• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شوگر اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ پبلک کر دی گئی ہے، جس میں چشم کشا انکشافات کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کی تفصیلات میڈیا میں آ چکی ہیں، جن کے مطابق شوگر ملز مالکان اور اس کاروبار سے منسلک دیگر افراد بشمول بیورو کریٹس سالانہ 100سے 150 ارب روپے اضافی اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں، جو وہ گنے کی خریداری سے لے کر چینی کی پیداوار اور فروخت تک مختلف ہتھکنڈوں سے حاصل کرتے ہیں۔ کسی ایک سیکٹر کے کاروبار کے بارے میں ہر پہلو سے تحقیقات کرنے والا اس طرح کا کمیشن شاید پہلی بار تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کی تحقیقاتی رپورٹ اور سفارشات کو جمہور کے سامنے افشا کرنے کا اپنی نوعیت کا اہم اقدام بھی شاید پہلی دفعہ ہوا ہے کیونکہ اس کے توقع سے زیادہ سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان سیاسی اثرات کا درست اندازہ لگانا آج کی صورتحال میں بہت ضروری ہے۔

کمیشن کی رپورٹ سے پہلی بات یہ سامنے آئی ہے کہ اس اسکینڈل میں سیاستدان ملوث ہیں اور وہ ملک کے بااثر ترین سیاستدان ہیں۔ ان میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت کے انتہائی قریبی لوگ بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ سے دنیا میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پاکستان میں سیاست دولت کمانے کے لیے کی جاتی ہے اور دولت کے بل بوتے پر پھر سیاست کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بعض حلقوں کے اس تاثر کو بھی تقویت ملی ہے کہ سیاستدان کرپٹ ہیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ان حلقوں کی جانب سے مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ ملک میں سیاستدانوں کی سویلین حکومت نہیں ہونی چاہئے۔ شوگر کمیشن کی رپورٹ سے یہ حلقے اپنے اس تاثر کے حق میں دلائل تلاش کریں گے۔ موجودہ صورتحال میں اس تاثر کو تقویت ملنا پاکستان میں مجموعی طور پر جمہوری اور سیاسی قوتوں کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ کورونا کی عالمی وبا کے باعث پاکستان میں نہ صرف سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں بلکہ اسمبلیاں بھی اپنے اجلاس منعقد نہیں کر رہی ہیں اور جمہوری حکومت میں اپنا وہ کردار ادا نہیں کر رہی ہیں، جو انہیں کرنا چاہئے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ شوگر کمیشن کی رپورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے انتہائی اہم رہنما جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے اہم رہنما چوہدری مونس الٰہی کا نام بھی شامل ہے۔ ان کے بارے میں کمیشن کی رپورٹ واضح طور پر یہ بتا رہی ہے کہ انہوں نے چینی کے بحران کے دوران بہت اہم کردار ادا کیا اور پیسہ کمایا۔ رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں، یہ ایک الگ بات ہے لیکن رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور چوہدری برادران کا تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں وہ کردار نہیں رہے گا، جو پہلے تھا کیونکہ حکومت میں ان کی سرگرم شراکت پر بعض حلقوں کو بھی اعتراض ہوگا۔ ان کے وزیراعظم عمران خان سے بھی پہلے جیسے تعلقات شاید نہیں رہیں گے۔ جہانگیر ترین کا تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں بنانے میں بہت اہم کردار ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں ارکان کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کی تحریک انصاف کو حمایت نہ رہے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مستقبل قریب کے حالات کا انحصار اس بات پر ہے کہ شوگر کمیشن کی سفارشات پر کس طرح عمل درآمد کیا جاتا ہے اور چینی بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے۔

مختلف حلقوں کے ساتھ ساتھ میڈیا میں بھی اس امر کی تعریف کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا اور رپورٹ پبلک کر دی۔ اگر کمیشن کی رپورٹ پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے تو اس تاثر کو قائم رکھنا مشکل ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان یا ان کی حکومت کوئی دباؤ قبول نہیں کرتے ہیں۔ اب ان پر سیاسی اور اخلاقی دباؤ یہ ہے کہ وہ نیب اور ایف آئی اے کو مقدمات ارسال کریں۔ اس سیاسی اور اخلاقی دباؤ میں وزیراعظم کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنی حکومت کے لیے مشکلات پیدا نہ ہونے دیں اور احتساب کا عمل بھی جاری رکھیں۔ ان پر یہ بھی دباؤ رہے گا کہ احتساب کا یہ عمل صرف شوگر ملز مالکان سیاستدانوں تک محدود نہ رہے بلکہ اس کا دائرہ کار وسیع کیا جائے کیونکہ احتساب شوگر ’’مافیا‘‘ تک محدود رہا تو بھی اسے سیاسی رنگ دیا جائے گا۔ اس ملک میں اور بھی بڑے ’’مافیاز‘‘ اور ’’کارٹیلز‘‘ ہیں، جن کو توڑنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں دواؤں سے لے کر آٹے تک ہر کاروبار اسی طرز پر ہوتا ہے۔ سریا، سیمنٹ، کیمیکلز اور دیگر سیکٹرز کے ہر کاروبار میں یہی کچھ ہو رہا ہے، جس کی نشاندہی شوگر کمیشن کی رپورٹ میں کی گئی ہے۔

وزیراعظم عمرا ن خان کی سیاست کا بنیادی نظریہ ہی یہ ہے کہ سیاست میں کرپشن ہے اور وہ کرپٹ سیاست دانوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اب انہیں اپنے نظریہ کے مطابق سیاست سے کرپشن کے خاتمے کا دباؤ رہے گا۔ اس کے سیاسی اثرات کیا ہوتے ہیں، وہ کچھ عرصے میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ اگر غیر سیاسی قوتیں اس صورتحال کا فائدہ نہ بھی اٹھائیں تو بھی ان حالات میں سیاستدانوں کے احتساب کے ساتھ ساتھ موجودہ سیاسی عمل کو جاری رکھنا یقیناً ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ شوگر کمیشن رپورٹ ایک سیاسی پینڈورا باکس ثابت ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین