• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں ہمایوں اختر خان اور کشمالہ طارق کو دور سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ دونوں کے چہرے اترے اور آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں۔ ہمارامخبر اعلیٰ جس کی خباثت ویسے تو ہمہ وقت نکتہ کمال پر ہوتی ہے مگر عام انتخابات کی گہما گہمی میں تو کچھ زیادہ ہی ترنگ میں آچکا ہے۔دونوں کو دور سے آتا دیکھ کر پہلے تو زیر مونچھ مسکرایا پھر بولا”ان انتخابات میں نواز شریف سے پہلی نیکی یہ سرزد ہوئی ہے کہ اس نے ان دونوں کو ٹکٹ نہیں دئیے“۔ ویسے ہماری اپنی اطلاع بھی تقریباً یہی تھی کہ ہمایوں اختر کو تو نواز شریف نے بغیر کسی لمبی چوڑی تمہید کے فارغ کردیا تھا مگر کشمالہ طارق کے لئے شہباز شریف، خواجہ سعد اور خواجہ آصف کی شکل میں ایک تین رکنی سفارشی وفد نواز شریف کے در دولت پر حاضر ہو کرمنت ترلا کرنے گیا تھا مگر میاں صاحب نے تقریباً ان الفاظ میں اپنا جواب پیش کردیا کہ یہ میری جماعت کی ساکھ کا مسئلہ ہے اور میں اس ساکھ کا مزید ستیاناس نہیں کرسکتا اس لئے میری طرف سے دلی معذرت قبول فرمائیے۔
دروغ برگردن راوی، ان تینوں سفارشی احباب کے وہاں سے نکلتے ہی نواز شریف نے ایک دلچسپ پھبتی بھی کسی تھی مگر افسوس کہ بعض مجبوریوں کے سبب ہم وہ آپ کی خدمت میں پیش نہیں کرسکتے البتہ تھوڑے کہے کو ہی کافی جانتے ہوئے خود ہی سمجھ لیں کہ موصوف نے کیاکہا ہوگا کیونکہ میاں صاحبان فن پہلوانی کے ساتھ ساتھ جگت بازی، خوش خوراکی، لوٹا سازی و دیگر ”فنون لطیفہ“ میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں۔کشمالہ طارق کے بارے میں مزید سنا جارہا ہے کہ آپ نواز شریف کی اس سرد مہری پر سخت سیخ پا ہیں اور الیکشن کمیشن کو یہ باور کرواتی پھرتی ہیں کہ یہ حضرت آئین کی دفعات باسٹھ و تریسٹھ پر پورے نہیں اترتے کہ آپ نے ان کے ہمایوں اختر خان کے ساتھ مذکورہ ”ظلم“ کرکے ایک تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے چنانچہ آپ نہ صادق ہیں اور نہ ہی امین۔ سننے میں آیا ہے کہ اس حوالے سے وہ ثبوت کے طور پر ایک گیڈر پروانہ بھی لئے پھرتی ہیں۔
خیر بات ہورہی تھی ہمایوں اختر کی تو اس ضمن میں بھی ہمارے مخبر اعلیٰ کے پاس لمبا چوڑا مواد موجود ہے۔ ہم نے گزارش کی کہ ہمایوں اختر کسی زمانے میں ہمارا بھی دوست رہ چکا ہے اور اگر اس نے ہمخیال گروپ بنا کر ”اصحاب ق“ کے ساتھ ہاتھ کیا ہے تو یہ اس کی سیاسی ضرورت تھی اور اس طرح کے کاروباری لوگ ا س طرح کی ضرورتوں کا شکار اکثر رہتے ہیں، اس لئے اس بیچارے کی جان چھوڑ دو اور کوئی نئی بات کرو۔ مخبر اعلیٰ نے باتوں باتوں میں ہمیں انٹرنیٹ پر پڑی ایک عجیب و غریب گفتگو سنوائی جو کہ مبینہ طور پر ہمایوں اور کشمالہ کے درمیان تھی۔ سن کر کافی افسوس ہوا، اس بات پر نہیں کہ گفتگو کا لہجہ و آہنگ نہایت افسوسناک تھا بلکہ ہمیں افسوس اس بنا پر ہوا کہ ہم جو اپنے آپ کو ایک خبرناک صحافی سمجھتے ہیں آج تک انٹرنیٹ پر پڑی اس خبرناک گفتگو سے بے خبر رہے۔ خیر مخبر اعلیٰ کے چہرے سے ٹپکنے والی خوشگوار شیطنت اور چند طنزیہ فقروں سے ہم نے یہی اخذ کیا کہ نواز شریف نے جن پانچ سات وجوہات کی بنا پر ان دونوں احباب کو ٹکٹ سے محروم کیا، ان میں سے ایک یہ گفتگو بھی تھی۔
مخبر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ نواز شریف سے مکمل طور پر مایوس ہو کر ہمایوں اختر خان نے اپنے سابق قائدین یعنی چودھری برادران کے ساتھ رابطہ کیا اور ٹکٹ کے لئے دست بستہ گزارش کی۔ چودھری صاحبان جو کہ اپنے دونوں ہمخیال باغیوں کی سبکی پر بغلیں بجارہے تھے ہمایوں اختر کے اس بے وقت سجدہ سہو پر مزید محظوظ ہوئے۔ فوراً شرط عائد کردی گئی کہ ”پریس کانفرنس میں ق لیگ چھوڑنے پر معافی مانگی جائے“۔
چودھریوں کی توقع کے برعکس ہمایوں اختر اس پر بھی تیار ہوگئے، صرف اس حد تک پس و پیش کی کہ ان کی عزت کا خیال رکھا جائے اور مناسب ہوگا کہ کسی بااعتبار صحافی سے یہ سوال کروالیا جائے کہ”کیا آپ کو ق لیگ چھوڑنے پر افسوس ہے“۔ ظاہر ہے اس سوال کا جواب نفی میں تو ہرگز نہیں ہوسکتا تھا۔ خیر اس مرتبہ ہمایوں ا ختر کی نظر سمندری ضلع فیصل آباد سے پی پی60 مرکوز تھی جہاں سے اصحاب ق نے خالد نبی گجر کو ٹکٹ دے رکھا تھا۔ گجر صاحب کا برادر خورد ہمایوں اختر کی شوگر ملز میں جنرل منیجر ہے اور یہ مل بھی سمندری میں ہی واقع ہے۔
مگر افسوس کہ ہمایوں کے اس حد تک آجانے کے باوجود چودھری پرویز الٰہی نے بھی ان کے بارے میں تقریباً اسی”خیر سگالی“ کا مظاہرہ کیا جو اس سے پہلے نواز شریف کرچکے تھے چنانچہ ہمایوں اختر و ہمنوا کو فی الحال تو مکمل آرام ہے اور وہ دن رات ہاتھ اٹھا اٹھا کر الیکشن ملتوی ہونے کی دعائیں کرتے پائے جارہے ہیں، البتہ آنے والے دنوں میں عین ممکن ہے کہ کسی نہ کسی پارٹی میں ان کا سینگ سما جائے مگر فی الحال تو ٹھنڈ پروگرام ہی ہے ہمارا مخبر اعلیٰ ایسے موقعوں پر دیگر بیہودگیوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کرتا ہے،”ہور چوپو“
تازہ ترین