• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیض نے ماسکو میں ”لینن امن انعام“ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”امن گندم کے کھیت ہیں اور سفیدے کے درخت دلہن کا آنچل ہے اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ“ آج اس کرہٴ ارض پر ہر امن پسند انسان کی خواہش بھی یہی ہے کہ گندم کے کھیت ، سفیدے کے درخت ، دلہن کا آنچل اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ سلامت رہیں لیکن آج دنیا کے تین لاکھ معصوم بچوں کے ہاتھوں میں AK-47 ہتھیار ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں ، دنیا کے منصفوں کرہٴ ارض پر امن کے خواہوں اور انسان دوستی کے عَلم برداروں کے لئے یہ امر توجہ طلب ہے کہ اس وقت دنیا کے کم و بیش 78 ممالک میں بچوں کو جنگی معرکوں اور جنگجو گروہوں کی خطرناک جھڑپوں میں چائلڈ سولجر کے طور پر بھرتی کرکے استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ بچے جن ممالک میں جنگی اور تخریبی کارروائیوں اور دہشت گردی کے معرکوں اور منصوبوں میں استعمال ہورہے ہیں ان میں افغانستان ، برما ، سینٹرل افریقہ ری پبلک ، چاڈ ، کولمبیا ، ڈی آر کانگو ، انڈیا ، سری لنکا ، عراق ، فلپائن ، صومالیہ ، جنوبی سوڈان ، تھائی لینڈ اور یمن شامل ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً تین لاکھ کے قریب چائلڈ سولجرز مختلف ممالک اور علاقوں میں موجود ہیں۔ صرف برما میں 5000 سے زائد بچے بھرتی کئے جاچکے ہیں۔حال ہی میں پاکستان میں کوئٹہ پولیس نے بھی ایسے بوں کو حراست میں لیا ہے جو کوئٹہ کے گردو نواح میں بم نصب کرنے اور دہشت گردی کا ارتکاب کرنے کے لئے تیار کئے گئے تھے ان بچوں کی عمریں 10 سال سے 17 سال کے درمیان ہیں اور یہ تمام بچے انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں دو ہزار سے پانچ ہزار روپے کی اجرت پر بم دھماکے کرنے اور دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ ان بچوں نے تقریباً 8 جگہوں پر بم دھماکے کرنے اور دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں باغی اور غیر ریاستی مسلح گروہ ان بچوں کو دہشت گردی اور جنگی معرکوں کے لئے تو استعمال کرہی رہے ہیں اس کے علاوہ انہیں بطور قلی ، کک ، مخبر یا جاسوس جیسے مقاصد اور کاموں کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور ہر 10 میں سے 4 لڑکیاں بطور Sex Slaves کے طور پر بھی استعمال ہورہی ہیں۔برما میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں کم عمر بچوں کو جبراً بھرتی کیا گیا ہے گوکہ برما گزشتہ سال جوائن ایکشن کے معاہدہ پر دستخط کرچکا ہے۔ جس کے تحت برما 18 سال سے کم عمر بچوں کو فوری طور پر فوج سے خارج کرنے کا پابند ہے لیکن جوائن ایکشن کے معاہدہ کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہ معاہدہ برما نے محض عالمی دباؤ کو کم کرنے اور اقوام متحدہ کا سیکورٹی کونسل کے ان بلیک لسٹ ممالک کے ریکارڈ پر سے اپنا نام خارج کرنے کے لئے کیا ہے جو کم عمر بچوں کو بطور سولجر استعمال کررہے ہیں۔ بہرحال برما نے 2012ء سے اب تک 60 ایسے سولجرز کو رہائی دے دی ہے جن کی عمریں 11 سے 16 سال کے درمیان ہیں جبکہ برما کے لئے جوائن ایکشن کے معاہدہ کے تحت یہ لازم تھا کہ 14 نومبر تک تمام چائلڈ سولجرز کی شناخت اور رجسٹریشن کو سامنے لایا جاتا لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا ہے اور متعین ڈیڈ لائن کے مطابق اب تک 18 سال سے کم عمر بچوں کو رہائی نہیں ملی ہے۔یہ کم عمر فوجی بچے زیادہ تر غریب اور مفلوک الحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں یا ان میں بہت سے لاوارث بچے ہیں۔ یہ بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ انہیں یا تو نوکری کا جھوٹا وعدہ کرکے پھنسایا جاتا ہے یا وہ خود غربت اور افلاس کی زندگی سے مجبور ہوکر فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔ آرمی میں انہیں پہننے کے لئے وردی اور تھوڑی بہت رقم مل جاتی ہے۔ برما کے نچلے اور انتہائی غریب طبقے میں والدین کے لئے بچوں کی پرورش ایک مشکل مسئلہ ہے اور وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے اخراجات بھی برداشت کرنے کی شکست نہیں رکھتے۔اس لئے مختلف اقلیتی اور فوجی گروہوں کے ذریعے کم عمر بچوں کو فوج میں شامل کرنے کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اپنی کم عمری اور افلاس زدہ معاشی اور معاشرتی پس منظر کی وجہ سے یہ بچے زیادہ آسانی سے تربیتی سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لیکن ایسی فوج میں تنظیم اور نگرانی کا معقول انتظام نہ ہونے کی بدولت ان بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والا کوئی نہیں اور وہ مسلسل استحصال کا شکار ہیں۔ وہاں انہیں ناقص غذا اور غیر معیاری ماحول اور مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ انہیں انتہائی ناقص اور قلیل خوراک پر رکھ کر طویل گھنٹوں کی تربیت اور سخت مزدوری کرائی جاتی ہے اور کام کے دوران بات کرنے یا مدد مانگنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ ان کیمپوں میں بچوں کے ساتھ جسمانی تشدد اور مار پیٹ بھی عام سی بات ہے اور بیماری کی صورت میں کسی طرح کی میڈیکل لیو یا چھٹی کا حق بھی حاصل نہیں ہوتا۔ ان بچوں کو جنگی معرکوں میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے بیگار بھی لیا جاتا ہے۔ برما کے یہ چائلڈ سولجرز چاولوں کے کھیتوں میں جانوروں کی طرح کام کرتے ہیں۔ ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر بچے لکنت کا شکار بھی ہیں۔ فوج میں جبراً بھرتی کئے گئے ان بچوں میں سے اکثر انتہائی کمتری کے احساس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ان کے چہروں پر سراسیمگی اور اداسی نظر آتی ہے اور یہ بچے اپنا بچپن کھوچکے ہیں۔ (جاری ہے)
تازہ ترین