• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس مرتبہ محنت کشوں کا عالمی دن یکم مئی ایسے حالات میں منایا گیا، جب دنیا بھر میں کروڑوں مزدور اپنی نوکریوں اور اپنے روزگار سے محروم ہو گئے ہیں۔ 1886میں امریکا کے شہر شکاگو میں پولیس کے ہاتھوں مزدوروں کے جسمانی قتلِ عام کے بعد دنیا بھر میں محنت کشوں کے حقوق کی عالمی تحریک مسلسل مضبوط ہوتی گئی اور اِس نے بہت حد تک محنت کشوں کے معاشی قتلِ عام کے خلاف زیادہ سے زیادہ مزاحمت کی۔ کورونا کی عالمی وبا نے اگرچہ لاکھوں لوگوں کو بیمار اور ہلاک کیا ہے لیکن کروڑوں محنت کشوں کا معاشی قتلِ عام کیا ہے۔ 1886کے بعد 134برسوں میں محنت کشوں کے لیے ایسے بدتر حالات کبھی پیدا نہیں ہوئے، جب مزدوروں سے دنیا کے ہر ملک میں بڑے پیمانے پر روزگار بھی چھن گیا اور اس پر کہیں سے بڑی سیاسی مزاحمت بھی نہیں ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے کورونا وائرس کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کا حل یہ نکالا ہے کہ ہر وہ شخص بےروزگار ہو جائے یا کر دیا جائے، جو پیداواری عمل کا لازمی حصہ ہے یعنی کام کرتا ہے اور اپنی بقا کے لیے اپنی محنت بیچتا ہے۔ اس کے برعکس ہر وہ شخص ان حالات میں یا تو پریشان نہیں ہے یا کم پریشان ہے، جس نے مزدوروں کی محنت سے حاصل ہونے والے سرمائے کو اپنی دولت اور اثاثوں میں تبدیل کر لیا ہے۔ ان کی پریشانی صرف یہ ہے کہ ان کی دولت میں مسلسل اضافے کا عمل رک گیا ہے یا جمع شدہ دولت خرچ ہو رہی ہے چونکہ دنیا بھر کی حکومتوں میں محنت کشوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے موجود قوانین کا اطلاق بھی کمزور ہے۔ اس لیے موجودہ صورتحال کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ اپنی محنت بیچ کر زندہ رہنے والا اگر بےروزگار ہو جائے تو کوئی بات نہیں۔ مخیر حضرات، فلاحی ادارے اور حکومتوں کے ریلیف پیکیجز کے ذریعے ان بےروزگاروں کا خیال رکھیں گے۔

یہ جو حل تلاش کیا گیا ہے، کیا یہ پائیدار اور اطمینان بخش حل ہے؟ دنیا میں اب تک ہونے والے تجربات سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں۔ خیراتی اور فلاحی اداروں کے ساتھ ساتھ حکومتیں بھی بےروزگار مرد و خواتین اور خاندانوں کو سنبھالنے میں ناکام نظر آ رہی ہیں۔ بھوک اور افلاس لوگوں کو وہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے، جو وہ گزشتہ دو تین عشروں سے محنت کشوں کی عالمی تحریک کمزور ہونے اور معروضی سیاست کے دیگر مسائل کی وجہ سے نہیں سوچ رہے تھے۔ ان حالات میں سب سے خطرناک عمل یہ ہے کہ بےروزگاری اور بھوک کا شکار لوگ مایوسی کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں کیونکہ بتایا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد بھی معیشت کو واپس پہلے والی پوزیشن میں آنے کے لیے کئی سال لگ جائیں گے۔ اگر معیشت بحال بھی ہوئی تو پہلے کی طرح روزگار بحال نہیں ہوگا۔

کہا جاتا ہے کہ جب معاشی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی، ملیں اور کارخانے بند ہو جائیں گے، دکانیں اور بازار کھولنے پر پابندی ہوگی تو مزدوروں کو تنخواہیں یا اجرت کیسے دی جائے گی۔ ان فارمل سیکٹرز میں کام کرنے والے محنت کشوں اور مزدوروں کو تو یہ جواز بھی پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اسے اپنا مقدر تصور کر رہے ہیں۔ ریاستیں اور حکومتیں بھی ریلیف پیکیجز دینے کے بعد یہ کہہ رہی ہیں کہ بس اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر سکتی ہیں کیونکہ ان کی مجبوری یہ ہے کہ مالی وسائل کم ہیں۔ صرف چین دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں دنیا کی سب سے زیادہ انڈسٹریز اور کاروبار بند ہوئے لیکن لوگوں کو مکمل طور پر سنبھالا گیا اور انہیں معاشی عدم تحفظ کا شکار نہیں ہونے دیا گیا۔ باقی دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے، جہاں لوگ معاشی عدم تحفظ، خوف اور بےیقینی کا شکار نہ ہوں۔ باقی ساری دنیا میں کروڑہا بےروزگاروں کو سنبھالنے میں مجبوریوں کا اظہار کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو دو آپشن دے دیے گئے ہیں کہ یا تو وہ بھوکے مریں یا کورونا سے مریں۔ ریاستیں اور ان کی دولت مند طبقات کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن دنیا میں تقریباً 90کروڑ بےروزگاروں کی مجبوریاں اپنی جگہ۔

اگر کسی ایک گروہ یا طبقے کی مجبوری برحق ہے تو پھر دوسرے گروہ یا طبقے کی مجبوری بھی برحق ہے۔ عالمی اور ملکی سیاست میں پہلے جو شعوری ٹکراؤ یا تصادم تھا، اب وہ مجبوریوں کا لاشعوری ٹکراؤ یا تصادم بن گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ معیشت اگر کورونا سے پہلے والے حالات میں بحال بھی ہو جائے، سیاست پہلے والے حالات میں بحال نہیں ہو گی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی، علاقائی اور ملکی سیاست میں جو تضادات دب گئے تھے، وہ اب نمایاں ہوں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ تضادات سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ بلاکس کے مابین تضادات کی طرح نہیں ہوں گے لیکن عالمگیریت میں بالادستی حاصل کرنے کے لیے چین اور اس کے اتحادیوں کی امریکا، یورپ اور ان کے اتحادیوں سے تجارتی، سیاسی اور کسی حد تک فوجی لڑائیوں میں شدت آئے گی۔ کروڑ ہا انسانوں کی بھوک اور غربت سیاست کا رنگ بدل دے گی کیونکہ مجبوری برحق ہے۔

تازہ ترین