• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واہ..... آسمان ابرآلود ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں گرم پہناوے کے باوجود دل سے ٹکرائی تھیں۔ چہرے پر مُسکراہٹ ابھرآئی کہ اب طبیعت چونچالی پر مُصر تھی۔ چند خُوب صُورت گلیوں اور شان دار سڑکوں کے موڑ کاٹے اور ‘‘بیسٹ ویسٹرن‘‘ ہوٹل پہنچ گئے۔چلیے جناب، کائونٹر پر لکھا پڑھی کے مراحل سے گزر کر کمرے میں سامان پھینکا اور ‘‘چلو چلودبئی‘‘ کی طرح ‘‘چلو چلو اسٹیشن‘‘ کا نعرہ لگاتے باہر نکل آئے۔ میٹرو اسٹیشن قریب ہی تھا۔ باہم مشورہ ہوا۔‘‘لعنت بھیجو، میٹرو کا بڑا جھنجھٹ ہے۔ وہاں کی چیختی چنگھاڑتی دنیا میرے مرمّت شدہ دل کے لیے موزوں نہ رہے گی، تم ٹیکسی پکڑو۔‘‘سیما نے حتمی فیصلہ سُنادیا تھا۔ 

ہوٹل والوں کے ایک فون پر ایک ہی منٹ میں ٹیکسی الٰہ دین کے جن کی طرح حاضر ہوگئی۔ موسم بڑا عاشقانہ، بادل گہرے اور ہوائیں خُمار آلود تھیں۔ سڑک حسین اور کناروں پر تمکنت سے کھڑی دو رویہ عمارتوں کے سلسلے حسین تر۔ ریلوے اسٹیشن کی عمارت باہر سے کچھ غیرمعمولی حسین نہ لگی تھی، مگر جونہی شیشے اور اسٹیل کے دروازوں سے اندر داخل ہوئے، سامنے ایک بادِ بہاری جیسی دنیا تھی آٹوچہ (Atocha) اسٹیشن میڈرڈ کاپہلا اور بڑا اہم اسٹیشن ہے، جو لگ بھگ 1851ء میں ازابیل دوم کے ہاتھوں سے افتتاحی مرحلے سے گزرا تھا۔ تاہم، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بے چارے نئے نویلے اس عمارتی ڈھانچے کو آگ نے فنا فی اللہ کردیا تھا۔ موجودہ عمارت کوئی 1892ء میں تعمیر ہوئی۔ 

آٹوچہ اِس علاقے کا نام ہے اور یہ میڈرڈ کا جنوبی حصّہ ہے۔ ہم محویت کے عالم میں کھڑے اس کا روشن وجود دیکھ کر سراہ رہے تھے، رنگ و بو کا یہ جہان نیچے کی دنیا میں تھا۔ وہاں تک جانے کے لیے ایکسیلیٹرز پر جا چڑھے۔ نصف راستے میں ریلنگ کے پاس کھڑے مجسّمے کے پاس رُک کر تصویریں بنائیں۔ پیچھے کا منظر مزید حسین نظرآیا۔ دو رویہ مٹیالی سرخ اینٹوں کے پویلین کے سر پر گلاس کی چھت ڈھلانی صورت میں تنَی تھی اور بیچ میں گل و گلزار کا جہان کُھلا پڑا تھا۔ آٹوچہ کا گرین ہائوس آپ کو فوراً جپھی ڈالتا ہے کہ یہ ٹروپیکل فاریسٹ کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ کون سا پودا ہے، جو یہاں نظرنہیں آتا۔Malabar Chestnut Tress کی تو اپنی ہی ایک شان تھی۔ فوّارے میں ناچتی پھرتی مچھلیاں کہیں خود کو اور کہیں دیکھنے والوں کو لُبھاتی تھیں اور کچھوے ہر سائز کے، چھوٹے بڑے کہیں پتھروں پر، کہیں پانیوں میں پُھدکتے پھر رہے تھے۔ پانیوں کے موتی اُچھلتے، تو آنکھوں کو بھلے لگتے تھے۔ اِس گل زار میں چہل قدمی کرنے اور تالاب کے کنارے بیٹھنے سے قبل ہم نے ٹکٹ کا جھنجھٹ نمٹانے کا سوچا۔

ملحقہ وسیع وعریض کمرے میں مختلف کائونٹرز کے سامنے مختلف جگہوں کے لیے جانے والی قطاروں سے ہوتےہوئے غرناطہ والی لائن میں جا کھڑے ہوئے۔سچّی بات ہے، اللہ یا تو ہمیں ہدایت دے کہ ہم جو انگلش مینیا میں سَر سے پَیر تک غرق ہیں، اپنے بچّوں کے منہ سے مادری زبان چھین کر انہیں اِس گٹ مٹ کی چکّی میں پیسنے میں ہلکان ہورہے ہیں۔ یا پھر یورپی یونین کے ممالک کو اوپر والا تھوڑی سی عقل دے دے کہ وہ بھی زیادہ نہیں، بس تھوڑی سی اس بدبخت سے آشنائی کرلیں، تاکہ کاغذوں پرالٹی سیدھی تصویریں بنانے، باڈی لینگویج سے سارے وجود کو ہلانے، گلا پھاڑنے، آنکھیں مٹکانے اور ہاتھوں کو لہرانے سے بے چارے پردیسیوں کو نجات مل جائے۔

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور (قسط نمبر 2)
تین سہیلیاں، تین ہم سفر

ہم Granada Granada کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ان کے تلفظ میں Nاور Dکی آوازوں کو بہت لم لیٹ کردیا گیا تھا۔ ادھیڑ عمر کا مرد، جو چیز ہمیں سمجھانے کی کوشش میں ہلکان ہورہا تھا، وہ تھی کہ غرناطہ تک کوئی گاڑی سیدھی نہیں جائے گی، Antequera سے آگے بس لینی ہوگی۔ بہرحال، بہت دیر اس کا بھیجا چاٹنے اور بہت سے ہم راہیوں کی رضاکارانہ کاوشوں کے نتیجے میں یہ سمجھ آیا کہ وہاں تک ریلوے ٹریک نہیں ہے۔تو پھر کیا ہوگا؟ ‘‘آپ کو آم کھانے سے غرض ہے کہ گُٹھلیاں گننے سے۔ ارے بھئی، غرناطہ جانا ہے آپ کو۔ 

یہ آپ کو وہاں پہنچائیں گے۔ اب یہ ان کی مرضی کہ گھوڑوں، گدھوں، خچروں پرلے جائیں یا بسوں، ٹرین، ہوائی جہاز پر۔ یہ دردِسری اُن کی ہے، آپ کی تو نہیں۔‘‘ ہماری کوڑھ مغزی پر ایک جوڑے نے ہمیں سمجھایا۔‘‘فی کس 82.90یورو ادائی کے بعد گاڑی صبح 9.35پر چلے گی۔‘‘ ‘‘9:35ڈپارچر ٹائم‘‘ کسی غبی بچّے کی طرح دُہراتے ہم باہر نکل آئے تھے۔ مچھلیوں اور مینڈکوں کو دیکھا جائے۔ کچھ کھایا پیاجائے۔ تھوڑی دیر بیٹھا جائے یہاں، اس وقت بارہ بج رہے ہیں۔ شہر کا دورہ کرنے والی بس ‘‘ہوپِ ان، ہوپ آف کا‘‘ فائدہ نہیں۔ آدھی دیہاڑی باقی رہ گئی ہے۔ اس تجویز پر کوئی مخالف رائے سامنے نہیں آئی۔ سب کام کیے۔ سوائے کھانے پینے کے کہ بقیہ دونوں کا کہنا تھا۔ ‘‘ابھی ناشتا ہضم نہیں ہوا۔‘‘بروشرز سے تھوڑی سی مزید معلومات بھی حاصل ہوئیں کہ بے چارہ ریلوے اسٹیشن القاعدہ کے عتاب کا بھی نشانہ بن چکا ہے۔ اب یہ حقیقتاً القاعدہ کی کارروائی تھی یا اس پر ملبہ ڈالا گیا تھا، اللہ بہتر جانتا ہے۔

واقعہ تھا، اسپین کے جنرل الیکشن سے صرف تین دن پہلے کا۔ 192لو گ تو سیدھے سیدھے موت کے منہ میں گئے، جب کہ 50کے قریب زخمی ہوئے۔ پہلے تو ایک دوسرے کو پھٹکارا گیا۔ مُلک کی دونوں سیاسی پارٹیوں یعنی اسپین سوشلسٹ ورکرز پارٹی اور پارٹیڈو پاپولر کے درمیان الزام تراشی اور دشنام طرازی کا جی دار مقابلہ ہوا، مگر چنددنوں بعد توپوں کا رُخ علیٰحدگی پسندوں Euskadi Ta Askatasuna (ETK)کی طرف موڑ دیا گیا۔ بعدازاں، القاعدہ کو گھسیٹ لیا گیا کہ پی پی نے عراق میں فوجی بھیجے تھے، جسے پورے اسپین میں انتہائی ناپسندیدہ ٹھہرایا گیا تھا۔ جب بم دھماکا ہوگیا، تو احتجاجیوں نے جلوس نکالے اور مطالبہ کیا کہ ہمیں جواب دو اور سچ بتائو کہ بیچ میں مسئلہ کیا ہے؟اکیس ماہ بعد عدالت تو القاعدہ کے ملوث ہونے کو بھی ثابت نہ کرسکی یہ اور بات ہے کہ تنقید کی سان پر وہ چڑھی رہی۔تو سوچا کہ چلو اب یادگار کو بھی دیکھ لیتے ہیں کہ دو چھلانگیں مارو اور اس کے ویہڑے میں اُتر جائو، والی بات ہے۔ چلو ان بدنصیبوں، اُن معصوموں کو یاد کرآئیں، جو بے چارے یونہی مفت ہی میں بڑے لوگوں کی ایسے ہی خودغرضیوں اور نفرتوں کا ایندھن بن گئے ہیں۔ کون جانے کتنی تمنّائوں سے گھروں سے نکلے ہوں گے یا گھروں کی طرف آتے ہوں گے۔ کون جانے کِس کے دل میں کیا تھا۔ کتنے منصوبے، کیسے کیسے ارمان، خواب اور خواہشیں سب جیسے پلک جھپکتے میں راکھ ہوگئیں۔ رہے نام تیرا میرے مولا۔گردن اٹھا کر اُس بلندوبالا دیو ہیکل ٹائپ سیلنڈر کو دیکھا، جس پر مرنے والوں کے نام لکھے تھے۔ 

کھڑکیوں، دیواروں پر عام لوگوں کے متحرک پیغامات نے بھی متاثر کیا، جو حملے کے بعد یہاں آئے اور انہوں نے اپنے دُکھ اور کرب کا اظہار کیا۔سچ تو یہ ہے کہ آٹوچہ ریلوے اسٹیشن ایک آرٹ گھر، فطرت کا شاہ کار،ایک جنگل، گہماگہمی سے بھرا، شورمچاتا ایک ایسا مقام ہے، جہاں کھانے پینے کی خوشبوئیں دامنِ دل کو کھینچتی تھیں۔ جہاں سے اِس جہاں کی دوسری دنیائوں میں جانے کا اِذن ملتا ہے۔

یہاں سے باہر نکلے، تو ہلکی ہلکی رم جھم کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ سڑک کی سیاہی پانی کے ذرا سے چھڑکائو سے زیادہ نمایاں ہوگئی تھی۔ اب ہم میٹرو کے بھنوروں میں پھنسنے کو مضطرب اور سیمابذریعہ ٹیکسی گھر چلنے کو بے قرار۔ ‘‘چل چھوڑ میٹرو کو۔ کِسی بس پر چلتے ہیں۔‘‘اس نے ایک زوردار دھپّا میری کمر پر لگایا اور بولی۔‘‘سیدھی طرح چل۔ ابھی پہلی بونی کاتی ہے۔ بارہ دن رہنا ہے۔ خجل خواری کے سارے شوق پورے کرلینا۔‘‘

بھئی، بڑی ہی نظم و ضبط والی قوم ہے۔ ہماری طرح تھوڑی کہ جہاں کھڑے ہیں، وہیں سے گزرتی کسی ٹیکسی کو ہاتھ دے کر روک لو۔ ٹیکسی کے حصول کے لیے اسٹینڈ پر جاکر لائن میں لگنا تھا۔جہاں نمبر سے ٹیکسی آتی ہے۔ میں تو مزے سے آرٹ کے اُن دو معصوم بچّوں کے مجسّموں کے قریب دَھری بینچ پر بیٹھ گئی۔ خُوب صُورت موسم کی رعنائیاں چہار سُو بکھری ہوئی تھیں۔ کچھ دیر بعد جب وہ میرے پاس سے گزر کر آگے بڑھنے لگیں، تو جاکر اُن کے ساتھ شامل ہوگئی۔ہوٹل میں یہ بڑی اچھی بات تھی کہ چائے کا پورا انتظام تھا۔ خُوب صُورت ٹرے میں سجی الیکٹرک کیٹل،کپ، ٹی بیگز اور چینی کے ساتھ موجود تھی۔ ٹی بیگز کو باریک بینی سے چیک کیا گیا۔ پھر نئی یاری کی بجائے پرانی دوستی کو ترجیح دیتے ہوئے ‘‘لپٹن زندہ باد‘‘ کہا اور اپنے پیارے پاکستان سے لائی پتّی، دودھ نکال لیا۔ 

سیما جیسی سُگھڑ خاتون چائے بنانے میں مصروف تھی۔ میں نے کمرے کی اکلوتی کھڑکی کی چہرہ کشائی کی۔ سامنے اسی کی کرنوں سے آنکھیں چار ہوئیں۔مگر چند لمحوں کی روکھی پھیکی دید کے بعد پردہ کھینچ دیا۔ اِس ڈر سے کہ اگر کسی نے سیاہ جنگلے والی بالکونی میں آکر یہ گانا شروع کردیا کہ؎ ‘‘میرے سامنے والی کھڑکی میں اِک چاند سا چہرہ رہتا ہے۔‘‘ہائے میرے اور مہرالنساء کے لیے تو ڈوب مرنے والی بات ہوگی۔ ہاں، البتہ سیما کے لیے کچھ ٹھیک ہے۔ چلو چودہویں کا نہ سہی کہ اب چاند ڈھلنے والی منزل میں ہے۔ ہاں،آخری شب کی دسویں، گیارہویں والی بات تو ابھی بھی ہے۔

اپنے اپنے بستروں پر بیٹھ کر اِس اجنبی،حقیقتاً بہت اپنے اپنے سے دیس کے اِس خُوب صُورت کمرے میں چائے پینے اور گپیں مارنے کا شغل بڑا دل چسپ تھا۔ ہائے زندگی کے یہ لمحے کتنے حسین ہیں؟سیما الحمرا کے ٹکٹوں کے لیے کِس قدر مضطرب تھی۔ اِس کے بارے میں اگر سچ لکھوں، تو سچّی بات ہے، وہ یاوہ گوئی کے زمرے میں شمار ہوگا، مگر حقیقت یہی تھی کہ اس کا مرمّت شدہ دل جیسے الحمرا میں پھنسا پڑا تھا۔تو اٹھو، گھومنے نکلیں اِس شہرِ دل رُبا میں، جو اسپین کا اگر دل نہیں، تو جگر ضرور ہے۔ جس کے اندلیسی حصّے میں ہماری ملّی اور تہذیبی نال گڑی ہوئی ہے۔ جب باہر نکلے اور گلی کا پہلی بار ناقدانہ جائزہ لیا، تو احساس ہوا کہ یہ حسینہ تو بالکل کسی پہاڑی درّے کی مِن و عَن تصویر ہے۔ دو رویہ بلندوبالا عمارات کے نرغے میں پھنسی ہوئی۔ تھوڑا سا ہی چلنے پر مرکزی شاہ راہ کے بھرئیے میلے میں آگئے۔

بلندوبالا جگمگاتی عمارتیں، ہر عمارت اپنی تعمیری ساخت کے اعتبار سے منفرد۔ سٹرکوں پردھواں دھار قسم کی ٹریفک، مگر سب قاعدے طریقے میں سمٹی ہوئی۔ شتر بے مہار والی کیفیت کا کوسوںتک نام و نشاں نہ تھا۔سب لینز چھوٹے چھوٹے کھوکھوں سے سجی تھیں، جہاں ایشیائی اور افریقی ممالک کے کالے اور گہیواں رنگ کاروبار سجائے بیٹھے تھے۔Plaza Del Callaoکے میدان میں آکر شیڈ کے نیچے بچھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ یہ میڈرڈ کی مشہور مرکزی مصروف ترین جگہ تھی۔ سامنے سنیما ہائوس تھا۔ بڑی سی اسکرین پر اشتہارات چل رہے تھے۔‘‘چلو فلم دیکھ لیں۔‘‘ ہم نے تجویز دی۔سیما نے ہنکارہ بھرا،‘‘پلّے کچھ لفظ نہیں پڑے گا۔‘‘جس اسکوائر میں بیٹھے تھے۔ اس کے بارے میں پتا چلا تھا کہ پچھلی صدی میں یہاں بڑی خوف ناک جنگ ہوئی تھی۔ بڑی تباہی ہوئی تھی۔‘‘تو ہوئی ہوگی بھئی، اب کیا کریں۔ جنگیں تو ہوتی چلی آئی ہیں اور آگے بھی ہوتی رہے گی۔ اس تھڑدلے بندے کے پاس طاقت آجائے، تو اسے کون لگام ڈالے۔

یہاں تصویریں بنائیں اور کھانے کے لیے دکانوں میں جھانکنا شروع کردیا۔ ایک جگہ دل ٹھکا۔ دُکان تو بس چھوٹی سی تھی۔ پر کیا کمال کے پیزے، کہیں اندر لگی برقی بھٹّی میں سے نکل نکل کر سامنے آرہے تھے۔ راہ گیروں کے منہ میں پانی بھر رہا تھا۔ تو بھلا ہمارے منہ میں نہ آتا، جو بھوکے تھے۔ویجی ٹیبل پیزا۔ تین بار دُہرانے اور پوری تشفّی کرنے کے بعد اندر آگئے۔ اُف کرسیاں اتنی اونچی، جیسے ہمالیہ کی سہیلیاں ہوں۔ ہائے ان پر کون بیٹھے گا؟ بھئی، ہم بڈھیاں تو اب پُھدکنے اور اُچکنے کا خطرہ مول لینے کی حالت ہی میںنہ تھیں کہ اِن گٹّے گوڈوں کی سلامتی کے لیے راتوں کے اندھیروں میں چپکے چپکے اٹھ کردعائوں کے ڈھیر لگائے تھے، لیکن خداکاشُکریہ جانگسل سا مرحلہ کسی نہ طرح طے ہو ہی گیا۔ پیزا اتنا گرما گرم اور مزے کا تھا کہ اُسے اِس پہاڑ جیسی اونچی میز کرسی ہی پربیٹھ کر کھایا جاسکتا تھا۔

پلازا دی سانتا اینا میں اسپین کے انقلابی شاعر، گارشیالورکا کو دیکھا۔ اسکوائر کے عین وسط میں گرینائٹ کے چھوٹے سے چبوترے پر کھڑا ہاتھوں میں یقیناً فاختہ پکڑے اُسے اُڑانے کی کوشش میں نظر آرہا تھا۔ گارشیا لورکا سے کوئی شناسائی نہیں تھی۔ آنے سے قبل انٹرنیٹ پر پھولا پھرولی میں کچھ نام اسپین کے حوالے سے ابھر کر سامنے آئے تھے، مگر کہیں جانے سے قبل پھوہڑ اور بے سلیقہ قسم کے لوگ جو تماشے کرتے ہیں، میرے ہاں بھی ویسے ہی مناظر تھے۔ افراتفری اور بھاگ دوڑ کے چکّروں میں گارشیا لورکا نام بھی کہیں دَب دبا گیا ہوگا۔ مگرخُوب صُورت، بلندوبالا عمارتوں کے جلو میں اِس اسکوائر میں اُسے ایک دل کش انداز میں دیکھنا بڑا حسین اور پُرکشش تجربہ لگا تھا۔ اِردگرد بنے کھوکھوں میں سے کچھ کتابوں اور رسائل سے بھی بھرے ہوئے تھے۔ 

وہاں بیٹھ کر دیکھنے سے اس کی چند ترجمہ شدہ نظموں پر مشتمل کتاب نظر آئی، تو خریدے بِنا نہ رہ پائے۔ بائیو گرافی بھی تھی، اتنی ضخیم کہ اُسے خریدنا مشکل تو نہ تھا، مگر اٹھانا دشوار تھا۔ سچی بات ہے۔ ایک پُررونق شہر کی رات اپنی توانائیوں کے ساتھ جوان تھی۔ بروشرز پر بنے نقشے سمجھ سے بالا تھے۔‘‘دفع کرو۔ دیکھواور لُطف اُٹھائو۔ دائیں بائیں چلو پھرو۔ جو سمجھ آئے ٹھیک، جو نہ پلّے پڑے اسے گولی مارو‘‘ رات خُوب صُورت ہے۔ جوان ہے، حسین ہے۔ حُسن ورعنائی سے بھرے پُرے نظاروں میں پورپور ڈوبی ہوئی ہے۔ گلیوں، بازاروں، دکانوں میں گھومتے ونڈو شاپنگ کرتے اس دنیا اور اس کے رنگ ڈھنگ دیکھتے، جب تھک کر چُور ہوگئے، تو اسی دکان پر آکرپیزا کھایا اور گھر لوٹ آئے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین