• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان کے حالیہ بیان کے بعد ایک امید کی کرن نظر آئی ہے کہ شائد انتخابات 15 مارچ کے بعد چھ سے آٹھ ہفتوں میں منعقد ہو پائیں۔ اللہ تعالیٰ خیر کرے، مگر پتہ نہیں دل کیوں نہیں مانتا، آنے والے دنوں میں سب کام قومی توقعات کے مطابق ٹھیک ہو جائیں گے۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ نگران حکمرانوں کے آنے یا اپنی مدت بڑھانے کا نہیں، اصل مسئلہ امن و امان کی دن بدن بگڑتی ہوئی صورتحال کا ہے، جس کی وجہ سے اس وقت سانحہ کوئٹہ کے واقعات ہوں یا کراچی کے حالات، خیبرپختونخوا (سرحد) ہو یا پنجاب، ہر جگہ لوگ لوٹ مار، ڈکیتی، جرائم کے واقعات میں اضافہ محض کمزور گورنس، بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے ہو رہا ہے، جبکہ فرقہ واریت کو ہوا دینے میں بھارت، اسرائیل اور امریکہ سب مصروف ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان نے گوادر پورٹ دوبارہ چین کو دے کر اور ایران سے گیس پائپ لائن کا دوبارہ معاہدہ کرنے کے حوالے سے پیش رفت کرکے بلاوجہ امریکہ کو ناراض کر دیا ہے جبکہ امریکہ گوادر پورٹ کا انتظام سنگا پور کے ذریعے 2007ء میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے ذریعے حاصل کرنے کی حکمت عملی منظور کرا چکا تھا۔
سنگا پور کی متذکرہ کمپنی دراصل امریکی کور میں کام کرتی ہے، موجودہ حکومت نے شائد اس لئے یہ معاہدے کئے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ اوباما حکومت اگلے ڈیڑھ سال کے لئے پاکستان میں ایسا نظام حکومت لانا چاہتی ہے جو اسے افغانستان کی نئی حکمت عملی پر عملدرآمد میں مدد دے سکے۔ اس حوالے سے ممکن ہے کہ موجودہ حکمران ہی امریکہ کو یقین دلا دیں کہ ہم آپ کے تابع رہیں گے، اس صورتحال میں عام انتخابات کے انعقاد کا معاملہ ایک سوالیہ نشان بنا رہے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قوم کی اکثریت چاہتی ہے کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہو جائیں اور اس میں واقعی ان کے نمائندے آ جائیں، جس سے پارلیمنٹ نئے چہروں سے بھر جائے، اس سلسلہ میں معاشی ماہرین اور بزنس کے تمام ادارے اور تمام شعبوں کے ماہرین بھی یہی چاہتے ہیں تاکہ پاکستان میں ایک مضبوط اور اہل حکومت کے آنے سے معاشی فرنٹ پر واقعی کوئی ایسا کام ہو جائے، جس سے حکمرانوں کو بار بار نہ تو وزرائے خزانہ بدلنے پڑیں اور نہ ہی سٹیٹ بینک گورنر یا سیکرٹری خزانہ، جیسا کہ حالیہ پانچ سال میں ہو رہا ہے۔ اب حکومت نے جاتے جاتے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو بھی رخصت کرکے یہ شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ وہ نگران وزیراعظم ہوں گے جبکہ ان کے قریبی حلقے کہہ رہے ہیں کہ نگران وزیراعظم تو شائد نہیں، مگر سندھ کے نگران وزیراعلیٰ کے حوالے سے ان کا قرعہ نکل سکتا ہے لیکن پاکستان میں سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔
اس لئے امریکی لابی کے قریب ہونے کی وجہ سے بظاہر مخالفت کے باوجود ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے یا لایا جا سکتا ہے کہ سارے ہی مان جائیں، اس حوالے سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو لانے کا مقصد نگران سیٹ اپ کے ذریعے پاکستان کی ”اکنامک ہائی جیکنگ“ کا نیا پلان بنایا جائے، جس میں پاکستان میں جو بھی حکومت آئے، وہ نگران حکمرانوں کے آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کے ساتھ طے پانے والے نئے معاہدوں پر دستخط کرنے یا انہیں ماننے پر مجبور ہو جائیں، اس حکمت عملی کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں انتخابات ہونے کی صورت میں اگر انتظامی نکتہ نظر سے اہل اور اچھی ساکھ والی حکومت آ جاتی ہے اور وہ معیشت کو صحیح سمت میں لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے تو پھر یہ بات امریکہ، یورپ اور حتیٰ کہ بھارت کو بھی پسند نہیں ہو گی، البتہ چین اسے کچھ سپورٹ کر سکتا ہے، مگر حقیقیت حال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی معیشت کو بھارت سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہو رہے ہیں، مگر ہم بھارت کو اس لئے زیادہ الزام دے رہے ہیں کہ وہ ہر حال میں ہمارا دشمن ہے جبکہ کاروبار کو تباہ کر رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کی سلامتی کے منصوبوں میں تعاون کرکے معاملات برابر بھی کر رہا ہے۔ اس وقت انتخابات ہوں یا نہ ہوں، ساری قوم کو فکر لاحق ہے کہ معیشت کیسے ٹھیک ہو گی کیونکہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے انفارمل اکانومی کا حجم (حصہ) مسلسل بڑھ رہا ہے، جو کہ PIDE کی تحقیق کے مطابق 70 فیصد تک ہو چکا ہے جبکہ بعض ماہرین اب اسے90 فیصد تک قرار دے رہے ہیں، اگر ان کی یہ بات ٹھیک ہے تو پھر ہم سب عملاً انفارمل سیکٹر کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایسے حالات میں قومی ریونیو، بجٹ خسارہ، حسابات جاریہ کا خسارہ، تجارتی توازن اور معاشی اصلاحات کا کیا بنے گا۔ نگران حکمرانوں کے لئے بڑے چیلنج یہی ہوں گے، پھر سال رواں کی آخری سہ ماہی بھی کئی وجوہ کے حوالے سے اہم قرار دی جا رہی ہے، جس پر آئندہ بات ہو گی۔
تازہ ترین