ہے اور اعتراف بھی۔ فیصلہ ان الفاظ میں سموگیا ہے”افضل گرو کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔ اس کے کسی دہشت گرد جماعت یا گروہ سے تعلقات کے شواہد بھی موجود نہیں لیکن سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر سزائے موت کے فیصلے سے مطمئن ہوگا“۔ بھارت کے اجتماعی ضمیر کے اطمینان کا افضل گرو کی موت سے تعلق یہی وہ گہرائی ہے جس کا سمجھنا ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کا اجتماعی ضمیر یا اصل چہرہ کیا ہے؟بھارت کا اجتماعی ضمیر ایک ہندو لڑکی کی اجتماعی آبروریزی پر تڑپ اٹھتا ہے لیکن ہزاروں کشمیری خواتین کی آبروریزی اور بہیمانہ قتل و غارت پر خاموش رہتا ہے۔ یہ اجتماعی ضمیر نریندر مودی کو تین بار وزیراعلیٰ منتخب کرتا ہے جس نے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرایا۔ 1990ء کے بعد بھارتی فوج کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کر چکی ہے۔ دس ہزار سے زائد کشمیری لاپتہ ہیں۔ لاکھوں کشمیری ان ٹارچر سیلوں میں بدترین اذیت اور تشدد کا شکار ہیں جو بگرام اور ابوغریب کے عقوبت خانوں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ امریکہ نے عراق پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ایک لاکھ65ہزار فوجی وہاں بھیجے جبکہ بھارت نے کشمیر کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے وہاں7لاکھ فوج رکھی ہوئی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ جو سلوک فلسطینی عوام کے ساتھ کررہے ہیں ویسا ہی سلوک بھارتی فوجیں کشمیری عوام کے ساتھ کر رہی ہیں۔ بھارت اپنے بارے میں ایک اسرائیلی طرز کی ریاست اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بجائے دنیا کی سب سے بڑی پولیس اسٹیٹ ہونے کا تاثر پختہ کر رہا ہے۔آج کے حالات امریکہ اور مغرب کے ہاتھ میں ہیں جو بھارت کو کشمیر پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے میں مدد دے رہے ہیں۔ مغربی دنیا بھارت کی جمہوریت کے سحر میں مبتلا ہے۔ بھارت کی جمہوریت اور اقتصادی ترقی دنیائے جدید میں ایک مثال قرار دی جاتی ہے۔ بھارت کی آبادی دنیا کا 22فیصد یعنی ایک ارب 22کروڑ سے زیادہ ہے جن میں سے85کروڑ سے زائد لوگ ہر پانچ سال بعد الیکشن کے تسلسل کے باوجود غربت کی آخری لکیر سے نیچے پہنچ چکے ہیں اور ان کی روزانہ آمدنی تیس روپے سے بھی کم ہے۔ پناہ گاہ اور سہارے سے محروم لاکھوں لوگ جھونپڑ پٹیوں میں پُرمصیبت زندگی گزار رہے ہیں۔ جمہوریت اور معیشت کی ترقی نے بھارت کی عمر تو بڑھا دی ہے لیکن بھارت اس بحران پر قابو نہیں پا سکا جو دنیا کی44 فیصد غربت کی صورت بھارت کے بھوکے ننگے لوگوں میں پھیل چکی ہے۔ وہاں ایک محدود اقلیت ہے جو مادی وسائل پر قابض ہے اور وہی حکومت اور اقتدار کے حصول میں کامیاب ہے۔ گزشتہ انتخابات میں بھارتی لوک سبھا کی 543 نشستوں پر منتخب ہونے والوں میں 300 ممبران ارب پتی اور 180کروڑ پتی ہیں جبکہ ایک سو پچاس ارکان پر سنگین اخلاقی جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں۔ بھارت برہمن ذہنیت کی اشرافیہ کی مکمل طاقت کا نام ہے۔ ان مقتدر برہمنوں نے غیرہندوؤں اور خود نچلی ذات کے ہندوؤں پر زندگی تنگ کردی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور برہمن سامراج کا ملاپ ہے جو زمین کی تہوں سے معدنیات نکالنے کیلئے غریب نکسل آبادی کو مار رہا ہے، انہیں جنگلوں میں دھکیل رہا ہے، زندگی گزارنے کے مواقع، تعلیم و تربیت اور شہری زندگی سے محروم کر رہا ہے۔ مسلمانوں کی حالت نچلی ذات کے ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں سے بھی بدتر ہے۔ بھارت کی دونوں بڑی پارٹیاں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے باطن میں مسلمان دشمن اور دونوں ہی پارٹیاں کشمیر کو بھارت کا لازمی حصہ قرار دیتی ہیں۔ ایک سامراجی ملک کی طرح بھارت کی عدالتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے فیصلے دیتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کسی پر غداری یا وطن دشمنی کا الزام لگائے تو عدالتیں بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ عامل کانسی سے لیکر عافیہ صدیقی تک امریکی عدالتیں بھی اسی روش پر چلتی ہیں۔ قانون کے اعلیٰ تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے افضل گورو کو بھارتی عدالتوں نے جس طرح سزائے موت دی ہے اس پر نامور بھارتی قانونی ماہرین بے شمار اعتراضات کر رہے ہیں۔ افضل گورو کی پھانسی بھارتی عدالتی نظام پر ایک نہ مٹنے والا دھبہ ہے۔
بھارت کے اہل دانش سمجھتے ہیں کہ کشمیر ان کے قابو میں نہیں رہ سکتا لیکن یہ بھارت کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ہے جو بھارت کی پالیسیوں اور فیصلہ سازی پر غالب آچکی ہے اور کشمیرکی آزادی پر ہونے والی ہر پیشرفت کو سبوتاژ کر دیتی ہے۔ اس جارحانہ پالیسی کے ردعمل میں آج بھارت میں ایک دو نہیں کئی تحریکیں چل رہی ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے ماؤ کے باغیوں کی تحریک نے مشرقی اور جنوبی بھارت کی کئی ریاستوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ان کے زیر اثر جنگلات، دیہات اور شہر آزادی کے نعروں سے گونجتے رہتے ہیں ان میں سے بعض کے اندر فوج کو بھی کارروائی کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ بھارت کا تقریباً بیس سے پچیس فیصد حصہ اس وقت مسلح گروپوں کے قبضے میں ہے۔ بھارت حریت پسندی کی ان تحریکوں کو دہشت گردی قرار دیکر نگاہیں چرا رہا ہے لیکن یہ آگ پھیلتی جا رہی ہے جسے افضل گورو کی سزائے موت نے مزید حدت دی ہے۔مسلم ممالک کشمیریوں پر بھارت کی جانب سے توڑے جانے والے مظالم سے عملاً مکمل طور پر لاتعلق ہیں۔ وہ بھارت سے تجارت، رابطوں، مذاکرات اور بھارتی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے اپنی مارکیٹوں تک رسائی فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں افواج پاکستان نے بھی بھارتی خطرے کو نظرانداز کرتے ہوئے اندرونی خطرے کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا لیکن اہل کشمیر ان تمام باتوں پر یقین نہیں رکھتے وہ بھارت کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ مسلم ممالک کے بے مروت رویوں خصوصاً پاکستان سے آزردہ ضرور ہیں لیکن وہ اسلام کی اس مدافعتی قوت پر یقین رکھتے ہیں جو پچھلے چوبیس برسوں سے بھارت کے مقابلے میں ان کا سب سے موثر ہتھیار ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس مدافعتی قوت سے شکست کھا چکی ہے۔ ظالم مظلوموں کی اس قوت کو دہشت گردی کا نام دیتے ہیں ۔
تازہ ترین