• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1977 کے الیکشن کے بعد اُس وقت کے فوجی سربراہ نے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اطلاع دی کہ الیکشن میں دھاندلی کے واویلے نے افواجِ پاکستان کو بھی اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے جس کے نتیجے میں حکومت نے وزیرِخارجہ جناب عزیز احمد کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ تمام بڑی چھاﺅنیوں میں جاکر افسران سے خطاب کریں تاکہ یہ تاثُّر ختم ہو سکے۔مجھے بحیثیت کپتان ملیر چھاﺅنی میںزندگی میںپہلی بار امورِخارجہ کے وزیر کو امورِداخلہ پر تقریر کرتے ہوئے سننے کا اعزاز حاصل ہوا۔وزیرموصوف کی تقریر نہایت شائستہ اور نپے تلے الفاظ سے بھرپور تھی تقریر کا لُبِ لباب یہ تھا کہ اگرالیکشن میں کوئی دھاندلی ہوئی بھی ہے تو یہ مقامی سطح پر ہو سکتی ہے لیکن قومی سطح پر اس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیںکیونکہ آئین اس معاملے میں خاموش ہے ۔ انہوں نے حاضرین سے استدعا کی کہ وہ مدبرانہ رویہ اپناتے ہوئے آئینی بحران پیداکرنے سے پرہیزکریں،چونکہ کپتانی رینک تک ہوش پر جوش حاوی ہوتا ہے شائد اسی لئے ایک جوشیلے پٹھان کپتان نے وقفہ سوالات کے دوران سنگ میںلپٹا ہوا سوال مقرر کے منہ پر دے مارا کہ اگر آئین ان مسائل کا حل نہیں دیتاتو پھر اس کاغذ کے ٹکڑے کو اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ اس کے بعد محترم عزیز احمد نے کمال بُردباری سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ آئین کسی بھی ملک کو چلانے کے لئے نہایت ہی اہم اور مقدس دستاویز ہوتی ہے اور اس کی عدم موجودگی میں معاشرہ انارکی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ یہ بات حاضرین کے پلے پڑی یا نہ پڑی لیکن اس کے کچھ ماہ بعدمردِحق نے شائد اس کپتان کی سوچ کی حمایت میںایسی چابک دستی سے آئین کی بالادستی کا مظاہرہ کیا جو ہماری تاریخ میں جلیِ حروف سے لکھا جائے گا۔
قارئینِ کرام! ہمارے آئین کی کہانی بس ایک رام کہانی ہے۔ہم نے آزادی کے پہلے نو سال توآئین کی تیاری کی غلامی میںہی گذارے اور جب 1956 میں آئین وجود میں آیا تو پہلے دو سالوں میں ہی اغواءکر لیا گیا۔1973ءمیں قوم کوایک بارپھر متفقّہ آئین ملا جو صرف چار سال بعد ہی معلق کر دیا گیا۔ 1988ءمیںجہاز کے ہوامیںپھٹنے اور 1999ءمیںزمین پر نواز شریف کا تختہ الٹنے تک کے گیارہ جمہو ری سالوں میں اس سرجری شدہ آئین کوجھنجھنے کے طورپر ہی استعمال کیا جاتا رہا اور بیچاری قوم پنگھوڑے میںلیٹی فقط مزے لیتی رہی۔اس کے بعد صاحبِ مشرف آسمان میںچکرلگانے کے بعد سیدھے زمین پر اترے اور مائیکروسافٹ کے بِل گیٹس کی طرح ہمارے ملک کے CEO بن بیٹھے، پھر صدر کی کرسی پر جا بیٹھے اور پھر نو سالہ دور میں قوم نے ان کی ملک دوستی اور عدلیہ نے ایمرجینسی پلَس کے خوب مزے لوٹے۔ اللہ اللہ کر کے 2008ءمیں عوامی اور جمہوری دور لوٹا جو پانچ سال کے بعد پھر اللہ اللہ کر کے اپنی مدت پوری کرنے کو ہے۔ یہ ہر دلعزیز حکومت بڑی تندہی سے ہر طرح کی دلدل میںخود کودی او ر اس کی ذمہ داری کہیں نہ کہیں پنپتی سازش کو ٹھہرایا ۔اشتہاری مجرموں کو پکڑنے کی بجائے اپنے کارناموں کی کامیاب اشتہاری مہم چلائی۔ 1973ءکے آئین کو اپنی اصلی شکل میں لا کھڑا کیا اور صبح شام آئین و قانون کی بالا دستی کا درس دیا۔
قارئینِ کرام! اس مختصرتجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہماری پینسٹھ سالہ قومی تاریخ میںآئین سے انکار کی روش فوجی حکمرانوں نے ہی ڈالی لیکن اس فصل کو کھاد مہیا کرنے میں سیاستدانوں نے بھر پور حصّہ ڈالا۔ چاہے بہت کڑوی ہی سہی لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری کوئی بھی ایسی سیاسی ومذہبی جماعت نہیںجس نے کسی نہ کسی وقت اورکسی نہ کسی طرح فوجی قیادت سے سازباز کیساتھ معاملات طے نہ کئے ہوں؟ سچ پوچھیں تو اس گناہ میںہم بحیثیتِ قوم بھی قصور وار ہیں۔ آپ ووٹ تو اپنے مر شدیا آقا کودیںاور ان کی نا دستیابی کی صورت میںاپنی برادری کودیں یا پھر اپنے برادرِنِسبتی کو اور جب یہ سب جُل دے جائیں تو آپ فوج کو پکارنے لگ جائیں۔ یہ رویّہ قوم کی بے چارگی نہیں بلکہ اس ہجُوم کی بے بسی اور لاچارگی ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں سیاسی قائدین خلوصِ نیت سے سیاست اور حکومت کرتے ہیں اور اگر نہ کریں تو قوم فوج کو پُکارنے کی بجائے اپنے قائدین کا ہی جلوس نکال دیتی ہے ۔ان کا آئین نہ تو کبھی مُعلق ہوا، نہ ہی کبھی مُعطل اور نہ ہی کبھی فوج آئی۔ ایک مرتبہ اندراگاندھی نے ایمرجینسی لگائی تو کسی نے مٹھائی تقسیم نہ کی بلکہ اپنے قومی مُحسن کی بیٹی کو ہی چلتا کر دیا۔ اس کے بر عکس ہم نے اپنی مادرِملت کو ایک آمر کے ہاتھوں الیکشن میں ہروا دیا۔ اس روز سیّد ضمیر جعفری نے اپنی ڈائری میں لکھا ”آج ایُوب خان جیت گیا مگر مُلک ہار گیا“۔
قارئینِ کرام! ہمارے خوشی محمد جیسے قائدین اور مالاکنڈ کے صوفی محمد میں کیا فرق ہے؟ فقط اتنا کہ ایک آئین کی عمل داری سے عاری ہے اور دوسرا آئین سے انکاری۔یہ خطرناک روش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تمام سیاستدان اپنے عمل میں صِدقِ دل سے آئین کی بالا دستی پر ایمان نہ لے آئیں۔آخر میں میری درخواست ہے کہ حکمران اقبال کو جلسوں میں بلند آواز میں پڑھا کریں، سیاسی و مذہبی جماعتیں حفیظ جالندھری کے شاہ نامہِ اسلام پر گذارا کریں اور عوام کو چاہئے کہ وہ فیض اور جالب کو حفظ کرلیں تاکہ بَوقتِ ضرورت ان کے افکار ان کے کام آ سکیں ۔بقول سیّد ضَمیر جَعفری
قول و عمل کا ربط ہے محکم
آج نہ بدلا اپنا آج اگر تونے
تیرا کل تبدیل نہ ہو گا
قدرت کا دستور اٹل ہے
بیج کا پھل تبدیل نہ ہو گا
تازہ ترین