• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال 14 اگست کی صبح جب طلوع ہوتی ہے تو ملک کی اکثریتی آبادی اس احساس کے ساتھ بیدار ہوتی ہے، جسے فیض احمد فیض کے ایک شعر کے اس مصرعہ میں الفاظ کا جامہ پہنایا گیا ہے کہ ’’وہ انتظار تھا، جس کا یہ وہ سحرتو نہیں۔‘‘ پھر بھی لوگ جشن آزادی ہر سال انتہائی جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ 14 اگست کا سورج طلوع ہوتا ہے تو پورے ملک میں پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج شروع ہو جاتی ہے اور سورج یہ گونج سنتے سنتے غروب ہوتا ہے۔ ان نعروں میں سب سے زیادہ بلند آواز ان افتادگان خاک کی ہوتی ہے، جو آزادی کے ثمرات سے آج بھی محروم ہیں۔ پاکستان کے 74 ویں یوم آزادی پر بھی امسال لوگوں نے زبردست جوش اور ولولے کا مظاہرہ کیا۔ میں ان لوگوں کی بات نہیں کر رہا ، جو اس لیے زبردست اہتمام کے ساتھ یوم آزادی مناتے ہیں کہ حب الوطنی کے دعوے پر ان کی اجارہ داری رہے۔ میں ان لوگوں کی بات بھی نہیں کر رہا، جو اس لیے یوم آزادی کی تقریبات، جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں کہ ان کی حب الوطنی پر شک نہ کیا جائے ۔ یہ دونوں گروہ ایسے ہیں، جن کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ پاکستان ان کے لیے بنا ہے۔ میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں، جو افتادگان خاک ہیں۔ جن کا مذکورہ بالا دونوں گروہوں سے تعلق نہیں اور وہ جشن آزادی اس لیے نہیں مناتے کہ مذکورہ دونوں گروہوں کی طرح مقاصد حاصل کر سکیں۔ وہ صرف اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور لفظ آزادی سے رومانوی احساس پیدا ہوتا ہے۔

بوسیدہ کپڑوں میں اپنے معصوم بچوں کے ساتھ وہ گرمیوں میں سڑکوں یا کسی عوامی جگہ پر پاکستانی پرچم تھامے خوشی منا رہے ہوتے ہیں۔ میں ان غریب لوگوں کی بات نہیں کر رہا، جنہیں کسی سرکاری تقریب یا کسی سیاسی جماعت کے جلسے اور جلوس میں کسی مجبوری کی وجہ سے شرکت کرنا پڑتی ہے۔ میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں، جو کراچی کے علاقے کلفٹن کے ساحل سمندر پر یوم آزادی کے موقع پر جمع ہوتے ہیں۔ اس میلے کا اہتمام کوئی حکومتی ادارہ یا کوئی سیاسی جماعت نہیں کرتی بلکہ لوگ اپنے طور پر جمع ہوتے ہیں۔ اس ساحل پر پاکستان کے ہر علاقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان کے تمام لسانی، نسلی، قومیتی اور مسلکی گروہوں سے ہوتا ہے۔ ان کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی نہیں کرتا ہے۔ یہ خود ہی اپنے اہل خانہ بشمول خواتین کے ساتھ بسوں، رکشاؤں، یا موٹر سائیکلوں کے ذریعہ یہاں پہنچتے ہیں۔ ان کے لیے کھانے اور پانی کا انتظام بھی نہیں ہوتا ہے مگر وہ اس دن کو تہوار کے طور پر منانے کے لیے شہر کے دور دراز پسماندہ اور غریب علاقوں سے آتے ہیں۔ کلفٹن کے ساحل سمندر پر پورے پاکستان کی نمائندگی ہوتی ہے اور قومی یکجہتی کا عظیم الشان مظاہرہ ہوتا ہے۔ اس میلے میں جا کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہیں حقیقی پاکستانی اور ان کی وطن سے محبت بے لوث ہے۔ ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے، جن کا کوئی محفوظ یا مستقل روزگار نہیں ہوتا۔ روزانہ اجرت پر کام کرنے والے، راج مزدور ، ’’ان فارمل‘‘ پیشوں سے وابستہ لوگ ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوتا، جسے سیاسی، خاندانی، مسلکی، قومیتی یا لسانی وابستگی یا اثرورسوخ کی وجہ سے زندگی میں کوئی فائدہ حاصل ہوا ہو۔ یہ لوگ تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہ لوگ ریاستی اور حکومتی اداروں کی زیادتیوں کا شکار ہیں۔ انہیں اپنے جائز کام کے لیے بھی سرکاری دفتر میں نہیں گھسنے دیا جاتا۔ یہ پولیس کے عتاب اور لوٹ مار کا آسان شکار ہیں۔ قدم قدم پر ان کی آزادی سلب اور عزت نفس مجروح کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود میں نے دیکھا کہ وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جشن آزادی منا رہے تھے۔ بچے، بچیاں اور نوجوان پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے خود بھی خوشی سے ہوا میں اڑ رہے تھے۔ ان افتادگان خاک کا جذبہ حب الوطنی کیا کارپوریٹ میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے، جو پاکستان کے مخصوص حلقےاور ان کے پروردہ حکمران طبقات کراتے ہیں؟ میرے خیال میں اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ کلفٹن کے ساحل سمندر پر جو لوگ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں، ان پر یہ پروپیگنڈا اثر ہی نہیں کرتا کیونکہ وہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی زد میں نہیں ہیں۔ میں سالہا سال سے کلفٹن کے ساحل پر اپنے وطن کے غریب لوگوں کو اسی طرح سے دیکھ رہا ہوں۔ جب کارپوریٹ میڈیا زیادہ موثر نہیں تھا، جب بھی ان کا جذبہ حب الوطنی وہی تھا اور آج بھی وہی ہے۔ حکمران طبقات کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اگر ان لوگوں کو یہ احساس ہو گیا کہ آزادی کے باوجود انہیں بنیادی آزادیاں اور حقوق میسر نہیں ہیں تو پھر وہی تماشے ہوں گے، جو تاریخ پہلے دیکھ چکی ہے۔

آزادی کا مطلب آج کے دور میں حقیقی جمہوریت ہے، جس میں اقتدار عوام کا ہوتا ہے اور وہ حقیقی فیصلہ کرتے ہیں۔ جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتیں خود جمہوریت پر سمجھوتہ کرتی ہیں اور حکومت کے حصول یا حکومت کی تبدیلی کے لیے غیر جمہوری قوتوں کی طرف دیکھتی ہیں۔ آج بھی جب تحریک انصاف کی حکومت عوام کی توقعات پوری نہ کرنے پر غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے، سیاسی جماعتیں کسی بھی تبدیلی کے لیے عوام پر انحصار کرنے کی بجائے دوسری طرف دیکھ رہی ہیں۔ میں نے کلفٹن کے ساحل پر افتادگان کو دیکھا ہے کہ وہ آزادی کے متوالے ہیں اور کسی دن انہوں نے حقیقی آزادی کا مطالبہ کر دیا تو ان لوگوں کو بہت پریشانی ہوگی، جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان صرف ان کے لیے بنا ہے ۔

تازہ ترین