اکتوبر 2019ء میں یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق دنیا میں انفلوانزا کے باعث ہونیوالی سانس کی بیماریوں سے سالانہ اموات کا تخمینہ 3لاکھ 89ہزار لگایا گیا ہے۔ سات محققین نے دنیا کے 193ممالک کا سال 2002ء تا 2011ء کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ پتا چلا کہ ہلاک ہونے والوں میں 7فیصد افراد کی عمر 65سال یا زائد تھی۔ اس تحقیق کے علاوہ عالمی ادارۂ صحت کے اپنے اعداد و شمار کو بھی دیکھا جائے تو انفلوانزا زکام اور متعلقہ بیماریوں کے باعث ہونے والی سالانہ اموات اڑھائی لاکھ تا 5لاکھ ہو سکتی ہیں۔ 2017ء میں یہ تعداد 2لاکھ 90ہزار تا 6لاکھ 50ہزار تھی جبکہ 2019ء کا تخمینہ 99ہزار تا 2لاکھ لگایا گیا۔ اس تحقیق کا عنوان ’’انفلوانزا کے باعث ہو نے والی عالمی اموات‘‘ ہے۔
17نومبر، جب چین میں کووڈ 19کے پہلے مریض کی تشخیص ہوئی، تب سے کورونا کا دنیا پر ڈر کا حملہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم سے زیادہ تباہ کن اور ہولناک ثابت ہوا ہے۔ کیوں نہ ہوتا، عالمی میڈیا نے انتہا درجے کی مارکیٹنگ جو کی۔ ڈر کی تشہیر ہوتی ہی کمال ہے۔ خود ڈرو اور دوسروں کو ڈرائو۔ ڈر ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ سب سے بڑی طاقت، اتنی بڑی کہ دنیا کے گرجا گھر، مسجدیں، مندر، گوردوارے اور دیگر مذہبی مقامات یا تو بند ہیں یا حاضری نہ ہونے کے برابر۔ چین کے شہر ووہان میں جب یہ وائرس پھیل رہا تھا تو میڈیا کو سنسنی نہ پھیلانے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا کہا گیا۔ مقصد خوف کو قابو کرنا تھا کیونکہ کورونا کا واحد علاج انسانی قوتِ مدافعت‘ ڈر اور خوف سے کم ہو جاتی ہے لیکن مخالف امریکی میڈیا نے سنسنی خیز رپورٹنگ کی جس سے چین کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ بعد ازاں ایران، امریکہ، برطانیہ، پاکستان، بھارت، اٹلی، سعودی عرب سمیت وائرس جہاں بھی پہنچا اس کی دہشت بذریعہ عالمی میڈیا کئی گنا زیادہ ہو گئی۔ حکومتیں ڈر گئیں، رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی۔ لوگوں نے ثواب جان کر اور مشن کے تحت اس ڈر کو پھیلایا، اب اس کی دہشت اس قدر ہے کہ دنیا کی کوئی حکومت رسک لینے کیلئے تیار نہیں۔ سو ڈر سے احتیاط اور احتیاط کے پہلو سے لاک ڈائون اور کرفیو لاگو ہیں۔ اس وقت دنیا کی کل آبادی 7ارب 80کروڑ ہے اور اس میں سے لگ بھگ 40فیصد یعنی 3ارب سے زائد گھروں میں لاک ڈائون ہیں۔ اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو کورونا سے اتنی اموات نہیں ہوئیں جتنی اس کی دہشت پھیلائی گئی ہے۔ دنیا بھر میں کل متاثرہ افراد 17لاکھ سے زائد، اموات 1لاکھ 3ہزار اور صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 3لاکھ 82ہزار کے قریب۔ ایک لاکھ اموات میں اکثریت بڑی عمر کے افراد ہیں۔ موت ایک مسلمہ حقیقت ہے اور بزرگوں کی طبعی موت میں عام طور پر کوئی نہ کوئی بیماری بہانہ بنتی ہے۔ ویسے بھی دنیا میں ہر سال فلو اور متعلقہ امراض کے باعث کم از کم بھی ایک لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ نئی تحقیق کے مطابق یہ تعداد 3لاکھ 89ہزار ہے۔پاکستان میں 47سو افراد کورونا متاثر ہیں، 71اموات ہوئیں اور 762مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ 20کروڑ سے زائد آبادی والے غریب ملک میں جہاں معاشی حالات ایسے ہوں کہ محض چند روپوں کے تنازع پر بھی قتل ہو جاتا ہو اور ہر سال سینکڑوں لوگ بھوک افلاس اور معاشی حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشی کر لیتے ہوں، وہاں 71افراد کی کورونا کے ہاتھوں موت سے قبل ہی لاک ڈاوٗن اور کرفیو سے خستہ حال معیشت وینٹی لیٹر پر آگئی ہے، صورتحال یونہی رہی تو لاکھوں انسانی زندگیوں کے نقصان کا سنگین خدشہ لاحق ہے۔ بندہ عمران خان کی اکثر پالیسیوں کا ناقد ہے تاہم یہ کہنا حق ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے خوف کی اس آندھی کے آگے دیوار بننے کی کوشش کی مگر قومی میڈیا جو بین الاقوامی میڈیا سے بننے والی رائے عامہ میں بہہ چکا ہے، کے دبائو کی وجہ سے عمران نے صوبوں کے لاک ڈائون کے فیصلوں کی مخالفت نہ کی۔ پھر ہمارے قومی میڈیا کی طرف سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے فوری فیصلوں کی تعریف و تحسین نے بھی پنجاب حکومت اور مرکز پر لاک ڈائون کا فیصلہ لینے پر دبائو میں حصہ ڈالا۔
ہمارا قومی میڈیا اس مشکل وقت میں میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کی وجہ سے نامکمل اور کمزور ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے میڈیا بریفنگ کے دوران میر شکیل بارے سوال ٹال دیا مگر یہ بات ٹلتی نہیں۔ میر شکیل روایت ساز صحافی ہیں۔ سارے ملک کا میڈیا اس ٹرینڈ کو فالو کرتا ہے جو وہ سیٹ کرتے ہیں۔ ماضی اور حال گواہ ہے کہ جنگ جیو گروپ کسی بھی اہم مسئلے پر رائے عامہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ میر شکیل الرحمٰن پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھنے والوں، ملکی و بین الاقوامی حالات کا علم رکھنے والوں میں سرِفہرست شخصیت ہیں۔ انہوں نے اہم امور پر سمریاں لکھوانے اور پڑھنے کا خاص انتظام کر رکھا ہے۔ بہت اچھا ہو اگر عمران خان اس مشکل وقت میں میر شکیل کے دماغ سے استفادہ کرتے ہوئے قومی میڈیا کوکورونا ڈر سیلاب میں بہنے سے بچاتے اور اس بیانیے اور سوچ کو پروان چڑھاتے جو وزیراعظم کے اپنے ذہن میں ہے۔ وہ حکمتِ عملی اپنائی جاتی جس سے لاک ڈائون کیے بغیر کورونا سے نمٹا جاتا اور قومی معیشت اور غریب مزدوروں کے حال کا خیال رکھا جاتا۔ اس بارے عمران خان بارہا بیان کرتے رہے لیکن اس کے باوجود وہ یہ پالیسی اپنا نہ سکے۔ نیب میر صاحب کا معاملہ بعد کیلئے اٹھا رکھتا، ویسے بھی اس شخص کی گرفتاری کی کیا ضرورت جو خود اپنی صفائی میں بار بار پیش ہو رہا ہو اور تفتیشی افسران سے مکمل تعاون کر رہا ہو۔ خیر اب وہ عدالت سے انصاف کے طلبگار ہیں۔
ہمارے ہاں یہ بحث بھی ہوئی کہ چین ماڈل اپنایا جائے یا اٹلی ماڈل؟ بھئی کیوں؟ پاکستان میں صرف پاکستان ماڈل اپنایا جانا چاہیے کیونکہ ہمارے حالات چین اور اٹلی دونوں سے بہت مختلف ہیں۔ ہم ہر دو اعتبار معاشی و موسمیاتی سے مذکورہ دونوں ممالک سے یکسر الگ نوعیت کے ہیں۔ اب بھی زیادہ وقت ضائع نہیں ہوا، وزیراعظم عمران خان کا اصرار بجا تھا کہ مکمل لاک ڈائون نہ کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک بار پھر عمران خان اپنے بیانیے اور خالص پاکستانی ماڈل یعنی ہمارے اپنے حالات کے مطابق کوویڈ19 سے لڑنے اور معیشت کی بحالی پر ملکی قیادت اور میڈیا کو اعتماد میں لیں ورنہ کورونا سے بھی کئی گنا زیادہ نقصان ناگزیر ہے جس کےغریب عوام، وینٹی لیٹر معیشت اور حکومت متحمل نہیں ہو سکتے۔