• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیصرہ پروین، راول پنڈی

مجھے اسپتال جانا تھا، وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا اور مہینہ اتنی جلدی گزر گیا ۔پچھلے مہینے ڈاکٹر نے ایک ماہ کی دوا دے کر چیک اَپ کے لیے بلایا تھا ۔ مَیں نے جلدی جلدی گھر کاکام ختم کیا اور بیٹے کو ساتھ لے کر اسپتال پہنچ گئی ۔ شُکر کہ ہم بر وقت پہنچ گئے، ابھی او پی ڈی کے لیے ٹوکنز دئیے جا رہے تھے۔ہم نے ٹوکن لیا اور ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھ گئے۔ بیٹا موبائل میں مصروف ہوگیا اور مَیں نے پرس سےمسنون دعاؤں کی کتاب نکال کر پڑھنا شروع کر دی۔ اس روز اسپتال میں مریضوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ واقعی ڈاکٹر زاورعملے کی ہمّت ہے ،جو اتنے مریضوں کو دیکھتے ہیں۔تمام عملے کو ایمان داری سے کام کرتا دیکھ میرے دل سے بے اختیار ان کے لیے دعائیں نکلنے لگیں ۔

میرے دائیں طرف جو خاتون بیٹھی تھیں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ چکوال سے آئی تھیں، جب کہ بائیں طرف بیٹھی خاتون ایبٹ آباد سے۔ علاج معالجے کی خاطر لوگ دور دراز علاقوں سے بھی صبح سویرے پہنچ جاتے ہیں۔میرے ہاتھ میں دعاؤں کی کتاب دیکھ کر سبھی عورتیں اپنی اپنی پریشانیوں ، امراض سے متعلق دعائیں پوچھنے لگیں۔ساتھ بیٹھی ایک خاتون نے بتایا کہ ’’میری بیٹی جب ایف اے میں آئی تو اس کے سر میں شدید درد رہنے لگا، ہم نےکوئی ڈاکٹر ، حکیم نہ چھوڑا ،پیروں فقیروں کے پاس بھی گئے مگر درد میں افاقہ نہ ہوا ۔ اب پتا چلا ہے کہ اس کے دماغ میں رسولی ہے ۔‘‘ مَیں نے انہیں بتایا کہ قرآن پاک کی سات آیات ایسی ہیں، جن میں ہر مرض کی دوا ہے،وہ سورۃ الفاتحہ ہے۔باتوں ہی باتوں میںپنڈی سے آئی عورت نے مجھ سے میری بیماری کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ ’’مَیں یہاں شوگر کی دوا کے ساتھ ساتھ اپنی نظر چیک کروانے آتی ہوں ۔شاید اب کی بار ڈاکٹر آپریشن لکھ دیں ۔یہ آنکھ کا نور بھی کتنا قیمتی سرمایہ ہے ،اس کی قدر تو ان لوگوں سے پوچھو ،جو اس نعمت سے محروم،دنیا کی رنگینیوں سے بے خبر زندگی گزار رہے ہیں ۔‘‘یہ سُن کر وہ عورت جھٹ بولی ’’ میری بھی نظر کمزور ہے ، مجھے بھی کوئی سورت یا دُعا بتا دیں میں نے انہیں سورۃ ق کی آیت نمبر 22پڑھنے کے لیے کہا۔اتنے میں میری باری آگئی۔

واپس آئی تو کچھ اور ٹیسٹس وغیرہ کروانے کے لیے انتظار کرنا تھا۔ سو، دوبارہ بیٹھ گئی۔ جو خاتون میرے ساتھ لائن میں کھڑی تھیں، انہوں نے بتایا کہ ’’مَیںٹی بی کی دوا کھا رہی ہوں، اللہ کا شکر ہے کہ اب اس بیماری کی دوا ہے ورنہ ایک زمانے میں تو ٹی بی کے مریضوں سے لوگ اتنا دُور بھاگتے تھے ،جیسے آج کل کورونا کے مریضوں سے۔‘‘اتنی دیر وہاں بیٹھ کر، آپس میں باتیں کرتے، ایک دوسرے کی پریشانیاں سُنتے سُنتے اجنبیت بالکل ختم ہو چُکی تھی، ایسا لگ رہا تھا گویا تمام عورتیں سہیلیاں ہوں۔ میری مسنون دعاؤں کی کتاب وہ بچّی پڑھنے لگی، جس کے دماغ میں رسولی تھی۔ وہ اس طرح ورق پلٹ رہی تھی اور کتاب میں کھوئی ہوئی تھی ،جیسے اپنا علاج ڈھونڈ رہی ہو۔ اُسی لمحے میرے ہاتھ سے تسبیح ٹوٹی اورموتی فرش پہ بکھر گئے ۔’’اُف میری تسبیح … میری پریشانی کو دیکھتے ہوئے سبھی خواتین موتی چُننے میں میری مدد کرنے لگیں ۔‘‘’’کوئی بات نہیں اور لے لینا، ویسے بھی اللہ تعالی کو تسبیح کے بجائے انگلیوں پہ پڑھا کلام زیادہ پسند ہے ‘‘ ایک خاتون نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے تسلّی دی۔ ’’ در اصل یہ تسبیح مجھے میری ایک بہت ہی پیاری سہیلی نے تحفے میں دی ہے ،جو ابھی کچھ روز قبل عُمرہ کر کے لوٹی ہے۔‘‘ مَیں نے اپنی پریشانی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے چُنے ہوئےموتی پرس میں ڈالتے ہوئے کہا۔

اسی دوران ایک جواں سال ، خوش شکل، خوش لباس لڑکا اپنی ماں کے کان میں کچھ کہتا ہوا چلا گیا،شاید وہ کینٹین گیا تھا۔ماں نے ساتھ چلنے کو کہا، مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے انہیںوہیں بیٹھے کو کہا ۔’’آپ کون سے ڈاکٹر کو دکھانے آئی ہیں؟‘‘ مَیں نے ان سے پوچھا اور وہ ایک لمبی آہ بھر کرخاموش ہو گئیں۔تھوڑی دیر بعد خود ہی گویا ہوئیں ’’مَیں اپنے بیٹے کا علاج کروا رہی ہوں۔ اسے نفسیاتی عارضہ لاحق ہے۔مگر اب خاصا بہتر ہو چُکا ہے۔ واقعی کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ڈاکٹرز مسیحا ہوتے ہیں ۔ اگر یہ ڈاکٹرز نہ ہوتے تو جانے مجھ جیسی دُکھیاری مائیں کہاں جاتیں۔ ‘‘ دوپٹّے سے آنسو پونچھتے ہوئے خاتون نے اپنا دل ہلکا کیا۔ مَیں نے انہیں تسلّی دیتے ہوئے پوچھا ،اگر آپ برا نہ مانیں، تو بلا جھجھک مجھ سے اپنے دل کی باتیں شیئرکر سکتی ہیں کہ مَیں بھی ایک ماں ہوں۔ 

خاتون پھرگویا ہوئیں ’’بعض اوقات جن لوگوں پر ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ بھروسا ہوتا ہے، وہی اس بھروسے ،مان کو توڑ دیتے ہیں ۔میری دو بیٹیاں اور یہ ایک ہی بیٹا ہے ۔بیٹیاں اس سے چھوٹی ہیں۔ اس کا نام نورالحسن ہے ۔ جب یہ ساتویں جماعت میں تھا، تو پڑھائی میں کم زور ہو گیا، تو اس کے بابا نے اپنے بھتیجے کے پاس ٹیوشن پڑھنے بٹھا دیا۔ میری نند کا گھر ہمارے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ نورالحسن روزانہ باقاعدگی سے ٹیوشن جانے لگا ۔ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ہمارا بیٹا پڑھ لکھ کر ہمارا سہارا بنے گا، لیکن کاشف (کزن)نے اسے بد فعلی کا نشانہ بنایا اور ایک بار نہیں، اس نے میرے بچّے کے ساتھ بار بار یہی سلوک کیا ، پھر اسے ڈراتا، دھمکاتا کہ اگر کسی کو کچھ بتایا، تو اسے مار دے گا۔

جب کچھ دن گزرے اور نور الحسن سوتے میں ڈرنے لگا، چُپ چُپ اور خاموش ہوگیا، کھیل کود میں بھی دھیان نہیں دے رہا تھا، تو ہم اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے، جنہوں نے ہمیں ماہرِ نفسیات کے پاس بھیجا اور کئی سیشنز کے بعد میرے بچّے نے اپنے اوپر بیتی قیامت کے بارے میں بتایا، تو اس کا علاج شروع ہوا۔اللہ پاک نے میرے بچّے کو نئی زندگی دی ہے، یہ ڈاکٹر ہماری زندگی میں فرشتہ بن کر آئے، جو نور الحسن کو دوبارہ زندگی کی جانب مائل کر رہے ہیں۔ ورنہ میرا بچّہ تو زندہ لاش بن کر رہ گیا تھا، ہمارا تو انسانیت پر سے یقین ہی اُٹھ گیا تھا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بے چاری سِسکیوں سے رونے لگیں۔ مَیں نے دلاسادیا تو کہنے لگیں۔ ’’ آج جب مَیں لوگوں کو ڈاکٹرز یا پیرامیڈیکل اسٹاف کو بُرا بھلا کہتے سُنتی ہوں تو میرا خون کھول جاتا ہے۔ یہ لوگ تو لاکھوں لوگوں کی دعائیں لے رہے ہیں، یہ تو خدمتِ خلق کر رہے ہیں، یہی تو ہمارے اصل ہیروز ہیں۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کر پاتیں اُن کا نمبر آگیا اور وہ اپنے بیٹے کو ڈھونڈتی ڈاکٹرز کے پاس چلی گئیں۔

وہ خاتون تو چلی گئیں لیکن ان کے جانے کے بعد میرے ذہن میں بس یہی بات گھوم رہی تھی کہ اسپتال جاؤ تو پتا چلتا ہے کہ یہی معالجین جنہیں ہم اکثر اوقات خاص اہمیت نہیں دیتے، وہ کس کس کے مسیحا ہیں، کسی کے لیے فرشتہ تو کسی کے ہیرو اور سچ ہی تو کہا نور الحسن کی ماں نے یہی ہمارے ’’اصل ہیروز ‘‘ ہیں۔

تازہ ترین