• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا کہ حکمران سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں اور منتخب ارکان کے لہجے تبدیل ہوگئے ہیں اور وہ اپنی حکومت سے نہ صرف شکایات کر رہے ہیں بلکہ منتخب ایوانوں میں حکومت کی ناکامیوں کا بھی اعتراف کر رہے ہیں۔ اسے بھی محض ’’جمہوریت کا حسن‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کی خبریں تواتر کے ساتھ باہر آرہی ہیں۔ ان خبروں کی تردید بھی نہیں ہو رہی اور ان خبروں پر خود تحریک انصاف والے تبصرے کرکے قیاس آرائیوں کو مزید تقویت بھی پہنچا رہے ہیں۔ جی ہاں! حادثہ ایک دن میںنہیں ہوتا۔ سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں بجٹ اجلاسوں کے دوران تحریک انصاف کے بعض منتخب ارکان نے اپنی تقاریر میں جو باتیں کیں ‘ وہ بالکل غیر متوقع تھیں۔ وہ کھل کر کہہ رہے تھے کہ تحریک انصاف کی اب تک کی کارکردگی کی وجہ سے وہ اپنے حلقوں میں نہیں جا سکتے ہیں اور عوام کا سامنا نہیں کر سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب اسمبلی میں حکمران جماعت کا کوئی رکن اپنی حکومت پر تنقید کرتا ہے تو سرکاری بنچوں کے دیگر ارکان کوئی بھی دوسرا معاملہ اٹھا کر یا کوئی بھی طریقہ اختیار کرکے اس رکن کی تقریر میں یا تو خلل پیدا کرتے ہیں یا اس کی باتوں کا رُخ موڑ نے کے لیے کوئی حربہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر وہ رکن پھر بھی تنقید یا ناراضی کا اظہار کر دے تو اس کی تقریر کے بعد جس سرکاری رکن کی تقریر کی باتیںہوئی ہ ، وہ ناراض رکن کی باتوں کا اثر زائل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس صورت حال میں کچھ حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا تحریک انصاف کی حکومت گرنے یا ختم ہونے جا رہی ہے؟ میرے خیال میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد کسی منتخب حکومت کو گرانا یا ختم کرنا ماضی کی طرح ممکن نہیں رہا۔ اب آئینی طور پر صرف دو راستے ہیں کہ وزیر اعظم خود اسمبلی تحلیل کردیں اور نئے انتخابات کی تاریخ دے دیں یا پھر ایوان کے اندر تبدیلی لائی جائے۔ وزیراعظم عمران خان اگرچہ 18ویں آئینی ترمیم کے بہت بڑے مخالف ہیں لیکن یہ ترمیم اس وقت ان کی حکومت کے لیے ڈھال بنی ہوئی ہے۔ اگر یہ ترمیم نہ ہوتی تو ماضی میں جمہوری حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کے لیے جس طرح کے جواز گھڑے جاتے تھے، اس سے کہیں زیادہ آج اسی طرح کے جواز موجود ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کوشش کریں گے کہ حکومت کے گرنے یا تبدیلی کے لیے آئینی راستے موجود ہیں‘ ان کے لیے حالات پیدا نہ ہوں لیکن اس کوشش میں بہت سے معاملات ان کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہیں مثلاً ان کی اتحادی جماعتوں کے معاملات ان کے ہاتھ میں نہیں اور ان کی اپنی جماعت تحریک انصاف میں انتخابات کے موقع پر شامل ہونے والے بعض رہنماؤں کے معاملات بھی ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ کچھ ان کے پرانے ساتھیوں سے بھی بوجوہ ان کے پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے اور اسمبلیوں میں تو نمبر گیم چلتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ آخر تک اگر ان کی پارٹی کے لوگ کھڑے رہ سکتے ہیں تو وہ کراچی والے ہیں،جو خود دو تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کراچی کی سیاست بھی خود خان صاحب کے ہاتھ میں نہیں۔ کراچی والے گروہوں کی اپنی سیاسی جڑیں نہیں ہیں۔ وہ سیاسی بحران کو کیا سنبھالیں گے۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف یا اس کی اتحادی جماعتوں کے جن ارکان نے حکومت کی کارکردگی پر تنقید کی‘ ان میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں‘ جو عام انتخابات سے عین قبل تحریک انصاف کا حصہ بنے، اس کے لیے جہانگیر ترین نے اہم کردار ادا کیا۔

عام انتخابات سے قبل بلوچستان میں راتوں رات بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی گئی اور اسے پاکستان تحریک انصاف کا اتحادی بنایا گیا۔ اب بی اے پی کے ارکان بھی تحریک انصاف کی حکومت اور اپنی صوبائی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ بی اے پی کی تشکیل اور اس کے تحریک انصاف سے اتحاد کے معاملات بھی خان صاحب کے ہاتھ میں نہیں تھے اور نہ اب ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کی ایک اور اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) بھی بلوچستان کی سیاست میں طویل عرصے سے اپنی بقا کے لیے ’’ہاب ناب‘‘ (Hobnob) کر رہی ہے۔ اس کے معاملات سے بھی خان صاحب کا کوئی لینا دینا نہیں۔ تحریک انصاف کے لیے جنوبی پنجاب اور بلوچستان والے اتحادی کراچی والے اتحادیوں سے زیادہ مشکل صورتحال پیدا کریں گے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح سارے معاملات عام انتخابات 2018 ء کے موقع پر ٹھیک کر دیے گئے تھے۔ کیا اب اسی طرح ٹھیک کر دیئے جائیں گے؟ ۔ تحریک انصاف کے کچھ حلقے یہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے سیاسی قد کاٹھ کا کوئی دوسرا لیڈر نہیں ہے۔ تحریک انصاف ملک کی معیشت کو سنبھال رہی ہے اور وہ کرپشن کا خاتمہ کر رہی ہے۔ جو لوگ حکومت کو ناکام قرار دے رہے ہیں، وہ غلط ہیں۔ ان حلقوں کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کیا وہ حلقے بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں، جن کے ہاتھ میں معاملات ہیں؟ کیا 2018ء سے پہلے والی صورتحال ہے؟ اور کیا دیگر سیاسی قوتیں مضبوط نہیں ہو رہی ہیں، جنہیں 2018ء کے عام انتخابات میں پیچھے دھکیلا گیا تھا؟ یہ سوالات بھی آج معروضی طور پر موجود ہیں۔ ان کے حتمی جوابات کے سامنے آنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

تازہ ترین