• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
میری دوست جس کا تعلق سوشل اور فلاحی اداروں سے ہے اسے شکوہ ہے کہ آج کل بے لوث مدد بھی ممکن نہیں وہ بتا رہی تھیں اور خوب تفصیل سے بتا رہی تھیں کہ فیشن کے ساتھ ساتھ، رشتوں کا فیشن سا ہوچلا ہے وہ بھی عجیب و غریب کہ جن کا غیرت کے رشتوں سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ پہلے اگر کوئی لڑکی منہ بولا بھائی بناتی تو بھی اسے شک کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا حالانکہ ایک سچے بہناپے کا جذبہ لڑکی کے دل میں موجزن ہوتا تھا اور بھائی بھی منہ بولی بہن کی غیرت میں قتل ہو جاتے تھے کہ سگی بہن مانتے تھے۔آج کے دور میں خونی رشتوں، خاندانی رشتوں اور پاکیزہ رشتوں کی رسی ٹوٹتی جارہی ہے۔ محبت کی، انسیت کی ڈور ہاتھ سے نکلتی جارہی ہے، قرابت داری سلک کی طرح پھسلتی جارہی ہے اور نفرتیں دلوں میں پنپ رہی ہیں۔ خاندانی سلسلہ اور نسلی تحفظات بے معنی ہوکر رہ گئے۔ ان رشتوں کے علاوہ ایک رشتہ دوستی اور محبت کا ہوتا تھا جسے ہم رشتہ الفت کہتے ہیں وہ تو اب کہیں کہیں ہی دکھائی دیتا ہے مگر اب تو بغیر غرض کے کوئی رشتہ دکھائی نہیں دیتا۔ اب وہ زمانہ سرکتا جارہا ہے جب انسانی رشتوں کی زنجیر پائوں میں باندھ لی جاتی تھی محبت و خلوص کے جذبے کے سات خود غرضی کے اس دور میں وہ رشتے جو جان حیات ہوتے تھے کہ جن کے بغیر سانس لینا بھی ممکن نہ تھا اب تو وہی رشتے دم توڑتے جارہے ہیں ایسے جیسے رشتہ حیات منقطع ہو جائے تو تمام سلسلے رک جاتے ہیں، ٹوٹ جاتے ہیں وہی حال اب ہر قسم کے رشتوں کا ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے سے قطع تعلق معمولی تنازعات پر کرلیتے ہیں۔ رشتوں سے زیادہ لا تعلقی اور بے پرواہی معاشرے میں بگاڑ پیدا کررہی ہے۔ کسی کا احساس نہ کرنا ، کسی کی ضروریات سے طوطا چشمی برتنا عام عادات ہوگئی ہیں کوئی صاحب حیثیت خاندان کا بندہ غریب رشتے داروں سے منہ پھیر لیتا ہے جیسے جانتا ہی نہ ہو۔ آج کل ہزار ہا مسائل کے ساتھ بعض قومیں جی رہی ہیں اور خاص طور پر تیسری دنیا کے لوگوں کےمسائل تو ان کے ساتھ تا حیات ہی رہتے ہیں مگر کچھ نے ان کا حل اپنے ہی طریقے سے نکال رکھا ہے۔ کسی نے بد عنوانی کے تحت جینا سیکھ لیا تو کسی نے بالکل ہی غیرت کا جنازہ نکال کر جینا سیکھ لیا۔کسی نے بد عنوانی یا غیرت کا جنازہ نکال کر نہ جیا تو بھیک مانگ کر جی لیا۔ عوام کی ہر قسم سے بتائی زندگی کا جوابدہ کون ہوتا ہے۔ سلطنت کا کرتا دھرتا اور حکام بالا اور ان سے منسلک ادارے وغیرہ، وہ لوگ جو اپنے خوشامدیوں اور پسندیدہ لوگوں کیلئے ممی، ڈیڈی بنے رہتے ہیں ان کی جائز و ناجائز خواہشیں پوری کرکے دوسرے مجبور لوگوں کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ دولت مند اپنی زندگی مزے سے گزارنے کے ہر حربے سے واقف ہیں اس کے لئے اسے نمبر 2گھروں میں جھانک کر اپنے لئے کوئی ہیرا ڈھونڈنا پڑے تو اس کیلئے خوب وقت نکاتے ہیں پھر موج مستی میں اس ہیرے کو مزید ہیروں سے نواز کر مالا مال کردیتے ہیں۔ پھر دل لبھانے والی ہیروں کو تو نوازنے والے بہت قدر دان ہوتے ہیں مگر ان کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا وہ نمبر 2نیت کی کھوٹی ہیں تو پھر نیت تو بھرنے سے رہی ایسے لوگوں کی تو بتایئے کبھی کسی دولت مند نہ یتیم خانوں، دارالامانوں میں جھانک کر کسی ضرورت مند کو ڈھونڈ کر اس کی پریشانی و مشکلات جاننے کی کوشش کی۔ امرا نے کبھی خود چل کر ضرورت مندوں کا حال جاننے کی کوشش نہیں کی کہ کسی کے کام آسکیں، ان کی مدد کرے۔ کبھی کوئی درد مند دل رجھنے والے کو احساس ہو جائے تو غریب کی قسمت چمک جاتی ہے ورنہ آج کل تو کسی کی مدد بھی فی سبیل اللہ نہیں اپنے ہی مزے و مستی کے تحت کی جاتی ہے۔ تو بات ہو رہی تھی کہ دولت مند زندگی مستی میں گزارنے کے حربوں سے واقف ہیں۔ اس کے لئے وہ کس یحد تک بھی جاسکتے ہیں معاشرہ کبھی خراب نہیں ہوتا نہ ہی اس کے لوگ ، معاشرے میں جو طبقہ بگاڑ پیدا کرتا ہے وہ امراء کا طبقہ ہے جو غرباء کی غربت کو منہ چڑا کر دیکھتا ہے جو کسی معاشرے کے مجبور بچوں کے سر پر دست شفقت رکھ کر اس کوبر دانہ شفقت سے نوازنے کی بجائے کسی غرض کے تحت ’’شگر ڈیڈی‘‘ کا رول ضرور ادا کرتا ہے۔ یہ ’’شگر ڈیڈی‘‘ ۔ جس پر مہربان ہو جائے تو اس کی زندگی بدل دیتا ہے شگر ڈیڈی کی لت میں پڑی مجبوری اس کی بے اعتنائی کا شکار بھی ہو جاتی ہے۔تو معاشرے میں جس رشتے کو معاشرتی و معاشی پریشانیوں کے تحت ابھرنا چاہئے وہ پدرانہ شفقت کا رشتہ ہونا چا ہئےمگر یہ کیا کہ ایک نئے رشتے کا رواج پڑ رہا ہے چاہے وہ مجبوری میں پڑے یا مستی و عیش پسندی کیلئے پڑے وہ رشتہ ’’شگر ڈیڈی‘‘ کا رشتہ ہے۔ پاکستان کی بہت سی طالبات نے اپنی زندگی کوبغیر کسی تردد کے گزارنے کا حل یہ رشتہ نکالا ہے کہ ایک شگر ڈیڈی ہو جو ہماری ضرورت پوری کرے آسانی کے ساتھ اور ہم اس کی ضروریات کا خیال رکھیں بہت سی تو مجبوری میں یہ رشتہ نبھا رہی ہیں مگر کچھ عیش پرست اپنی غیرت کو بالائے طاق رکھ کر یہ رشتہ نبھا رہی ہیں۔ کہنا پڑتا ہے کہ پہلے کبھی نادار و مفلس کی کفالت کرکے لوگ فخر سے ڈیڈی بنتے تھے مگر اب ڈیڈی ’’شگر ڈیڈی ‘‘ ہیں۔ کچھ لڑکیاں ’’شگر ڈیڈی‘‘ سے حاصل شدہ مراعات سے اپنے محبوب کو نوازتی ہیں اور ڈھٹائی سے کہتی ہیں کہ کسی بڑے کی کمائی چھوٹے کے لئے جائز ہے۔ یہ تو سنا تھا کہ بڑی عمر کے لوگ چھوٹے بچے بچیوں سے بد فعلی جیسے گناہ میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کی عصمت دری کے واقعات بھی ہوتے رہتے تھے اور ہوتے رہتے ہیں اور تو اور پاکستان میں سب سے زیادہ وہ گناہ ہو رہے ہیں جسے دیکھ اور سن کر روح کانپ جاتی ہے کہ معصوم بچوں سے زیادتی کے بعد انہیں بری طرح زخمی کرکے مار ڈالتے ہیں ۔ یہ تمام گناہ و زیادتی میں سے جو آسان راستہ نکالا ہے اور جو باہمی سی رضا مند سے زو پکڑ رہا ہے وہ’’شگر ڈیڈی‘‘ کا ہے۔ جو اپنی ضرویرات سے زیادہ آپ کی جائز و ناجائز ضروریات پوری کرتا ہے۔ یورپ میں اور دوسرے ایشیا و افریقی ممال میں بھی ’’شگر ڈیڈی‘‘ کا رواج ہو چلا ہے۔ گناہوں کی رسی ہے جتنی چاہے دراز کرلو۔ مگر اسلامی ممالک میں یہ سب ہونا لمحہ فکریہ ہے کہ نسل در نسل ایمان پر قائم رہنے کی دعا کرنے والے اپنی نسلیں خراب ہوتی کیسے دیکھ پائیں گے۔ ’’شگر ڈیڈی‘‘ سے علاوہ ’’شگر ممی‘‘ کا بھی رواج ہے۔ بہت سے نوجوان لڑکے بڑی عمر کی خواتین میں دلچسپی ان کی دولت کی وجہ سے اور کچھ ایک خاص سیکس کی بیماری کی وجہ سے کرتے ہیں۔ کاش کسی ملک کے حالات اتنے خراب نہ ہوں کہ جہاں بچیاں کھلم کھلا شگر ڈیڈی معتارف کرائیں اور نوجوان لڑکے ہر گئی میں اس امید پر نہ بیٹھے رہیں کہ کوئی بڑی عمر کی دولت مند آئے جو ہمیں بیان کرلے جائے اور کہیں یورپ میں سیٹ کرادے۔
تازہ ترین