• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی معیشت جو موجودہ دورِ حکومت کے آغاز ہی سے بیشتر حوالوں سے انحطاط کا شکار رہی، پچھلے چھ ماہ کے دوران کورونا کی عالمی وبا اور ملک کے اندر اور باہر ہونے والا لاک ڈاؤن اُسے بالکل ہی زمیں بوس کرنے کا باعث بن گیا۔ اِن حالات میں معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی خاطر غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت محتاجِ بیان نہیں۔ وفاقی حکومت نے اسی صورتحال کے پیشِ نظر اپریل کے اوائل میں تعمیراتی شعبے کیلئے ایک خصوصی پیکیج متعارف کرانے کا عندیہ دیا تھا جس کا باقاعدہ اعلان وزیراعظم نے گزشتہ روز اس مقصد کیلئے تشکیل دی گئی قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد اپنے خطاب میں کیا۔ ہاؤسنگ و تعمیرات کے شعبے کی ترقی کیلئے خصوصی سہولتوں کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کیلئے تیس ارب روپے کی سبسڈی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے تحت پہلے ایک لاکھ گھروں کی تعمیر پر فی گھر تین لاکھ روپے سبسڈی دی جائے گی جبکہ قرضے کی صورت میں مارک اپ کی شرح پانچ مرلہ مکان کے لیے پانچ فیصد اور دس مرلہ مکان کے لیے سات فیصد ہوگی، مارک اپ کی باقی رقم پر حکومت کی جانب سے سبسڈی دی جائے گی اور گھر کی خریداری پر ذرائع آمدن بھی نہیں پوچھے جائیں گے۔ تعمیرات کی صنعت سے وابستہ افراد کو ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کی پُرزور ترغیب دیتے ہوئے وزیراعظم نے واضح کیا کہ یہ مہلت رواں سال اکتیس دسمبر تک کیلئے ہے کیونکہ کورونا کے پیش نظر عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں اختتام سال تک چھوٹ دی گئی ہے۔ مکانوں کی تعمیر کیلئے دنیا کے متعدد ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں بینکوں کی جانب سے قرضے دیے جانے کا تقابل پاکستان سے کرتے ہوئے وزیراعظم نے واضح کیا کہ ہمارے ہاں یہ شرح محض اعشاریہ دو فیصد ہے جبکہ دنیا کے اکثر ملکوں میں بینک سب سے زیادہ قرضے تعمیرات اور گھر بنانے ہی کیلئے دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ اہم انکشاف بھی کیا کہ حکومت نے بینکوں کو آمادہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے پورٹ فولیو کا پانچ فیصد تعمیرات کیلئے مختص کریںجس کے نتیجے میں ہاؤسنگ و تعمیرات کیلئے 330ارب روپے کی رقم فراہم ہوسکے گی۔ یہ توقع بےمحل نہیں کہ بینکوں کی قرضہ پالیسی میں یہ تبدیلی تعمیراتی سرگرمیوں میں نئی روح پھونکنے کا باعث بنے گی، اس کے نتیجے میں تعمیرات سے وابستہ درجنوں کاروبار فعال ہوجائیں گے اور روزگار کے نئے مواقع بڑی تعداد میں پیدا ہوں گے۔ تاہم ان خوش کن نتائج کیلئے تمام ذمہ دارانِ حکومت کا چوکس و بیدار اور پوری سرکاری مشینری کا متحرک و مستعد ہونا شرطِ اول ہے۔ وزیراعظم کے خطاب سے عیاں ہے کہ انہوں نے بھی بالآخر اس ضرورت کو پوری طرح محسوس کر لیا ہے چنانچہ اس موقع پر انہوں نے اپنی کابینہ کے اراکین سمیت اعلیٰ بیورو کریسی پر واضح کردیاکہ اب بریفنگ بریفنگ کھیلنے کا سلسلہ ختم کیا جائے اور کارکردگی دکھائی جائے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جو کارکردگی دکھائے گا وہ ان کی ٹیم میں رہے گا ورنہ گھر جائے گا‘ وفاقی و صوبائی وزیروں‘ سیکریٹریوں اور اداروں کے سربراہوں کوان کے کام کی بنیاد پر جانچا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوے نہیں عملی کام ہی کسی بھی حکومت کی اہلیت کا اصل پیمانہ ہوتے ہیں۔ عوام نے تحریک انصاف کے جن بلند بانگ دعووں اور وعدوں پر اسے ووٹ دیے تھے، دو سال سے وہ اس سمت میں پیش رفت کا انتظار کررہے ہیں اور ایسا نہ ہونے کی وجہ سے ان میں مایوسی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کم از کم اب پوری تندہی سے ہر شعبے میں بہترین کارکردگی کا ثبوت دیا جائے اور وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جو کچھ کہا ہے اسے عملی جامہ پہناکر دکھائیں‘ بصورت دیگر لوگوں کے ردعمل کا کسی منفی شکل میں ظاہر ہونا بعید از امکان نہیں۔

تازہ ترین