• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اول تو ہم کالم لکھتے ہی بہت کم ہیں اور اگر شومئی قسمت سے کچھ تھوڑا بہت لکھ ہی بیٹھیں تو کہیں نہ کہیں سے شکایت ضرور آ جاتی ہے۔ دوست دل کھول کرگلہ شکوہ کرتے، کچھ تو رونے دھونے پر بھی اتر آتے ہیں اور یوں کالم نگاری کی طرف سے ہمارا اپنا دل اس قدر کھٹا ہو جاتا ہے کہ اگلے چند ہفتے لگاتار کالم نہ لکھنے کی فضیلت پر غور کرنے میں گزار دیتے ہیں۔
ماضی انتہائی قریب کی ایک نہایت خوشکل ٹی وی اداکارہ کے بارے میں ہم نے دوچار شرارتی باتیں اپنے ٹی وی شو میں بھی کیں اور کالم میں بھی۔ ہر خوبصورت خاتون کی طرح آپ بھی خاصی بدذوق واقع ہوئی ہیں، چنانچہ حکام بالا سے ہماری شکایت کر ڈالی۔ ہم نے ”معذرت“ کی تو مزید چڑ گئیں پچھلے ہفتے آپ لاہور تشریف لائیں تو ایک مشترکہ دوست کے ہاں دعوت پر اچانک ملاقات ہوگئی۔ سارک ممالک کے چند اہم صحافی بھی محفل میں موجود تھے۔ ایک صاحب کو کسی انگریزی رسالے کے مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ اردو اور پنجابی کے شاعر بھی ہیں، دل میں ہمارے ٹی وی شو کی مقبولیت پر نہایت دلچسپ گفتگو کرنے لگے۔ ہماری ”ممدوح“ اداکارہ کو یہ سب کچھ خاصا ناگوار گزرا اور آپ نے تقریباً پانچ منٹ ہمارے شو اور کالم کی ہجوگوئی میں گزار دیئے۔ہم نے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ انکی باتیں سنیں حتیٰ کہ دو ایک طنزیہ اور ذومعنی فقروں پر سر کو تعریفی انداز میں چند جھٹکے بھی دیئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہاں مراد اپناہے، ان کا نہیں حالانکہ اپنی تحریروں میں موصوفہ کا آخری ذکر خیر کئے آج تقریباً سات آٹھ ماہ ہو چکے ہیں مگر نجانے کیوں یہ کہہ کر انہوں نے پوری محفل کو پریشان کر ڈالا کہ آفتاب صاحب کے پاس میرے بارے میں سوچتے رہنے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ محض الزام تھا مگر اس سے انکار کی جرات ہم نے یوں نہیں کی کہ ایک تو ہم ان کے ہاتھ کے سائے تلے بیٹھے تھے اور یہ سایہ ، سایہ شفقت نہیں بلکہ سایہ دہشت تھا، اور دوسرا یہ کہ اس گپ شپ کا مقصد تلخی میں کمی کرنا تھا، اضافہ ہر گزنہیں۔میزبان کے شرارت آمیز استفسار پر ہم نے ایک آہ سرد کھنچی اور لوگ مزید متوجہ ہوگئے۔ اقبال کوثر کا ایک شعر جو مرحوم نے غالباً آج ہمارے استعمال کے لئے ہی کہا تھا، ”اقبالی بیان“ کے طور پر پیش کر ڈالا
جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں
آجکل ہم تیرے بارے میں بہت سوچتے ہیں!
ہر طرف سے داد تحسین کے ڈونگرے برسے مگر خاتون مزید بگڑ گئیں۔ یقیناً انہیں شعر کی سمجھ ہی نہیں آئی ہوگی، یا پھر یہ کہ ہماری ادائیگی میں جو طنز پنہاں تھا، انہوں نے سارا دھیان اسی پر ضائع کر ڈالا اور شعر پر چنداں غور نہیں کیا کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ خوش شکل عورتیں اگر خوش ذوق بھی ہوتیں تو آج دنیا کا نقشہ قدر مختلف ہوتا!تاہم بعض اوقات خوش شکل مرد بھی خاصے بدذوق ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین مثال ہمایوں اختر خان کی پیش کی جا سکتی ہے۔ دو روز پہلے ہم نے ایک کالم لکھا جو موصوف نے سیدھا دل پر لے لیا۔ ایس ایم ایس کے ذریعے نہایت دکھی دکھی پیغامات بھیجے اور علاقہ ایس ایچ او سے لے کر غالباً بارک اوباما تک سب سے شکایت بھی کی۔ فون پر بات ہوئی تو کہنے لگے ”میرا موقف بھی چھاپو“ ہم نے گزارش کی کہ ایک مختصر سا خط بھیج دیں ہم کوشش کریں گے کہ ا پنے کالم میں من و عن چھاپ دیں۔ خط موصول ہوا تو آخری سطر کچھ یوں تھی۔”میں آپ سے توقع رکھتا ہوں کہ آپ میری یہ معروضات اپنے کالم میں شائع کر کے ضروری وضاحت بھی فرمائیں گے“خیر پہلے آپ موصوف کا موقف پڑھئے، وضاحت، جو کہ انتہائی غیرضروری ہے، ہم آخر میں پیش کرتے ہیں، خط بعنوان ہمایوں اختر خان کا شکوہ
محترم آفتاب اقبال صاحب۔السلام علیکم!
مجھے بہت زیادہ افسوس کے ساتھ یہ سطور آپ کی خدمت میں پیش کرنا پڑ رہی ہیں:آپ نے 18 اپریل 2013ء (جمعرات) کے اپنے کالم ”آفتابیاں“ میں ایسی باتیں مجھ سے منسوب کی ہیں جو بے بنیاد اور من گھڑت ہی نہیں بلکہ کردار کشی کے زمرے میں آتی ہیں۔ بلاشبہ مسلم لیگ ہم خیال کی ایک مفاہمت ”مسلم لیگ ن“ کے ساتھ ہوئی تھی جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔ اسی مفاہمت کے تحت میں نے سمندری کے ایک حلقہ سے ن لیگ کے ٹکٹ کے لیے درخواست دی تھی۔ جب ”ن“ کا ٹکٹ کسی اور اور امیدوار کو مل گیا تو میں نے وہاں سے اپنا نام واپس لے لیا۔ اس سلسلے میں کسی بھی مرحلے میں میری چودھری صاحبان سے براہ راست یا بالواسطہ کوئی بات چیت ہوئی نہ رابطہ۔ مسلم لیگ (ق) پہلے ہی اس حلقے سے دلدار چیمہ کو ٹکٹ دے چکی تھی۔ آپ نے انٹرنیٹ پر پڑی جس نام نہاد گفتگو کا حوالہ دیا ہے اس کا تو حوالہ بھی صحافتی اخلاقات کے مطابق نہیں۔ یہ خود ساختہ اور جھوٹی گفتگو کاغذات نامزدگی کے دوران ایک جج صاحب کے سامنے لائی گئی تو انہوں نے اسے رد کرنے میں پانچ منٹ بھی نہیں لگائے، مجھے بے حد افسوس ہے کہ اپنے کام کو ایسی بے بنیاد باتوں سے بھرتے ہوئے آپ نے مجھ سے بات کرنا بھی مناسب خیال نہ کیا۔میں آپ سے توقع رکھتا ہوں کہ میری یہ معروضات اپنے کالم میں شائع کر کے ضروری وضاحت بھی فرمائیں گے شکریہ۔
ہمایوں اختر خان۔19 اپریل 2013 ء
تو جناب خان صاحب ، پہلی وضاحت تو یہ ہے کہ ہمارے کالم کا مقصد آپ، آپ کے کسی دوست کی دل آزادی ہرگزہرگز نہیں تھا، بلکہ یہ تو اے سیدھا سادہ مخولیہ سا کالم تھا مگر افسوس کہ ماضی ”انتہائی قریب“ کی ٹی وی اداکارہ کی طرح آپ کا دھیاں بھی صرف طنز پر ہی پڑا، مزاح کو آپ نے بھی درخوراعتنا نہیں سمجھا، آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ آپ کے بارے میں کی گئی ہماری باتیں ”کردار کشی کے زمرے میں آتی ہیں“ جناب عالی، اپنے بارے میں ہونے والی ہر دوسری مخولیہ بات کو آپ کردار کشی کیوں سمجھ بیٹھے ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ آپ ایک پڑھے لکھے نفیس اور شوقین ٹائپ خوش لباس اور خوشگفتار سیاست دان ہیں کاروبار کا عالم یہ ہے کہ ماشا اللہ ارب پتی ہیں اور اگر افغان جنگ نہ چھڑتی تو آپ آج کسی بڑے بینک کے ایس ای وی پی یا کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے کنٹری ہیڈ ہوتے آپ کی ماہانہ تنخواہ کم از کم دس لاکھ روپے ہوتی جس میں پٹرول اور موبائل فون کا بل لامحدود ہوتا۔ اس تابناک کیریئر کی وجہ بھی صرف یہ ہوتی کہ آپ نے ایکچوریل سائنسز میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور آپ کی شخصیت بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ دوسری وضاحت یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود آپ کی جس مبینہ گفتگو کا حوالہ ہم نے دیا تھا وہ آج بھی مبینہ ہی ہے اور ہم ہرگز ہرگز دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ گفتگو آپ کی ہے اگر آپ انکاری ہیں تو ہم بھلا کون ہوتے ہیں اصرار کرنے والے، ہیں جی؟ اور جہاں تک تعلق ہے اصحاب ق کے ساتھ آپ کے بالواسطہ ” اندرو اندری“ رابطوں کا تو یہ احباب آج بھی مصر ہیں کہ آپ نے ایک مقامی ”وچولے“ کے ذریعے سمندری ضلع فیصل آباد سے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہاں بھی ہمیں حسن ظن کا مظاہرہ ہی کرنا پڑے گا۔ چنانچہ حضور، وہی درست ہے جو آپ فرماتے ہیں، اور حکم؟
تازہ ترین