• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقوام متحدہ کے ایشیا اور ایشیا پیسیفک کے لیے معاشی اور سماجی کمیشن (اسکیپ) نے اپنی سروے رپورٹس دنیا بھر میں 35 مقامات پر 18اپریل 2013کو جاری کیں۔مذکورہ سروے کی دستاویز خطے کے ممالک کے لیے اہمیت کی حامل ہے تاکہ وہ اپنی کارکردگی کا آزادانہ جائزہ لے سکیں، ساتھ ہی دنیا کی دوسری اقوام کو بھی یہ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ دنیا کے اس سب سے زیادہ متحرک خطے میں کیا ہورہاہے۔ لہذا اس خطے میں پالیسی سازوں اور معاشیات کے طلبہ کے لیے یہ دستاویز پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
مذکورہ سروے میں ایشیا پیسیفک خطے کی معیشتوں کے سال 2012کا جائزہ لے کر 2013کے لیے عالمی مالیاتی بحران کی پیشنگوئیاں کی گئی ہیں۔ خطے کی مجموعی قومی پیداوار 2012میں کمی کے ساتھ 5.6فیصد رہی جبکہ رواں برس یہ پیداواری شرح 6فیصد رہے گی 2010-11 میں یہ شرح 7.8رہی جبکہ 2002-07 کے قبل از مالی بحران کے دور میں خطے کی پیداواری شرح 7.8 فیصد رہی تھی۔ 6 تا 6.5 فیصدکی سست شرح پیداوار خطے میں معمول کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ جس کے نتیجے میں 2017تک پیداواری مد میں خطے کے 13کھرب ڈالر ضائع ہونے کا امکان ہے۔ یہ سب بہت پریشان کن ہے کیونکہ پیداواری شرح میں کمی اس وقت ہورہی ہے جبکہ سوا ڈالر کمانے والے 80کروڑ عوام جوکہ دنیا کی غریب عوام کا دوتہائی حصہ بھی ہیں، زندگی کے مصائب سے نبرد آزما ہورہے ہیں۔ رپورٹ میں خطے کی سماجی ترقی اور مستحکم معاشی پیداوار کے حوالے سے دلچسپ حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ خطے میں معاشی ترقی کے گزشتہ تین دہائیوں کے ثمرات کروڑوں غریب عوام تک نہ پہنچ سکے۔ حالانکہ خطے میں مستحکم معاشی ترقی کے باعث 70کروڑ غریب افراد کی غربت کا خاتمہ ہوا،تاہم ابھی بھی 80کروڑ افراد گھروں سے محروم ہیں، 56کروڑ 30لاکھ افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے اس کے علاوہ 1 ارب افراد کو معقول روزگار دستیاب نہیں ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ برس جون میں برازیل میں ہونیوالے اجلاس میں ترقی کے ایجنڈے میں تبدیلیاں متعارف کرائی گئی تھیں جس میں معیشت کلاں کی پالیسیوں کے تصور میں پیداواری شرح میں اضافے کے ساتھ مساوات، سماجی ترقی اور ماحولیات کا تحظ شامل تھا۔ اجلاس میں معیشت کلاں کی پالیسیوں میں تبدیلیاں لاکر ملازمتوں میں اضافے کیلئے بھی زور دیا گیا تھا۔ آگے بڑھنے والی پالیسیاں کون سی ہیں؟
آئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی معیشت کلاں کی روایتی پالیسیوں کا محور بجٹ خسارے میں کمی رہا ہے۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک ترقی کے وسیع تر اہداف کے حصول اور استحکامی اہداف کے مابین گومگو رہتا ہے۔ کئی ممالک اپنی سماجی ترقی کی قربانی دے کر اپنی معیشتوں کو استحکام دینے میں کامیاب رہے ہیں، جس میں تعلیم، صحت اور انفرااسٹرکچر کے بجٹ میں کٹوتی شامل ہے۔ تاہم افراطِ زر اور بجٹ خسارے کے اہداف حاصل کرنے کیلئے ترقیاتی اہداف کو کو داوٴ پر لگانا طویل مدت میں معیشت کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ایشیا پیسیفک خطے کے معاشی چیلنجز کی روشنی میں یہ تعین کیا جاسکتا ہے کہ ترقی پسند معیشت کلاں کی پالیسیاں معاشی استحکام اور سماجی ترقی میں بہترین توازن کی عکاس ہوتی ہیں۔
معیشت کلاں کی پالیسیاں پیداواری شرح میں اضافے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا موجب ہونی چاہےئں۔ ان پالیسیوں میں اقتصادی غیر ذمہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ اس میں ایک جانب تو عوامی مفاد کے منصوبوں کی اہمیت پر زور دیا جانا چاہیے تو دوسری جانب ٹیکس اور تخمینوں میں اصلاحات کے ذریعے ڈومیسٹک ریسورس موبلائزیشن ہونی چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مالی تصفیے کی حدود کامعاملہ ہے۔ اسی طرح زری پالیسی میں بھی سمت کی زیادہ احتیاط کے ساتھ چھان بین کی جانی چاہیئے۔ مختصراً مالی اور زری پالیسی کا مقصد جامع ترقی ہونا چاہیے جو کہ انسانی تحفظ کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ ماضی میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جن ممالک نے معیشت کلاں پالیسیوں میں ترقیاتی پہلووٴں کو نظر انداز کیا انہیں اسکی معاشی بحالی کی صورت میں عظیم سماجی و انسانی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ سروے خطے کی معیشت کلاں کی پالیسیوں کا جائزہ لینے کا مطالبہ کرتا ہے جس کے تحت قلیل مدتی توجہ طلب معاشی مسائل اور طویل مدتی ساختیاتی رکاوٹوں کو عبور کرکے جامع ترقی کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔ اسکیپ سروے ان ترقی پذیر ممالک کیلئے مشعل راہ ہے جو اپنی نادار عوام کی سماجی ترقی کو داوٴ پر لگائے بغیر معاشی پیداوار میں اضافے کے خواہاں ہیں۔
تازہ ترین