• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر مختلف حلقوں کی مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ حامی حلقے حکومت کے ’’عظیم کارناموں‘‘ کو اُجاگر کر رہے ہیں جبکہ مخالف حلقے حکومت کی ’’عظیم تباہ کاریوں‘‘ سے دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں لیکن کچھ حلقے ایسے بھی ہیں، جو ان کاموں کے بارے میں لوگوں کو ابھی سے سوچنے اور بحث کرنے کی دعوت دے رہے ہیں، جو حکومت اصلاحات کے نام پر آئندہ کرنے جا رہی ہے۔ جی ہاں! لوگ دو سال میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ابھی تین سال باقی ہیں۔ ان تین سالوں میں بڑی اصلاحات کا حکومت نے عندیہ دے دیا ہے۔ اگلے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پی ٹی آئی حکومت کے ’’عظیم کارناموں‘‘ کو سادہ الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ پہلا کار نمایاں کورونا (کووڈ ۔ 19) کی وبا پر کنٹرول ہے اور دوسرا کارِ نمایاں معیشت کی ترقی اور استحکام ہے۔ صدر مملکت نے وزیراعظم عمران خان کے اس وژن کی تعریف کی کہ اُنہوں نے کورونا کی وبا کے دوران مکمل لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہیں کیا۔ صدر مملکت نے اسے طارق بن زیاد کے کشتیاں جلانے والے وژن سے تعبیر کیا اور کہا کہ ’’شاید ‘‘ دو اسباب کی بنیاد پر اللہ پاک کی غیبی مدد سے وزیراعظم کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ صدر مملکت کے مطابق ایک سبب تو یہ تھا کہ مکمل لاک ڈاؤن کرکے وزیراعظم نے غریبوں کے روزگار کو بچایا اور دوسرا سبب احساس پروگرام کے تحت غریبوں کی بروقت امداد تھی۔ صدر مملکت نے ’’شاید‘‘ کا لفظ شاید اس لیے استعمال کیا کہ کچھ کریڈٹ وزیراعظم عمران خان کو بھی جائے۔

معیشت کی ترقی اور استحکام کے حوالے سے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے حکومت کے جس فیصلے کی تعریف کی، وہ کنسٹرکشن انڈسٹری کو دی گئی مراعات اور اس صنعت کی بحالی ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کے کیا نتائج نکلے ہیں؟ رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبوں سے وابستہ افراد کیا محسوس کر رہے ہیں؟ ’’شاید‘‘ اس حوالے سے صدر مملکت کو نہیں بتایا گیا ہے۔

جو ہواسو ہوا۔ جو ہونے والا ہے، اس کی فکر کرنی چاہئے۔ پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کے گورننس سسٹم میں بڑی اصلاحات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلا فیصلہ مینجمنٹ پوزیشن (ایم پی) اسکیلز پالیسی 2020ء کے نفاذ سے کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دو ماہ قبل ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے، جس کے مطابق وزارتوں، ڈویژنز، خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے پرائیویٹ اداروں سے قابل افراد اور ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ وزارت خزانہ انفرادی طور پر طے کرے گی کہ کس کو کتنی تنخواہ اور مراعات دی جائیں گی۔ اس پالیسی سے پاکستان کے انتظامی اور تکنیکی شعبوں کے افسران اور ماہرین بے یقینی کا شکار ہیں۔ وہ بھی کوئی بڑی ذمہ داری یا قائدانہ کردار ادا کرنے کی بجائے پرائیویٹ شعبے کے ماہرین کی طرح صرف ان اداروں میں کام کرنے کو ترجیح دیں گے، جہاں کام کی وضاحت (جاب ڈسکرپشن) ہے۔ ذمہ داریاں محدود اور پیسہ بہت زیادہ ہے۔ یہ تجربہ محدود پیمانے پر پہلے سے ہو رہا ہے۔ میں نے سندھ میں دیکھا ہے کہ انتہائی قابل اور سینئر سرکاری افسران سیکرٹری، کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کا عہدہ لینے کی بجائے حکومت کے فنڈز سے چلنے والے پروجیکٹس اور کمپنیز میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ ان پروجیکٹس اور کمپنیز میں ذمہ داریاں محدود ہیں اور کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہے۔ تنخواہ اور مراعات بھی زیادہ ہیں۔ اتنے پیسے مل جاتے ہیں کہ ’’کرپشن‘‘ کرنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس سسٹم نے سویلین گورننس کو انتہائی کمزور کر دیا ہے۔ پاکستان کی سول سروس پر ایک کاری ضرب پرویز مشرف نے لگائی تھی۔ اب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

پی ٹی آئی کی حکومت دوسرا فیصلہ یہ کرنے جا رہی ہے کہ وفاقی اداروں بشمول پاکستان ریلوے، ایف بی آر، سول ایوی ایشن اتھارٹی کو دیگر چھوٹے چھوٹے اداروں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یعنی پاکستان ریلوے کے آپریشن کا الگ ادارہ ہو۔ ٹیکنیکل شعبہ الگ ہو، پٹریاں بچھانے اور ان کی دیکھ بھال کا ادارہ الگ ہو وغیرہ وغیرہ ۔ادارے کو ایک پرائیویٹ شعبے کا ماہر بطور سی ای او چلائے۔ جو حکومت گزشتہ دو سال سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک سربراہ کا تقرر نہیں کر سکی، وہ کئی اداروں کے سربراہ کہاں سے لائے گی۔ واپڈا کو کئی اداروں میں تقسیم کرنے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اس بات پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ ایسی اصلاحات کے کیا نتائج ہوں گے ۔

ایک اور بڑے فیصلے کے تحت سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کر دی جائے گی اور ان کی پنشن ختم کر دی جائے گی۔ اس سے پاکستان میں شاید گورننس تو بہتر نہیں ہو گی لیکن سوشل سیکورٹی کا ایک عظیم نیٹ ورک تباہ ہو جائے گا۔

اصلاحات ضرور کی جائیں لیکن سیاسی وژن اور تاریخ کے ادراک کے ساتھ کی جائیں۔ سب سے پہلی اصلاحات (ریفارمز) تو یہ ہونی چاہئیں کہ سیاست دان اپنی اہلیت اور قابلیت میں اضافہ کریں۔ سیاست دان دو سال بعد یہ نہ کہیں کہ ہمیں مافیاز کے کام کے طریقہ کار کے بارے میں پتہ ہی نہیں تھا۔ سیاست دان کسی کے سہارے کی بجائے عوام سے تعلق اور اپنے تدبر اور قابلیت کی بنیاد پر آگے جائیں۔ دوسری اصلاحات یہ کی جائیں کہ ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی طرح تمام وزارتوں، محکموں اور اداروں میں فیصلہ سازی والے اہم عہدے حکمران جماعت کی صوابدید کے مطابق پر کیے جائیں۔ جیسے ہی کوئی حکومت جائے، وہ عہدے خالی ہو جائیں اور نئی حکومت انہیں پر کرے۔ حکومت ان پر نجی شعبے کے ماہرین کا بھی تقرر کر سکتی ہے یا اپنی سیاسی جماعت کے ان لوگوں کا تقرر کر سکتی ہے، جنہوں نے ان شعبوں میں مہارت حاصل کی ہو ۔ پوری گورنمنٹ کو ’’پرائیویٹائز‘‘ یا ’’کارپوریٹائز‘‘ کرنے یا حکومت کے خرچ پر بنائی گئی کمپنیوں کے حوالے کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پی ٹی آئی کی حکومت سویلین گورننس کے سسٹم کے بارے میں کوئی بڑے فیصلے کرنے سے پہلے سیاسی قوتوں سے مشاورت ضرور کرے ۔

تازہ ترین