• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات میں جب پاکستان اور عمران خان کو اپنا عظیم دوست قرار دیا تھا اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے ثالثی کا ’’جھانسہ‘‘ دیا تھا تو اس کے چند ہفتے بعد ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے عوام کو یرغمال بنالیا تھا۔ 5ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا مقبوضہ کشمیر کے لوگ محاصرے میں ہیں۔ امریکی صدر اور دنیا کے کسی اور کھڑپنچ ملک نے مودی اور بھارت کو سنجیدگی کے ساتھ چیلنج نہیں کیا۔ اس صورتحال سے اس کا حوصلہ مزید بڑھا اور اس نے بھارتی مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کا بل بھی منظور کراکے مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں بے وطن کردیا۔ اب ان کے لئے یہ لازم ہوگیا ہے کہ وہ اس بات کو ثابت کریں کہ وہ واقعی انڈیا کے شہری ہیں؟ مسلمان اس بات کو کیسے ثابت کریں گے؟ اگر وہ کوئی شجرہ نصب نکال لیں گے تو بھی اس کو ہندوانتہاپسندوں کی حکومت قبول نہیں کرے گی کیونکہ ہندو انتہاپسند تو مسلمانوں کو بھارت کے باشندے تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ان کا موقف ہے کہ مسلمان افغانستان، ایران، ترکی اور دوسری وسطیٰ ایشیاء کی ریاستوں سے آکر ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں، یہ وہی مسلمان ہیں جو مختلف ادوار میں حملہ آوروں کے ہمراہ آتے رہے ہیں اور یہیں بس گئے ہیں، جبکہ ان مسلمانوں نے اپنے احسن سلوک کی وجہ سے مقامی پسے ہوئے ہندوئوں اور دلتوں کو بھی مسلمان کیا ہے۔چنانچہ ان کے نزدیک مسلمانوں کو بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔بی جے پی اور آر ایس ایس کے منشور میں یہ ساری باتیں درج ہیں اور اس کا خطرناک ترین پروگرام یہ ہے کہ پورے برصغیر میں ایک ہندو ریاست قائم کی جائے۔ بی جے پی کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی آر ایس ایس کے اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں اور انہوں نے اپنے دو اہداف حاصل بھی کرلئے ہیں۔ اس میں ان کو دنیا کے سب سے بڑی طاقت امریکہ کے صدر کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ دوسرے قابل ذکر ممالک بھی اپنے اقتصادی مفادات کی وجہ سے بھارت کے ساتھ کھڑے نظر
آرہے ہیں۔ سب نے انسانی حقوق اور اقدار کی دھجیاں بکھرنے کے باوجود اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ اب ایک مرتبہ پھر ڈیووس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو ایک اور لار لپادیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرانے میں مدد کرنے کو تیار ہیں۔ خدا خیر کرے؟ اب تو یہ خوف پیدا ہونا فطری امر ہے کہ بھارت اس مرتبہ خدانخوستہ کیا قدم اٹھائے گا۔ اس کی فوج کے سربراہ پہلے ہی آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ تو کیا اب پاکستان کو کوئی اور ’’سرپرائز‘‘ دیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہواتو یقیناً پاکستان کو اپنی بقاء کے لئے اپنا دفاع کرنا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ پھر جنگ صرف کشمیر اور روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں رہے گی۔ یہ دونوں ایسے حریف ممالک ہیں کہ ان کے درمیان کوئی کنٹرولڈ جنگ نہیں ہوسکتی۔ امریکی صدر جس انداز میں ثالثی کی بات کررہے تھے، اس سے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ سچ نہیں بول رہے۔ ان کے الفاظ ان کے چہرے کے تاثرات کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی اور کھچڑی ضرور پک رہی ہے جس کا وہ اظہار نہیں کر رہے۔ کچھ اور تو ہے جو انڈیا اور امریکہ کے درمیان طے ہورہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انڈیا نے جس طرح مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بدلنے سے قبل سارے قابل ذکر ممالک کو اعتماد میں لے لیا تھا، اسی طرح اب اپنے کسی نئے ڈرامے پر بھی اس نے ان ممالک کے ساتھ بات کی ہوگی۔ ڈیووس میں وزیراعظم عمران خان نے میڈیا کونسل سے خطاب کے دوران اس جانب اشارہ بھی دیا ہے کہ امریکہ کے بھارت کے ساتھ اقتصادی مفادات وابستہ ہیں کیونکہ وہ ایک بڑی منڈی ہے۔ تو پھر امریکہ پاکستان کے لئے بھارت کو ناراض کیوں کرے گا۔پاکستان نے امریکہ اور اس کے صدر سے اس قدر توقعات کیوں وابستہ کررکھی ہیں۔امریکہ کو پاکستان کے ساتھ صرف ایک مفاد نظر آتا ہے کہ وہ اسے افغانستان سے باعزت طور پر نکلنے میں مدد کرے، وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے نکلنے کے بعد افغانستان کی کھڑپنچ بھارت بن جائے جس نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ یہ بات پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے اور اسے معلوم ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے انخلاء کے بعد بھارت کو ’’بڑا‘‘ بنادیا تو پھر پاکستان کو کشمیر کے ساتھ ساتھ افغانستان کے محاذ پر بھی بھارت کی فوج کا سامنا کرنا پڑے گا؟ یقیناً پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہوں گی اور مقتدار حلقے امریکہ کے کسی اور ’’لارے لپے‘‘ پر اعتماد کرنے کے حق میں نہیں ہوں گے۔
تازہ ترین