• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بونے اور کوتاہ قد لوگوں کو چُنا (سلیکٹ کیا) جاتا ہے، اُن کی پرورش کی جاتی ہے، انہیں پروان چڑھایا جاتا ہے اور پھر اُنہیں اقتدار میں لایا جاتا ہے۔ بدنما ماضی اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کو قوم پر مسلط کیا گیا‘‘۔ یہ تاریخی اور مبنی برحقائق آبزرویشن سپریم کورٹ آف پاکستان نے خواجہ برادران کے خلاف پیراگون ہائوسنگ کیس کے تفصیلی فیصلے میں دی ہے، جو قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔ تفصیلی فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’عام تاثر یہ ہے کہ نیب کا قانون سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نیب سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے، سیاسی جماعتوں کو توڑنے، مخالفین کا بازو مروڑنے اور انہیں سبق سکھانے کے لیے استعمال ہوا۔ احتساب یکطرفہ ہوتا ہے‘‘۔ فیصلے میں نیب کی غیرجانبداری پر وہ تمام سوالات اُٹھائے گئے ہیں، جو لوگوں کے ذہنوں میں ہیں اور یہ سوالات بنیادی طور پر قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک نظام احتساب کے بارے میں ہیں، جسے حقیقی سیاسی اور جمہوری قوتوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

فیصلہ قیامِ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں آجاتا یا کسی جج کے قلم سے کسی بھی مقدمے میں اس طرح کی آبزرویشن تحریر ہو جاتی تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ پاکستان ایک مضبوط جمہوری اور خوشحال ملک ہوتا۔ قیادت کا بحران پیدا نہ ہوتا اور بونے ہم پر حکمرانی نہ کررہے ہوتے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے نیب کے کردار کے بارے میں عمومی تاثرات کو بہترین اور مناسب الفاظ کا جامہ پہنایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا خلاصہ ہی یہی ہے۔ یعنی حقیقی مقبول سیاسی قیادت کو ختم کردیا جائے یا کچل دیا جائے اور پستہ قد، سمجھوتے باز لوگوں کو ’’رہنما‘‘ بنا کر مسلط کردیا جائے۔ نیب تو حقیقی مقتدر حلقوں کا حالیہ ادارہ ہے، جسے ایک متنازع قانون نیب آرڈی ننس 1999کے ذریعہ چلایا جاتا ہے۔ نیب پاکستان کی تاریخ کا پہلا ادارہ نہیں ہے، جس پر یکطرفہ احتساب اور سیاسی انجینئرنگ کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ نیب آرڈی ننس 1999کی شقیں انصاف کے بنیادی اصولوں کی پامالی کرتے ہوئے حقیقی مقتدر حلقوں کو سیاسی انجینئرنگ کے قانونی اختیارات فراہم کرتی ہیں۔ ان میں بغیر ثبوت گرفتاری اور کسی معاملے کی تحقیقات کرنے یا نہ کرنے کے اختیارات سے متعلق شقیں خاص طور پر شامل ہیں۔ اگرچہ یہ اختیارات چیئرمین نیب یا نیب کے افسروں کے پاس ہیں لیکن ان اختیارات کی وجہ سے نیب پر باہر کا دبائو رہتا ہے اور وہ ایک آزاد ادارہ کے طور پر کام شاید نہیں کرسکتا ہے، جس کی نشاندہی فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں بھی کی ہے۔ اس لیے نیب آرڈی ننس کو ایک متنازع اور سیاہ قانون قرار دیا جاتا ہے۔سیاسی انجینئرنگ کے لیے نیب سے پہلے بھی پاکستان میں کئی ادارے بنے اور کئی سیاہ قوانین رائج رہے۔ پاکستان کا پہلا متنازع اور سیاہ قانون 1949میں دستور ساز اسمبلی سے منظور کرلیا گیا۔ اسے ’’پبلک اینڈری پریزنٹیٹو ایکٹ (پروڈا) 1949کا نام دیا گیا ہے۔ اس قانون کو بے رحمی سے سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کیا گیا۔ اُن سیاسی قائدین کو پروڈا کے ذریعہ سیاست سے باہر کیا گیا، جنہوں نے تحریک پاکستان کے لیے اپنا تن، من، دھن قربان کردیا تھا۔ پروڈا نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا دھارا تبدیل کردیا۔

مارچ 1959میں جنرل ایوب خان کے مارشل لا میں ’’پبلک آفسز (ڈس کولیفکیشن) آرڈر‘‘ (پروڈا) رائج کیا گیا۔ یہ بھی پروڈا جیسا سیاہ قانون تھا۔ پھر اگست 1959میں بدنام زمانہ ’’الیکٹویاڈیز (ڈس کولیفکیشن) آرڈر‘‘ (ایبڈو) نافذ کیا گیا۔ ایبڈو کے ذریعہ ہر اُس آواز کو بند کردیا گیا، جو آمریت کے خلاف بلند ہوئی۔ اس قانون میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ جس سیاست دان کے خلاف ایبڈو کے تحت کیس بنے گا، اگر وہ رضاکارانہ طور پر سیاست سے ریٹائر ہوجائے تو کیس ختم ہوجائے گا۔ ورنہ اُسے نااہل قرار دے دیا جاتا تھا۔ ان سیاہ قوانین کے تحت حسین شہید سہروردی سے لے کر فقیر منش مولانا عبدالمجید سندھی جیسے لوگوں پر کرپشن کا الزام لگاکر اُنہیں بھی جیلوں میں ڈالا گیا۔ایوب خان کے بعد یہ سلسلہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے جاری رکھا اور ایسے قوانین بنائے، جن سے احتساب کا اختیار حقیقی مقتدر اور غیرمرئی قوتوں کے پاس رہا۔ نیب آرڈی ننس 1999میں پروڈا، پوڈا، ایبڈو اور آئین کے آرٹیکل 62،63کی تمام خصوصیات شامل ہیں۔ ان حالات میں بھٹو جیسی کوئی سیاسی قیادت پیدا ہوئی تو اُسے جسمانی طور پر ختم کردیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مقتدر قوتوں کے ساتھ ’’HOBNOB‘‘ کی اور خود اپنے لیے راستہ بنایا لیکن سسٹم نے اُنہیں سیاسی اور جسمانی طور پر الگ کردیا۔ بےنظیر بھٹو بھی قتل کردی گئیں۔ میاں نواز شریف جب تک مقتدر حلقوں کے بونے رہے، تب تک ’’متبادل سیاسی قیادت‘‘ قرار دیے جاتے رہے۔

اس آبزرویشن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آج بھی پاکستان میں جمہوریت خطرے میں ہے۔ سیاسی قوتیں مضبوط نہیں ہو سکی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قیادت کا بحران ہے۔ جب بونے اور پستہ قد لوگ مسلط کیے جائیں گے تو ایسا ہی بحران رہے گا۔ بڑے بڑے مالیاتی اور کرپشن کے اسکینڈل بحران کو مزید گہرا کررہے ہیں۔ آج کے سنگین بحران سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی اس آبزرویشن سے رہنمائی حاصل کی جائے اور جمہوریت کے استحکام کے لیے یکطرفہ احتساب کا نظام ختم کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اپنا کام کردیا ہے۔ اب پارلیمنٹ اپنا کام کرے اور احتساب کا حقیقی اور موثر قانون بنائے، جسے جمہوری ادارے چلائیں اور وہ غیرجمہوری قوتوں کو سیاسی انجینئرنگ نہ کرنے دے۔

تازہ ترین