• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں اور مرنےوالوں کی تعداد میں مسلسل اور تشویش ناک اضافہ ہو رہا ہے مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس عالمی وبا کے تدارک اور اس کے معاشی اثرات سے نمٹنے کے لیے ملکی سطح پر مشترکہ اور مربوط حکمت عملی کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ نقصان ہو سکتا ہے اور مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کیو نکہ ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کر دیا ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کا خطرناک مرحلہ ابھی شروع ہونا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اگلے روز سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پورے ملک میں اس حوالے سے ایک جیسی پالیسی ہو اور ایک جیسے اقدامات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ جس طرح لاک ڈاؤن شروع کرنے سے متعلق پورے ملک میں ایک ساتھ فیصلہ نہیں ہوا، اسی طرح 14 اپریل کے بعد لاک ڈاؤن ختم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سوچ ایک نہیں ہے۔ سندھ کے وزراسید ناصر حسین شاہ،ا متیاز احمد شیخ اور سعید غنی نے بھی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کورونا کے خطرناک اثرات سے نمٹنے کیلئے قومی لائحہ عمل اختیار کرنے کا مطالبہ کیا اور اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت سندھ نے اس ضمن میں جو اقدامات پہلے کیے اور جن کی نہ صرف دنیا نے تعریف کی بلکہ دیگر صوبوں نے بھی تقلید کی۔ ان اقدامات پر بعض حلقے تنقید کر رہے ہیں اور حکومت سندھ کے خلاف غلط سیاسی پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔

ملکی سطح پر ایک جیسی پالیسی نہ ہونے کا معاملہ ایسا نہیں ہے، جسے موجودہ سنگین حالات میں نظرانداز کر دیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا یہ ہے کہ صوبے خود مختار ہیں۔ وہ جو چاہیں، فیصلے کریں۔ وزیر اعظم کی یہ بات اچھی ہے کہ وہ صوبائی خود مختاری کا احترام کر رہے ہیں لیکن قدرتی آفات یا اہم قومی امور پر متفقہ اور مربوط پالیسی بنانے میں صوبائی خود مختاری کبھی حائل نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں صوبائی خود مختاری کے احترام کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت جو بھی پالیسی بنائے یا اقدامات کرے، اس میں صوبوں سے مشاورت کی جائے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وفاقی حکومت نے کورونا سے پیدا ہونے والی صورت حال میں صوبوں سے وہ مشاورت نہیں کی، جو اسے کرنا چاہئے تھی۔ احساس پروگرام کے تحت غریب، بے روزگار اور مستحق افراد کی مالی اداد کے لیے جب وفاق نے صوبوں سے مشاورت کی تو صوبوں نے اس پر مثبت ردعمل ظاہر کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ لوگوں کی مالی معاونت کا ملکی سطح پر مشترکہ اور مربوط پروگرام ہونا چاہئے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے احساس پروگرام میں اپنا مالی حصہ ڈالا۔ تینوں صوبوں میں تحریک انصاف یا اس کے اتحادیوں کی حکومتیں ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اس پروگرام میں اپنا مالی حصہ ڈالا اور اسے مشترکہ پروگرام کے طور پر قبول کیا۔ سندھ حکومت نے لوگوں کی اپنے طور پر مالی معاونت کا پروگرام شروع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن جب وفاقی حکومت نے مشاورت کی تو سندھ نے اسی وفاقی پروگرام کو مشترکہ پروگرام قرار دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اتفاق رائے پیدا ہو سکتا ہے بشرطیکہ مشاورت کی جائے۔

کورونا وائرس کے ابتدائی کیس سامنے آنے کے بعد حکومت سندھ نے ضروری اقدامات کرنے میں پہل کی۔ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور وزیر اعلیٰ سندھ کا وژن تھا، جس کی وجہ سے سندھ کو سبقت حاصل ہوئی۔ وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی صوبائی حکومتوں نے شروع میں سندھ حکومت کے اقدامات کی کبھی مخالفت کی اور کبھی تائید نہیں کی لیکن بعد ازاں سندھ حکومت والے اقدامات کیے۔ ان اقدامات میں تاخیر سے کورونا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں یہ رپورٹ جمع کرائی ہے کہ 25 اپریل تک پاکستان میں کورونا کے متاثرہ مریضوں کی تعداد کم از کم 50 ہزار تک ہو سکتی ہے۔ اگر پاکستان میں ٹیسٹ کرنے کی سہولتیں زیادہ ہوں تو تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو پاکستان کاہیلتھ کیئر سسٹم اور پاکستان کا معاشی اور انتظامی نظام اس صورت حال کو کیسے سنبھالے گا۔ اس سے پہلے کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں، مشترکہ اور مربوط قومی حکمت عملی پر کام کیا جائے۔

نیو یارک کے میئر بل ڈی بلاسیو ( Bill De Blasio ) کو ٹی وی چینلز پر یہ کہتے ہوئے خود سنا ہے کہ ہم نے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات میں تاخیر کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے خبردار بھی کیا کہ ہر امریکی ریاست کی الگ پالیسی اور الگ اقدامات سے پورے امریکا میں کورونا کو پھیلنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ پورے امریکا کو ایک جیسی پالیسی بنانا ہو گی اور ایک جیسے اقدامات کرنا ہوں گے۔ آج وہی بات وزیر اعلیٰ سندھ اور ان کی ٹیم کے ارکان کہہ رہے ہیں۔ ان کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔

اس وقت قومی اتفاق رائے سے جو فوری اور مشکل فیصلہ کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ 14 اپریل کے بعد لاک ڈاؤن کو جاری رکھنا ہے یا نہیں اور اگر جاری رکھنا ہے تو اس میں کتنی نرمی یا مزید سختی کرنا ہے۔ بہت سخت اور آزمائش والا مرحلہ آگیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ لاک ڈاؤن میں ایک ہفتے کی توسیع اور اس میں مزید سختی کی بات کر رہے ہیں لیکن وہ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ تاجروں اور صنعت کاروں کے دباؤ میں بھی ہیں۔ اس مرحلے پر متفقہ فیصلہ نہ ہوا تو پھر پاکستان کے لوگوں کو کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے معاملے پر متفقہ فیصلے کےساتھ ساتھ دیگر ایشو ز پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا نہ کرنے سے بہت نقصان ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین