• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام سے قبل زمانہ جہالت میں عورتوں پر ایک ظلم یہ بھی کیا جاتا تھا کہ اگر وہ شوہر کو پسند نہ ہوتیں تو وہ ان کو از خود طلاق نہیں دیتے بلکہ ان پر تشدد اور ظلم کرتے تاکہ وہ مہر یا جو کچھ انہیں شوہر کی طرف سے ملا ہے اسے واپس کرکے ان سے خود ہی خلاصی حاصل کرنے کو ترجیح دیں۔ اسلام نے اس حرکت کو ظلم قرار دیا ہے۔ شوہر اور بیوی کا رشتہ آقا اور کنیز کا رشتہ نہیں۔ حاکم اورملکیت کا بھی رشتہ نہیں، جاگیر دار اور جاگیر کا بھی رشتہ نہیں۔ یہ رشتہ ہے محبت اور دوستی کا برابری اور ہم آہنگی کا، اعتماد اور اعتبار کا، رفیق حیات ، شریک زندگی، نصف بہتر جیسے سارے القاب اس بات کی توضیح کرتے ہیں جو ہماری تہذیبی اور ثقافتی زندگی میں بھی مردوں نے اپنی بیویوں کو ایسے ہی عزت اور برابری کے خطابات عطا کئے ہیں کیونکہ رفیق یا شریک کا مطلب ہی دوستی اوربرابری کا درجہ دینے کے ہیں۔ القاب اور خطاب سے الگ اگر ہمارے معاشرے کی حقیقی سوچ کو پرکھا جائے تو آج بھی ہمارا معاشرہ ایک مردوں کا معاشرہ ہے، جس کی اساس عورت پر مرد کی برتری کا احساس ہے اور یہی سوچ اور برتری کا احساس ہمارے معاشرے میں عورتوں کے استحصال اور ان کے حقوق کی پامالی کا سبب بھی بنتا رہا ہے۔ ایک زمانے تک عورت کا گھر سے باہر نکلنا ، تعلیم حاصل کرنا یا ملازمت کرنا ناقابل قبول بلکہ ناقابل تصور سمجھا جاتا تھا پھر دھیرے دھیرے تہذیبی اور معاشرتی اقدار میں تبدیلیاں آتی گئیں۔ سوچ اوررواج بھی بدلنا شروع ہوئے۔ وہی عورت جسے شاعروں نے اپنے تصور اور مصوروں نے رنگوں میں قید کر رکھا تھا تصویر کے پردے سے باہر آئی اس نے اپنی انفرادیت اورتشخص کا اظہار کرتے ہوئے معاشرے کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ محض دل بہلانے کا کھلونا نہیں۔ چار دیواری میں مقید وجود نہیں بلکہ ایک مکمل فرد ہے جسے معاشرے میں مردوں کے برابر حقوق حاصل ہونا چاہئے۔ وہ فکری اور شعوری اعتبار سے بھی کسی بھی طرح مرد سے کمزور نہیں اگر ماضی میں تہذیبی اور معاشرتی قیود میں بندھی عورت کی طرف دیکھا جائے تو مردوں نے اپنے گھر کی عورتوں سے زیادہ باہر کی عورت میں دلچسپی اس لئے لی کہ اسے بھی ذہنی رفاقت کیلئے کسی ایسی ساتھی کی کمی کا احساس رہتا تھا جو ڈری سہمی ہوئی کنیز نہیں بلکہ ایک دوست ایک رفیق کی طرح اس کے نفسیاتی اورذہنی تقاضوں کو سمجھ سکے۔
عورت کے ساتھ کسی طرح کی زبردستی کی اجازت نہ تو اسلام دیتا ہے نہ ہی آج کا مذہب معاشرہ… سورة البقرہ میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ”تمہاری بیویاں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس “۔ شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دینے کا مقصد بھی یہ ہے کہ اور تقاضوں کو سمجھنا چاہئے۔ دوستی، محبت اور اعتبار کے رشتے میں ایک دوسرے کی مرضی اورخواہش کا احترام بہت ضروری ہے ورنہ یہ رشتہ محض ایک جبر اور ایک سمجھوتہ بن کر رہ جاتا ہے۔ عائلی زندگی کا سکون بھی اس بات میں مضمر ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ذہنی مطابقت ، دوستی اور احترام کا رشتہ موجود ہے۔ شادی صرف دو جنموں کا بندھن نہیں بلکہ دو ذہنوں کی ہم آہنگی کا رشتہ ہے۔ ذہنی رفاقت جسمانی رفاقت سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ جب ذہن کا رشتہ مضبوط ہو تو ایک دوسرے کے لئے احترام اور ایک دوسرے کی خواہشات کی تعظیم کرنے کا عمل خود بخود جگہ بنا لیتا ہے اور یہی عمل مضبوط ازدواجی رشتے کی بنیاد بنتا ہے۔ ازدواجی زندگی زینہ بہ زینہ رفاقت محبت اور اعتماد کی منزل تک پہنچتی ہے جس کی پہلی سیڑھی دوستی اور ایک دوسرے کے جذبات کا احترام ہے۔ محبت اور دوستی میں نہ زبردستی ہوتی ہے نہ جبر بلکہ محبت اور دوستی پراعتماد سپردگی کا نام ہے خصوصاً شادی شدہ زندگی میں۔ ہمارے یہاں پاکستانی معاشرے سے لیکر عربوں اور شیخوں کے محلات تک عورت یا تو ایسی کنیز جو مردوں کے اشاروں پر ناچنے والے کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہاں تک کہ وراثت بچانے کے لئے قران کے ساتھ شادی جیسی قبیح رسم بھی جاگیردارانہ نظام اور سندھی معاشرت کے فرسودہ رواجوں میں آج بھی موجود ہے۔ فورس میرج یا زبردستی کی شادی بھی اس زمرے میں آتی ہے۔ جس میں وٹے سٹے کی شادی، بچپن کی طے شدہ شادیاں اور فرسودہ خاندانی نظام کے تحت محض خاندانوں میں کی جانے والی شادیاں شامل ہیں جن سے ایک طرف طبی اور نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں تو دوسری طرف یہ رواج عورت کی شخصی آزادی کے منافی ہے۔ مجازی خدا کا تصور بھی محض ایک خود ساختہ اور فرسودہ تصور ہے کیونکہ شوہر کو دیوتا ماننے کا تصور اسلام میں نہیں ہے۔ عورت بھی مرد کی طرح ایک بشر ہے اور بشری تقاضوں اور انسانی جبلتوں میں دونوں کے فطری اور سماجی حیثیت جدا ہوتے ہوئے بھی برتر اور کم تر نہیں بلکہ یکساں ہے۔
حضرت خدیجة الکبریٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند کیا اور آپ کو شادی کا پیغام بھجوایا جس سے اس یقین کو مزید تقویت ملتی ہے کہ اسلام میں عورت کی جانب سے شادی کا پیغام اور نکاح کے لئے کسی کو پسند کرنا قطعی طور پر اس کا جائز حق ہے اسی طرح نکاح کے بعد ایک دوسرے کی مرضی اور خواہش کا احترام عائلی اور ازدواجی زندگی کو زیادہ پر اعتماد بنا دیتا ہے۔ آج کا برطانوی قانون ایکسویں صدی کے تہذیب یافتہ معاشرہ میں فرد کی اہمیت کو اولیت دیتا ہے اور اس قانون کی رو سے عورت بھی سماجی اعتبار سے مرد کے برابر ہے جس پر کسی بھی قسم کے تشدد کی اجازت قانون نہیں دیتا۔
تازہ ترین