• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرد جرم کے بعد ملزم کی غیر حاضری میں اس کا ٹرائل ہوسکتا ہے ، اعتزاز

کراچی (ٹی وی رپورٹ) اعتزاز احسن نے کہا کہ اگر ملزم اُس وقت تک حاضر رہتا ہے جب اس پر فرد جرم عائد ہوجاتی ہے، چارج فریم ہوجاتا ہے، اگر اس اسٹیج تک شامل ہے کارروائی میں اس کے بعد اگر غائب ہوتا ہے تو وہ مفرور ہے ، اس کی غیر حاضری میں اس کا ٹرائل ہوسکتا ہے، سپریم کورٹ آرمی چیف کو چھ مہینے دے سکتی ہے تو تین سال بھی دے سکتی ہے یہ تو کوئی بات نہیں ہے کہ جو اختیار میں نہیں ہے وہ کیا، ماہر قانون دان نے نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ آصف سعید کھوسہ نے بڑی احتیاط سے اپنے وقار کو قائم رکھ کر اس عہدے کے فرائض انجام دیئے، ایک دو فیصلوں سے اختلاف ہوسکتا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح جج صاحبان نے یہ تصور کر لیا کہ سپریم کورٹ حکم دے سکتی ہے کہ پارلیمنٹ یا گورنمنٹ کو یہ قانون بناؤ فلاں نہ بناؤ سپریم کورٹ ایم این اے کو یہ حکم نہیں دے سکتی کہ تم ووٹ دائیں دو یا بائیں دو۔ پی آئی سی واقعہ کی تکلیف ہے شرمندگی بھی ہے یہ ارادہ کر کے آئے تھے کچھ لوگوں کی طرف سے اس بات کو بیلنس کیا گیا اس کا افسوس ہوامیری نگاہ میں اس کارروائی کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ اعانت کرنے والے جوڈیشری ہیں جب آپ جج بنے ہیں آپ نے حلف لیا ہے آپ آئین کو پروٹیکٹ کریں گے لیکن جب آپ ضیا الحق یا مشرف کا حلف لیتے ہیں تو یہ الفاظ نکال دیئے جاتے ہیں اس کے بغیر اب یہ ذمہ داری نہیں رہتی اس میں آپ دلچسپ بات دیکھیں سپریم کورٹ نے کیا کہا بیگم نصرت بھٹو کے کیس میں یحییٰ بختیار نے یہ بحث کی کہ آپ جو جج صاحبان ہیں آپ اب جج نہیں ہیں کیوں کہ آپ نے پہلے حلف لیا تھا to protect uphold and defend the constitution of Pakistan اب جس نے آئین کو منسوخ کر دیا ہے جنرل ضیا الحق نے آکر یا معطل کر دیا ہے اس کا آپ نے حلف لے لیا ہے اس کے نام سے یا تو وہ جج رہے نہیں۔ موجودہ آرمی چیف کے حوالے سے اتنے بڑے فیصلے پر کوئی بحث ہوئی ،ایک اٹارنی جنرل اور ایک وزیرقانون اتر کر آگئے ڈیڑھ دن کی بحث کے بعد اتنا بڑا فیصلہ جس میں ساری پارٹیز کو بلانا چاہیے تھا بڑے زیرک وکلاء ہیں پاکستان کے ان کو بلانا چاہیے تھا ریسرچ ہونی چاہیے تھی۔ اب فیصلہ جو لکھا ہے کوئی بحث نہیں سنی اس میں جو سب سے اہم بات ہے اس کا ذکر ہی نہیں ہے کہ کیا وجہ ہے کہ 1956 ،1962 ، کا آئین ہے 73 کا آئین کسی میں بھی مدت نہیں ہے آرمی چیفکی اس کی کیا وجہ ہے ، اس کی وجہ ہے Because the army chief like the attorney journal like the governor serves at the pleasure of the President اس کی کوئی مدت نہیں وہ تین مہینے بعد گھر بھیجا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں سمجھا یہ جاتا ہے ۔ The Prime minister serve of the pleasure of the Army chief not that the army chief serve at the pleasure of the president ۔ جنرل مکارتر ہیرو تھا جنگ کا جنگ کے وقت ہی نکال دیا گیا تھا۔ جنرل میک لسٹر امریکہ کا، چار سال ٹین ایئر ہے عراق گیا راستے میں صحافیوں سے بات کی وہ چھپ گئی اس کو کہا گیا کہ وہیں سے واپس آجاؤ اور چارج چھوڑ دو اور اس نے چارج چھوڑ دیا چار سال لکھے ہوئے ہیں لیکنhe serve at the pleasure ۔ اگر حکومت یہ فیصلہ کرے کہ جنرل قمر باجوہ کو ہی رکھنا ہے ہر حال میں اس میں ان کو مسائل ہوں گے کہ کس طرح گنتی پوری کرتے ہیں اگر آرمی ایکٹ کی بھی ترمیم کرنی ہے تو اکثریت تو چاہے ہوگی سادہ اکثریت۔حکومت شاید یہ سمجھے کہ ووٹ سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ باجوہ صاحب سے کہیں کہ آپ کی خدمت جتنی کرسکتے تھے کر لی اب ہمیں کوئی مشورہ دیں کہ اگلے چار پانچ ٹاپ جنرل میں سے کونسا بہتر آرمی چیف ہوگا اور میرٹ پر نیا آرمی چیف لے آئیں تو پھر سب ختم ہوجائے گا سارا فیصلہ ختم ہوجائے گا ۔ پاکستان کی ملٹری تاریخ میں جو دو تین آرمی چیف مثبت انداز میں اپنا نام رقم کر دیں گے اس میں ایک راحیل شریف اور قمر جاوید باجوہ ہوں گے کیوں کہ انہوں نے شمالی وزیرستان کا معاملہ سدھارا، آج کا امن اس بات کا ثبوت ہے اور یہ فرنٹ فٹ پر گئے ہیں یہ سولجر جنرلز تھے انہوں نے جنگ کی وردی پہنے رکھی ہے ممکن ہے جنرل باجوہ کے آخری تین چار مہینے ہوں اس پر مجھے افسوس ہوگا۔
تازہ ترین