• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں 22 ملین یعنی 2 کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد نے کلیم داخل کیا ہے کہ وہ بیروزگار ہو گئے ہیں۔ بے روزگاری کا سبب وہ لاک ڈاؤن ہے جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار اس وقت کے ہیں، جب یہ سطور تحریر کی جا رہی تھیں۔ 

صرف تین ہفتے کے لاک ڈاؤن سے وہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو ئے ہیں۔ امریکا نے لاک ڈاؤن میں مزید تین ہفتوں کے لیے 7 مئی تک توسیع کر دی ہے۔ اس دوران بڑی تعداد میں مزید لوگ بے روزگاری کا شکار ہوں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اتنی ہی تعداد میں اور لوگ بے روزگار ہونے کے کلیم داخل کر سکتے ہیں۔

یہ ایک ایسے ملک کی حالت ہے، جو دنیا کی ایسی سپر پاور ہے، جس نے کچھ عرصہ پہلے تک یا یوں کہیے کہ ابھی تک اپنا عالمی ضابطہ نافذ کر رکھا ہے اور یک قطبی دنیا قائم کرکے واحد سپر پاور بنا ہوا ہے۔ یہاں سوشل سیکورٹی کا نظام بہت مضبوط ہے۔ 

ان کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور عالمی سامراجی نظام کے خود کار عمل کے تحت دنیا بھر سے لوٹے گئے وسائل کا رخ اس کی طرف ہے کیونکہ دنیا کے زیادہ تر کثیر القومی اداروں کے مرکزی دفاتر یہاں ہیں۔ اس کے باوجود امریکا اس صورت حال میں سنبھل نہیں رہا ہے۔ 

اگرچہ یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت بے روزگار ہونے والے لوگوں کو الاؤنس دے گی یا جن اداروں میں وہ کام کرتے تھے، ان سے تنخواہیں دلوائے گی لیکن یہ کب ہو گا اور کیسے ہو گا ؟ اس حوالے سے متعلقہ ادارے فون کالز پر تسلی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔

جن لوگوں کا روزگار ختم ہوا ہے، ان سب کو امریکا مالی امداد نہیں دے گا کیونکہ غیر قانونی تارکین وطن اور روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے اس کے اہل نہیں ہیں، جن کی بے روزگار ہونے والوں میں اکثریت ہے۔ اس صورت حال میں لوگ ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ معاشی بحران کے ساتھ ساتھ وہاں سیاسی بحران بھی شدت اختیار کر سکتا ہے۔ 

کورونا کی وجہ سے امریکا کے ساتھ ساتھ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی بڑی معیشتیں بھی تباہی سے دوچار ہو رہی ہیں اور وہاں سیاسی استحکام کی بنیادیں بھی ہل رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں لگ بھگ 90 کروڑ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ یہ صورت حال معیشت اور سیاست کے ساتھ ساتھ جغرافیہ پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ایک نئی دنیا بننے کے خدوخال نمایاں ہو رہے ہیں، جو کورونا سے پہلی والی دنیا سے مختلف ہو گی۔

سپر پاورز اور دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں اور مملکتوں کے لیے اس وقت جو مشکلات پیدا ہو رہی ہیں، پاکستان جیسے ملکوں کے لیے یہ مشکلات کہیں زیادہ ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی اور طفیلی معیشت اور اپنے طور پر فیصلے نہ کرسکنے والی کمزور سیاسی حکومت کے لیے ان مشکلات سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔ 

پاکستان میں بے روزگار ہونے والے لوگوں کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے اور نہ ہی حکومت اس طرح کا ڈیٹا جمع کر رہی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اگرچہ صنعتی اور تجارتی اداروں کو حکومت کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو نہ نکالیں مگر اس بات کا بھی تو خیال رکھنا چاہئے کہ جب یہ ادارے بند ہیں تو وہ تنخواہوں سمیت اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے۔ 

بے شمار لوگ ایسے ہیں، جن کا اپنا چھوٹا موٹا کاروبار یا روزگار تھا، جنہیں ہم ’’سیلف ایمپلائیڈ‘‘ کہتے ہیں۔ صنعتوں اور کاروبار کی بحالی بھی اس قدر آسانی سے نہیں ہو گی۔ لاک ڈاؤن یا محدود سرگرمی والی کورونا کی صورت حال اگر ختم ہو جائے تو نارمل حالات کی جانب جانے میں بھی کئی ماہ لگ جائیں گے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت اور کاروبار مکمل طور پر بحال ہو جائیں گے۔

کورونا وائرس کیسے پھیلا ؟ اس پر ہم سازش والی تھیوری کو فی الوقت زیر بحث نہیں لاتے لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں معاشی اور سیاسی بحرانوں سے پیدا ہونے والی صورت حال میں جو سازشیں ہو سکتی ہیں، انہیں نظر انداز کرنا یا ان کی ابھی سے پیش بندی نہ کرنا ایسے ہی ہو گا، جیسے کبوتر نے بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لی ہوں۔ 

خوف ناک سیاسی بے چینی اور عدم استحکام ہمارے لیے چیلنجز بن کر آرہے ہیں اور ہماری سیاسی قوتوں کے لیے ان سے نمٹنا اس لیے مشکل ہو گا کہ معیشت کو سنبھالنے کے لیے جو ضروری اور ہنگامی فیصلے کرنا ہیں، ان پر ہماری سیاسی قوتوں کا اختیار نہیں ہے، یہاں تک کہ ہمارے ان طاقتور حلقوں کا بھی ان پر اختیار نہیں ہے، جن کا سیاست پر اختیار ہے۔

حالات سے کس طرح نمٹنا ہے۔ اس پر کوئی متفقہ قومی لائحہ عمل ( نیشنل ایکشن پلان ) کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا لیکن نئے پلان پر سیاسی قوتوں کا’’ان پٹ‘‘ زیادہ ہو اور اس پر عمل درآمد کا اختیار بھی زیادہ ہو۔ ورنہ کورونا کی موجودہ صورت حال میں بقول بلاول بھٹو زرداری حکومتوں کو کیا کرنا ہے، اس کا فیصلہ کورونا کرے گا اور کورونا کے بعد پاکستان جیسے ملکوں کی حکومتوں کو کیا کرنا ہے ؟ اس حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ فیصلہ پھر بھی ہماری حکومتیں نہیں کر سکیں گی۔ 

عالمی سطح پر معاشی، سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا ایک غیر معمولی عمل شروع ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین