• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”چائلڈ گرومنگ“ اور سیکس سکینڈلز اب ہماری کمیونٹی کے لئے وہ الفاظ نہیں رہے جن کے استعمال سے شرم و حیاء کا پہلو ٹپک پڑے اور اس موضوع پر بات چیت روک دی جائے۔ ہماری برٹش مارکہ نوجوان نسل نے اس معاشرتی برائی کی بنیاد پر برطانیہ بھر میں پاکستانی و مسلم کمیونٹی کی خوب بدنامی کی اور یہ موذی ”بیماری بریڈفورڈ، لیڈز، راچڈیل، اولڈہم، برمنگھم سمیت آکسفورڈ جیسے شہر کو بھی لپیٹ میں لے چکی ہے یہ شہر جو دنیا بھر میں ”تعلیم“ کے شعبہ میں تاریکی حیثیت کا حامل ہے ان دنوں ہمارے ”سپوتوں“ کی اعلی صلاحیتوں کی وجہ سے بل فینچ آپریشن“ کے تعارف کے طور پر جانا اور پہچانا جا رہا ہے۔ مقام افسوس کہ اس شہر میں جب سے یہ سکینڈل سامنے آیا ہے اور عدالتی کارروائی اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے ہمارے دینی اور دنیاوی رہنماوٴں نے اس کارروائی کی سرگوشیوں میں تو مذمت کی ہے لیکن عملاً حسب معمول اس مسئلہ کو بھی کارپٹ کے نیچے دھکیل دیا گیا ہے۔ کسی بھی ایسے اقدام پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی جس میں مقامی کمیونٹی کو آگاہ کیا جائے کہ ہم اس معاشرتی برائی کے عملاً ناصرف خلاف ہیں بلکہ اس کے خاتمے کے لئے ”جہاد“ بھی کریں گے۔ اس کے برعکس ”وائس آف جسٹس یوکے“ نامی تنظیم جو مختلف معاشرتی مسائل پر انصاف کے حصول کی جدوجہد میں سرگرم رہتی ہے نے اس اہم معاشرتی مسئلہ پر آواز اٹھائی ہے۔ہفتے کے روزاس اہم موضوع پر مقامی چرچ میں ایک وزہ سیمینار کا اہتمام کیا گیا اور امید کی جارہی ہے اس اہم سیمینار میں پاکستان مارکہ کوئی بھی دینی، سیاسی یا سماجی رہنما بوجوہ مصروفیت شریک نہ ہوسکے گا بلکہ اس بارے میں انہیں معلومات بھی حاصل نہ ہوں گی۔ بحرحال روزنامہ جنگ ان تمام کو یہ معلومات فراہم کرنے اور آگاہی دینے کا سبب بن رہا ہے جس میں کئی ایک ممبران پارلیمنٹ، پالیسی ساز، پولیس افسران اور نفسیات سے متعلقہ ڈاکٹرز اس اہم موضوع کے بنیادی نقاط اور اس کے حل کے لئے اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے کمیونٹی نمائندے اس تنظیم سے مل کر ایسے ہی سیمینار کا اہتمام ہم ”پاکستانیوں“ ”مسلمانوں“ کے لئے اپنے کسی کمیونٹی سنٹر یا مسجد میں ہی کردیں تاکہ اس بارے میں معلومات و خدشات ان لوگوں تک پہنچ سکیں جن کودراصل اس کی ضرورت ہے۔ اس اہم ”جہاد“ میں جس کی بنیاد انسانیت کی بہتری و تحفظ ہے اس میں عملاً شریک ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر طبقات کو ان مسائل اور شکایات سے بھی آگاہ کرسکیں جن کی وجہ سے یہ بدنام زمانہ مسائل و مشکلات جنم لے رہے ہیں اوران کو بتایا جاسکے کہ ہمارے نوجوانوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کے لئے اعلی تعلیم کے حصول اور اچھی ملازمتوں کے حصول کے لئے مدد کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ یہ سڑکوں پر ”آوارگی“ کی بجائے مثبت اور تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لے کر معاشرے کی بہتری کا حصہ بن سکیں۔
تازہ ترین