• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سات دہائیوں سے گلی کوچوں میں منعقد ہونے والی آئے روز کی بین الاقوامی کشمیر کانفرنسوں، ہمہ وقت تیاری کی سماعت شکن دہائیوں، لاکھوں کروڑوں تقریروں اور اربوں کھربوں اخباری بیانات کے باوجود مسئلہ کشمیر تا حال حل نہیں ہوسکا۔ اب تو حال یہ ہے کہ روز نت نئے قوانین کی آڑ میں ایک سال سے سخت ترین محاصرے میں پھنسے کشمیری اپنے پرکھوں کی زمینوں اور گھروں سے بے دخل ہورہے ہیں۔

حال ہی میں حکومت ہند کی جانب سے مزید دس ہزار کنال زمین غیر کشمیری انویسٹرز کیلئے مختص کی گئی ہے۔ اس سے پہلے ہزاروں غیر ریاستی باشندوں کو اقامے جاری کئے گئے جس سے وہ سرکاری ملازمت اور کاروبار کے علاوہ جائیدادیں خریدکر مستقل شہری بن جائیں گے۔ ایسے حالات میں اکثر کشمیری علی الاعلان اپنے مستقبل کو فلسطینیوں کی موجودہ زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔

مرحبا کہ مثبت انداز فکر سے سوچنے کا دعویٰ کرنیوالے اور ’کچھ نہیں ہوتا‘پر یقین کرنے والے شترمرغ صفت دوست ڈھونڈ ڈھونڈ کر ضعیف تاریخی حوالے نکال کر لانے والے کل کے بارے میں بہتری کی امیدیں دلا رہے ہیں۔ مرحوم مشتاق یوسفی صاحب کے بقول’’جس بات کو کہنے والے اور سننے والے دونوں ہی جھوٹ سمجھیں اس کا گناہ نہیں ہوتا‘‘۔ اسلئے کسی کو گناہگار سمجھنے کی جسارت بھی گنہگاری کے زمرے میں آتی ہے۔

اگرچہ مدت ہوئی جنگ کو سرکاری طور پر خارج از امکان قراردے دیاگیا ہے مگر اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ الفاظ کے محاذ پرجنگ جاری ہے بلکہ ان کے بندوبست میں شامل کارندے گاہے بہ گاہے اپنے بیانات سے جہاں اپنی مجبوریوں کا رونا روتے نظر آرہے ہیں وہیں کشمیریوں کی غیرت کو للکار کر انہیں ظلم کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے کے فوائد بھی گنواتے نظر آرہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کورونا سے پیدا شدہ نئے چیلنجز کے باوجود اور سماجی فاصلوں کے نئے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی کشمیر پر ڈیجیٹل کانفرنسیں بڑے طمطراق سے جاری ہیں جس میں زیادہ تر غیرکشمیری بڑی بہادری سے آخری کشمیری تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔

اپنے ناتواں کندھوں پر کشمیری شناخت کا بوجھ ڈھونے والے جو بھولے بھٹکے ایسی تقریبات میں دفع شر کیلئے بلائے جاتے ہیں وہ یا تو بیرون ملک رہتے ہیں جہاں وہ ہر قسم کے خطرات سے دور محفوظ زندگیاں گزارتے ہیں،وہ کسی مجبوری یافائدےکی وجہ سے اپنے ہم وطنوں کے مصائب سے جان بوجھ کر چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں تاکہ سرخروئی حاصل کرسکیں۔

اسے حالات کا جبر کہہ سکتے ہیں کہ جن کے نام پر یہ سب ہورہا ہے وہ انٹرنیٹ کی مسلسل پابندیوں کی وجہ سے نہ اسے دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ورنہ عین ممکن تھا کہ وہ اس صورتحال سےہونے والے صدمےکی تاب نہ لاسکتے۔

گزشتہ سال اگست میں حکومت ہند کی جانب سے ماورائے قانون اورغیر آئینی اقدامات کے بعد کشمیر کا سقوط ایک تلخ حقیقت ہے مگر بھارتی حکومت باوجود ایک منضبط اور منظم عالمی سفارتی مہم اور امریکہ اور یورپ کی خاموش حمایت کے باوجود اب تک اپنے ہی اقدامات سے خوفزدہ نظر آرہی ہے۔

پہلے پہل تو اس نے پوری کشمیر وادی میں فوجی تیاریاں کیں کہ شاید کسی طرف سے کوئی کارروائی ہو۔ چند مہینوں بعد جب اسے مکمل اطمینان ہوا کہ کشمیریوں کے مصائب پر سر عام رونے والوں کا کوئی ردعمل نہیںآئے گا تو وزیراعظم مودی نے اپنا رخ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی طرف موڑ دیا اور بار بار ان علاقوں کو بھارت کے ساتھ ملانے کا عزم دہرایا۔ ان کا بیانیہ اس قدر جارحانہ تھا کہ کئی بار لگا کہ حملہ ہوا ہی چاہتا ہے۔

اس دوران اچانک مسئلہ کشمیر کی کوکھ سے نیا مسئلہ نکلا جو اب مسئلہ لداخ کے نام سے معروف ہورہا ہے۔ تین ماہ قبل چین نے لداخ کے راستے بھارتی زیر قبضہ علاقوں میں اچانک پیشقدمی کی اور بھارت کی لاکھ کوششوں اور بھارت کیلئے امریکی اور یورپی ممالک کی سپورٹ کے باوجود چینی ٹس سے مس ہوتے نظر نہیں آئے۔

سردست مسئلہ لداخ کی وجہ سے وزیراعظم مودی کا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر فوج کشی کا منصوبہ کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر اور اس سے پیدا شدہ انسانی المیے سے بھی توجہ ہٹتی جارہی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین