• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں انتخابی موسم بہتر ہوتا نظر آ رہا ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کچھ پابندیوں میں نرمی کر کے انتخابی عمل کو جاری رکھنے کی کوشش کی جائے گی تاہم امن و امان کے حوالے سے کوئی بھی بڑے سیاسی قائدین یا عام سیاسی شخصیات کے جلسوں یا اجتماعات میں سو فیصد سکیورٹی کی گارنٹی دینے پر تیار نظر نہیں آ رہا۔ ہر کوئی یہ سب کام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے یہ پہلے الیکشن ہوں گے جو دہشت گردی اور خوف کے سائے میں منعقد ہو رہے ہیں، جس کے بارے میں ملکی و غیر ملکی مبصرین ابھی سے اسے ”خونی الیکشن“ قرار دے رہے ہیں، حالانکہ یہ بھی ممکن ہے کہ الیکشن شاید انتہائی اچھے ماحول میں ہو جائیں، اس لئے کہ ملک میں امن ہو گا اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہو گی تو انتخابات کے بعد انتقال اقتدار کا مرحلہ بھی ٹھیک طریقے سے طے ہو گا۔
اگر ایسا نہ ہوا تو تین ماہ کی ”نوکری“ کرنے والے موجودہ تمام حکمران تو شاید اپنے مقررہ وقت پر چلے جائیں گے مگر اس کے بعد قومی حکومت کے نام پر ایک ایسا ڈھانچہ قوم کے سامنے آ جائے جو 3 ماہ تو نہیں 30 ماہ یا 50 ماہ تک اپنا کام کرتا رہے۔ اس کے بعد ملک میں موجودہ سیاستدانوں کی اکثریت الیکشن وغیرہ میں دلچسپی لینا ہی چھوڑ دے۔ ایسے حالات پاکستان میں ہوں یا دنیا کا کوئی اور ملک ہر جگہ بزنس کمیونٹی کو یہ ماحول پسند ہوتا ہے۔ انہیں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو روزانہ، ماہانہ اور سالانہ مالی سپورٹ کرنے کے مسئلے سے نجات مل جاتی ہے اور چند افراد کے ساتھ انہیں ”ڈیل“ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے بھی انہیں اپنی باتیں منوانے میں آسانی نظر آتی ہے۔ اس وقت بھی پاکستان کی بزنس کمیونٹی کی اکثریت بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر پاکستان کے حالات، انتخابی سرگرمیوں اور لاتعداد معاشی مسائل کے علاوہ کرپشن، قومی اداروں میں بد انتظامی، توانائی کے بحران، مختلف اشیائے ضرورت کی گرانی سمیت کئی مشکلات کے حل کے حوالے سے پریشان ہے۔ حالانکہ اشیائے ضرورت کی گرانی میں تو انہیں کسی نہ کسی صورت میں اپنی مصنوعات کی فروخت میں فائدہ تو ہوتا ہی ہے جو ٹیکس دستاویزات کا حصہ بھی نہیں بنتا۔
ایسے حالات میں فرشتے نہیں تحفے سامنے آتے ہیں، جو بزنس کمیونٹی ہو یا عام افراد انہیں قبول کرنے پڑتے ہیں، اس لئے دعا کرنی چاہئے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات کی بہتری کے لئے جامع منصوبہ بندی کی جائے یہ چیلنج موجودہ نگران حکمرانوں کے لئے بھی ہے اور مستقبل قریب میں اقتدار سنبھالنے والوں کے لئے بھی ہے۔ کہ وہ لاتعداد معاشی اور سماجی مسائل سے دوچار قوم کو مایوسی سے نکال کر روشنی کی طرف لے جا سکتے ہیں کیونکہ اس وقت بنیادی مسئلہ اکنامک مینجمنٹ کا ہے جس کے لئے بہترین اتھارٹی ماہرین کا ورکنگ گروپ بنا کر قلیل المدت اور طویل المدت کا پلان بنایا جا سکتا ہے۔ جس سے ملک کو فوری طور پر کرپشن اور توانائی کے بحران سے نجات دلانے کی راہ ہموار ہو۔ اس کے علاوہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لئے تمام قوانین تمام با اثر افراد پر یکساں سطح پر لاگو ہوں۔ جس سے عام آدمی مطمئن ہو سکے کہ ملک کو لوٹنے والوں کا احتساب ہو سکتا ہے۔ اس وقت تو اس حوالے سے اگرچہ کچھ حلقے مطمئن نظر آ رہے ہیں تو زیادہ تعداد غیر مطمئن بھی نظر آ رہی ہے اور اگر الیکشن کمیشن نے انتخابات میں حصہ لینے کے قوانین میں کچھ نرمی کر دی تو اس سے جہاں پاکستان کے سیاسی نظام پر عوام کا اعتماد ختم ہو گا۔ وہاں الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں پر بھی عوام کے اعتماد اور توقعات میں کمی آئے گی۔ ایسی صورت میں اگر اداروں پر اعتماد مجروح ہوا تو اس سے سیاسی نظام کے تسلسل میں کئی خطرات اور رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔ اس سے معاشی سرگرمیوں پر شاید مثبت کی بجائے منفی اثرات بڑھ جائیں اس لئے ملک میں انتخابات کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد میں نرمی کی سوچ کی حوصلہ شکنی کی جائے اگر ایسا ہو گیا تو رواں مالی سال کے بجٹ کے حالات جون کے آخر میں کافی بہتر ہو جائیں گے۔ اس لئے کہ جب تمام انتخابی امیدوار بلا امتیاز تمام سرکاری اداروں کے واجبات اور ٹیکس وغیرہ ادا کر دیں گے تو اس سے کئی ارب روپے کے اضافی وسائل دستیاب ہو سکیں گے۔ جبکہ دوسری طرف ملک میں دستاویزی معیشت (ڈاکومنٹیشن آف اکانومی) کے تصور کو آگے بڑھانے میں کافی مدد مل سکتی ہے لیکن اس وقت تک صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کے منشور میں اس حوالے سے دعوے زیادہ اور حقیقی عمل کا طریقہ کار اپنانے کا کوئی واضح ذکر نہیں ہے۔ اگر اس کے باوجود عوام نے محض روایتی انداز میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تو پھر نتائج کے ذمہ دار بھی وہ خود ہوں گے ۔
تازہ ترین