• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تین سادہ سے نکات ہیں جوعہد جدید میں ایمان کا درجہ رکھتے ہیں۔1۔کسی کو عوام کو روزی، روٹی، لکھنے پڑھنے، جان، مال اور انسانی حقوق سے محروم کرنے کا حق نہیں ہے۔ 2۔لیکن اگر یہ سب جمہوریت کی وجہ سے ہوا ہے تو پھر اس نظام کو چلتے رہنا چاہئے۔ 3۔ ہا، ہا، ہا، آنے والے انتخابات کے بعد جمہوریت کو فتح حاصل ہوگی۔ بھوکوں، بے گھروں، بیروزگاروں، بیماروں اور ان پڑھوں کے جم غفیر میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور پانچ سال بعد آج کی طرح عوام سے پھر یہ کہا جارہا ہوگا کہ اس قابل رحم حالت سے نجات کیلئے پولنگ بوتھ تک جائیں اور ایک نشان پر مہر لگائیں۔ جمہوریت میں عوام کو جو کچھ مہیا کیا جاتا ہے وہ ساٹھ سیکنڈ کی آزادی ہے۔ ووٹ کی پرچی پر مہر لگانے کی آزادی۔ اس کے بعد عوام کا اس بات سے قطعی تعلق نہیں رہتا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ملک کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ البتہ انہیں اس بات کی آزادی ہے کہ وہ حکمرانوں کو برا بھلا کہہ سکیں جس کا حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ ہر طرح کے خوف کے بغیر ملک اور قوم کو اپنی انگلیوں پر نچاتے رہتے ہیں۔ مارچ کے آخری دنوں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم افتخار محمد چوہدری نے فرمایا تھا کہ ”اسمبلیوں کے امیدواروں کی جانچ پڑتال کرتے وقت آرٹیکل 62 اور 63 پر عملدرآمد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے“۔ محترم چیف جسٹس نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”بدعنوانوں کو اسمبلیوں میں جانے نہیں دیا جائے گا“۔ لیکن ان کی آواز صحرا کی اذان بنا دی گئی اور منافقانہ رویّے دھڑا دھڑ لہرانے لگے۔ ایک عدالت جمشید دستی کو سزا دے کر نااہل قرار دیتی تو دوسری عدالت اسے نہ صرف باعزت قرار دے دیتی ہے بلکہ دو دو حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت بھی مرحمت فرما دیتی ہے۔ پچھلے سال پیپلزپارٹی کی ایک سیاستدان الیکشن کمیشن کی ایک خاتون کو سرعام تھپڑ مارنے پر نااہل قرار پائیں تھی لیکن اس برس قابل صد احترام اور الیکشن لڑنے کی اہل۔ اس ماہ کے آغاز میں مسترد کاغذات نامزدگی کی یہ حالت تھی کہ ”ہر طرف ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا“ لیکن دس اپریل کی شب تمام مسترد امیدوار مکمل اہل، پاک دامن اور بے داغ۔ مالی کوائف اور اثاثوں کے بارے میں بھی مروجہ خیالات اور مشاہدات کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ محترم نوازشریف جن کی دولت اور امارت کی ماؤنٹ ایورسٹ میلوں دور سے نظر آتی ہے ان کے اثاثہ جات کی تفصیل کے بعد پتہ چلا کہ وہ ملک کے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کس کس کا نام لیا جائے اس گلے سڑے نظام نے اثاثہ جات کے نام پر کرپشن کے سمندر سے عجیب و غریب تفصیلات نکال کر عوام کے ساحل پر پھینک دی ہیں۔ سونے پر سہاگہ نگراں سیٹ اپ، جس کی واحد شان نزول صاف شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنانا ہے، نگراں وزیراعظم سے لے کر وزرائے اعلی اور گورنر صاحبان تک سب جناب صدر آصف علی زرداری کے نامزد کردہ اور مرہون منت ہیں۔ بے رحم اسکروٹنی یعنی چھان بین کا وہ جنون کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے جس نے عوام کو یہ سوچ عطا کی تھی کہ اب کوئی ٹیکس چور، حرام خور، مجرم، قومی دولت لوٹنے کی خوفناک وارداتوں میں ملوث اسمبلیوں تک نہیں پہنچ پائے گا لیکن ایک چھوٹی سی رونق کے بعد سب اسمبلیوں میں جانے کے اہل قرار پاگئے۔ رہی بے رحم اسکروٹنی نے تو اسے پتھر کے زمانے میں بھیج دیا گیا۔ جس صفائی سے تمام اداروں نے مل کر امیدواروں کو اسکروٹنی کا مرحلہ عبور کرایا ہے اور عوام کو ایک بار پھر درندوں کے آگے ڈال دیا ہے اس کے بعد اس میں کوئی شک نہیں کہ 11/مئی کے انتخابات نتائج کے اعتبار سے کیا ہوں گے۔
صاحبو!انگریز اکیلا ہو تو بور ہوگا، دو ہوں تو شرط لگائیں گے اور تین ہوں تو پارلیمینٹ بنالیں گے۔ہندو ایک ہو تو سازشی ہوتا ہے دو ہوں تو بنیے ہوتے ہیں اور تین ہوں تو جلاد بن جاتے ہیں۔ مسلمان ایک ہو تو بہادر ہوتا ہے،دو ہوں تو بحث کرتے ہیں اور تین ہوں تو فرقے بنالیتے ہیں۔ آج میرے ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کا یہی حال ہے۔ اس فضا سے فائدہ اٹھاکر فتنہ انگیز اپنے تمام کام دھندے چھوڑ کر اسلام کے خلاف پھندے بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ مسلسل کامیابیوں سے یہ حلقے اس قدر جری اور بے باک ہو چکے ہیں کہ اب اسلام تو کجا ،اسلامی شعائر، علامات، اصطلاحات، نظریہٴ پاکستان اور آئینِ پاکستان میں جو چند اسلامی شقیں ہیں ان سے وہ بھی برداشت نہیں ہو رہیں۔ اسلام کا نظام عمران خان کی سیاست کا محض ایک جزو ہے مرکزی حصہ نہیں لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ ایک لابی ان کے خلاف محض اس لئے سرگرم عمل ہے کہ ان کا انتخابی نعرہ ایاک نعبدو ایاک نستعین اور وہ مدینہ کی اسلامی ریاست خلافت کی بات کرتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 62/اور 63 کا بھی یہی معاملہ ہے مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگ اسلامی اصطلاحات سے چڑتے ہیں۔گاندھی جی کو اردو پر ایک اعتراض یہ تھا کہ اردو قرآن کے حروف میں ہے۔ اسی طرح صادق اور امین کا لفظ بھی بعض لوگوں کو آگ لگا دیتا ہے کہ یہ میرے آقاحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ ہے۔حالانکہ آقارسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو صرف صادق اور امین شخصیات ہی نہیں دیں بلکہ صادق اور امین نظام بھی عطا کیا تھا تاکہ انسانیت پوری شان اور آب و تاب سے بروئے کار آسکے ۔
تازہ ترین