• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کی عالمی وبا نے اب تک دنیا پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں اور اس وبا کے ختم ہونے کے بعد کی دنیا کیا ہو گی؟ یہ آج دنیا کا سب سے بڑا سوال ہے۔ سوال کا پہلا حصہ یہ ہے کہ اب تک دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے ملکوں کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کے موجودہ اعداد و شمار پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ وبا کے بعد کی دنیا کیا ہو گی؟ یہ سوال کا دوسرا حصہ ہے، جس کا جواب حاصل کرنے کے لیے دنیا کے معتبر اور نامور ماہرین اقتصادیات کی پیش گوئیوں اور تجزیوں پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ اس طرح موجودہ اور بعد کی دنیا کے بارے میں جو خاکے بن رہے ہیں، وہ معاشی ہیں۔ ان کی فلسفیانہ اور سیاسی تو ضیحات کے لیے ابھی شاید کچھ وقت درکار ہو گا۔

تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چین میں کورونا کا پہلا کیس نومبر 2019ء میں سامنے آیا تھا لیکن کورونا کے عالمی معیشت پرتباہ کن اثرات کا آغاز وسط فروری 2020ء سے ہوا۔ یعنی آج کی عالمی معیشت کا موازنہ ڈھائی ماہ پہلے والی معیشت سے کیا جاتا ہے۔ کورونا کو کنٹرول کرنے کے لیے جو لاک ڈاؤن چین میں شروع ہوا، وہ سختی کے اعتبار سے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ پورے کرۂ ارض پر پھیل گیا۔ ملکوں کے اندر لاک ڈاؤن کیساتھ ساتھ سرحدیں بھی بند ہو گئیں۔ اسے عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) کی چیف اکنامسٹ گیتا گوپی ناتھ نے انسانی تاریخ کا ’’گریٹ لاک ڈاؤن ‘‘قرار دیا ہے۔

اس سے نہ صرف عالمی معیشت بلکہ قومی معیشتیں بھی انتہائی سست روی کا شکار ہوئیںجبکہ عالمی سطح پر کروڑ ہا افراد بے روزگار ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 90 کروڑ افراد اپنے روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں۔ سروس انڈسٹری اور مینو فیکچرنگ انڈسٹری بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

60 فیصد سروس انڈسٹری یا تو بند ہو چکی ہے یا اس نے اپنی سروسز محدود کر دی ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن، رئیل اسٹیٹ، ٹریول اور ٹورازم کے شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ آن لائن سروسز میں اگرچہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے سروس انڈسٹری کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔

کورونا کے بعد بھی سروس انڈسٹری کی فوری بحالی کے امکانات نہیں کیونکہ صارفین پہلے کی طرح اخراجات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ مینو فیکچرنگ انڈسٹری بھی زبردست بحران کا شکار ہے۔ امریکا سے یورپ اور ایشیا تک کارخانے یا تو عارضی طور پر بند ہو گئے ہیں یا انہوں نے طلب نہ ہونے کی وجہ سے اپنی پیداوار کم کر دی ہے۔ اس انڈسٹری کے پہلے والی پوزیشن پر آنے کے امکانات بھی بہت محدود ہو گئے ہیں کیونکہ عالمی تجارت کا حجم اس سال بہت کم ہو جائے گا۔ یہ کمی 12.9 فیصد سے 31.9 فیصد ہو سکتی ہے۔ اس کا انحصار عالمی معیشت پر ہے۔ تخمینہ لگایا جا رہا ہے کہ 2020ء میں گلوبل اکانومی 3 فیصد تک سکڑ جائے گی۔ کورونا کی وجہ سے 2020 اور 2021ء میں گلوبل جی ڈی پی کو 9ہزار ارب ( 9 ٹریلین ) ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ تو معیشت کی موجودہ صورتحال ہے۔ عالمی معیشت اور سیاست پر ’’تیل‘‘ کے اثرات بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔

اب کورونا کے بعد کیا ہو گا؟ فارن پالیسی نامی میگزین نے اس حوالے سے کچھ بڑے اور نامور ماہراقتصادیات کی پیش گوئیوں اور تجزیوں سے کورونا کے بعد کی دنیا کا نقشہ بنانے کی کوشش کی ہے۔

یہاں اس کا اجمالی جائزہ پیش ہے۔ نوبیل انعام یافتہ ماہر معیشت اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر آف اکنامکس جوزف ای اسٹگلی کہتے ہیں کہ گلوبلائزیشن ( عالمگیریت ) میں قومی سرحدوں کی جو اہمیت کم ہو گئی تھی۔ کورونا وائرس نے اسے دوبارہ اجاگر کیا ہے۔ کورونا وائرس نے سختی سے بتا دیا ہے کہ سیاسی اور معاشی اکائی آج بھی قومی ریاست ہے۔ہمیں عالمگیریت اور خود انحصاری کے درمیان بہتر توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

ییل ( Yale ) یونیورسٹی کے نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات رابرٹ جے شیلر ( Robert J Shiller ) کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس نے جنگ جیسے حالات پیدا کر دیئے ہیں، جن میں تبدیلی کا دروازہ کھل گیا ہے۔ اچانک بنیادی تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ آئی ایم ایف کی چیف اکنامسٹ گیتا گوپی ناتھ کہتی ہیں کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران بین الاقوامی نقل و حرکت میں جو اضافہ ہوا تھا، وہ اب بالکل محدود ہو جائے گی۔ عوام کے ساتھ ساتھ گلوبل نیٹ ورکس کی حامل فرمز خود بھی عالمگیریت سے الگ ہوں گی اور سیاسی قیادت یا پالیسی ساز سرحدوں پر مزید سختیاں کریں گے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آف انٹرنیشنل فنانس کارمین ایم رین ہارٹ کی رائے یہ ہے کہ کورونا وائرس نے عالمگیریت کے تابوت میں ایک اور کیل ٹھونک دی ہے۔ اقتصادی کساد بازاری مزید گہری اور طویل ہو گی اور 1930ء کے عشرے والے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔

کارنیل یونیورسٹی کے پروفیسر ایٹ ٹریڈ پالیسی ایسوار پر ساد ( Eswar Prasad ) آگے کے حالات اس طرح دیکھ رہے ہیں کہ اب ہر ملک کا مرکزی بینک نئے کردار کے ساتھ سامنے آئے گا اور وہ اقتصادی اور مالیاتی بحران کے آگے فرسٹ ڈیفنس لائن ہو گا۔ کولمبیا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ایڈم ٹوز متنبہ کر رہے ہیں کہ معیشت کبھی معمول کے مطابق بحال نہیں ہو گی۔

موجودہ معروضی حالات اور مستقبل کے خاکے سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ ماضی والی عالمگیریت ختم ہو رہی ہے۔ غریب اور ترقی پذیر ملکوں کیلئےعالمی شکنجوں سے نکلنے کا موقع ہے لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھانے سے پہلے حالات بہت مشکل ہیں۔

صرف ان ملکوں کے لیے بہت سے نئے امکانات ہیں، جہاں اس وقت پالیسی ساز اور فیصلہ ساز قیادت کورونا سے پہلے کی عالمگیریت اور سامراجیت کے کارندوں یا گماشتوں پر مشتمل نہیں ہے۔ بصورت دیگر ایسے ملکوں کے لیے حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں اور عالمی سیاسی اور معاشی اتار چڑھاؤ اس ابتری میں اضافہ کر سکتا ہے۔

تازہ ترین