• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں عثمان بزدار کی ’’ٹیکا حکمرانی‘‘

اسلام آباد (انصار عباسی) پنجاب میں 2021ء میں ممکنہ طور پر بلدیاتی انتخابات کرانے کی اطلاعات کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب صوبے میں ایسی انتظامی تبدیلیاں کر رہے ہیں جس کی وجہ سے کئی لوگ پریشان نظر آتے ہیں۔

جس وقت سی سی پی او لاہور کے تقرر کا تنازع ابھی طے نہیں ہوا، عثمان بزدار نے طاہر خورشید کو سیکریٹری لوکل گورنمنٹ لگا دیا ہے خورشید کو چیئرمین وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم (سی ایم آئی ٹی) کا اضافی چارج بھی دیا ہے جو صوبائی چیف ایگزیکٹو کے ماتحت تمام محکموں کی نگرانی کرنے والی ٹیم ہے۔ طاہر خورشید وہ افسر ہیں جو آشیانہ ہائوسنگ اسکیم میں شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کیخلاف نیب کے سلطانی گواہ بن گئے تھے۔

عمومی طور پر چیئرمین سی ایم اآئی ٹی کو مفادات کے تضاد سے بچنے کیلئے کوئی ایگزیکٹو چارج نہیں دیا جاتا۔ لیکن اس کیس، یعنی سیکریٹری لوکل گورنمنٹ بنائے جانے کے کیس میں ان کی پہنچ پورے صوبے تک ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بلدیاتی حکومتوں کے محکمے پر سی ایم آئی ٹی کی مانیٹرنگ نہیں ہوگی۔

نئے مقرر ہونے والے سیکریٹری طاہر خورشید کمشنر ڈی جی خان بھی رہ چکے ہیں، اس کے بعد انہیں سیکریٹری سی اینڈ ڈبلیو لگایا گیا تھا، جو صوبائی حکومت میں انتہائی پرتعیش محکمہ ہے۔ ذرائع کے مطابق، اب چونکہ طاہر خورشید سیکریٹری لوکل گورنمنٹ ہیں تو وہ پنجاب کی تمام بلدیاتی کونسلوں کے سربراہ ہیں۔

انہوں نے حیرانی ظاہر کی کہ اگر وہ خود ہی تمام ایڈمنسٹریٹرز کی نگرانی کریں گے تو وہ کیسے چیئرمین سی ایم آئی ٹی کی حیثیت سے بلدیاتی کونسلز کے معاملات کی نگرانی کریں گے؟ کہا جاتا ہے کہ صورتحال زیادہ اس لیے بھی مشکوک ہوگئی ہے کہ پنجاب میں منتخب بلدیاتی کونسلز نہیں ہیں جبکہ سرکاری ملازمین اور بیوروکریٹس کو پی ٹی آئی حکومت نے ’’ایڈمنسٹریٹر‘‘ لگا رکھا ہے۔ تمام بلدیاتی سروسز جیسا کہ سالڈ ویسٹ، اسٹریٹ لائٹس، سیوریج، سڑکیں، بلڈنگ کنٹرول، لینڈ یوُز، ریگولیٹری پاورز، مہنگی شہری جائیدادیں ان سرکاری ملازمین کے کنٹرول میں ہیں جنہیں موجودہ حکومت نے ایڈمنسٹریٹر لگا رکھا ہے۔

اپنی اس حیثیت میں یہ ایڈمنسٹریٹرز سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کو رپورٹ پیش کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خورشید تقریباً روز ہی شام دیر سے وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کرتے ہیں۔ گزشتہ سال جب وزیراعظم نے نئے چیف سیکریٹری اعظم سلیمان اور آئی جی شعیب دستگیر کو تعینات کیا تھا اور انہیں پنجاب ایڈمنسٹریشن میں صفائی کا مینڈیٹ دیا تھا، طاہر خورشید کو اس وقت فوری طور پر ہٹا کر نظرانداز کیا گیا تھا۔

بعد میں طاہر خورشید نے اپنی واپسی کی راہ ہموار کی اور طاقتور عہدہ حاصل کیا جبکہ اعظم سیلمان اور شعیب دستگیر کو ہٹا دیا گیا۔ شرائط کار کے تحت سی ایم آئی کا مینڈیٹ یہ ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر اختیارات کے ناجائز استعمال، بد انتظامی، خراب طرز حکمرانی کی شکایات کی انکوائری کرتی ہے۔ اسی دوران کچھ اچھی ساکھ کے حامل پیشہ ور پولیس افسران کو آئی جی اور سی سی پی او کے ذریعے پنجاب سے باہر تعینات کر دیا گیا ہے۔

جن دو افسران نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں سرنڈر کیا وہ سی سی پی او کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔ گریڈ 21؍ اور 20؍ کے جن دو افسران کو وفاق کی طرف واپس بھیجا گیا وہ بی اے ناصر اور ذوالفقار حمید تھے۔ مسٹر ناصر ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اسٹیبلشمنٹ اور مسٹر حمید ایڈیشنل آئی جی آپریشنز کے طور پر کام کر رہے تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، صوبائی حکومت کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دونوں افسران کو پنجاب میں زیادہ عرصہ تک قیام کی وجہ سے ٹرانسفر کیا گیا ہے۔ ان اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ انہی بنیادوں پر ان کے تبادلے کی باتیں چل رہی ہیں اور حکومت دیگر صوبوں سے ان کے متبادل تلاش کر رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت کم از کم 50؍ پولیس والوں کی حالیہ سرگرمیوں سے خوش نہیں تھی کیونکہ انہوں نے سی پی او آفس میں اجلاس بلایا تھا اور سی سی پی او عمر شیخ کیخلاف ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے سی سی پی او کیخلاف ایک مسودہ تیار کیا تھا اور سابق آئی جی پولیس شعیب دستگیر کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ انگریزی اخبار ڈان نے اپنی اتوار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کچھ افسران کے حوالے سے کہا ہے کہ مذکورہ دو افسران کا تبادلہ سیاسی بنیادوں پر ہوا ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ پہلے ہی پنجاب میں سینئر افسران کی قلت ہے اور پنجاب میں ایڈیشنل آئی جیز کی 18؍ میں سے 13؍ نشستیں بھری ہیں۔ ایک سینئر سرکاری ملازم، جنہوں نے پنجاب میں بہت کام کیا ہے، جن دونوں پولیس افسران کو پنجاب سے باہر ٹرانسفر کیا گیا ہے انہیں پی ایس پی سروس میں مثالی کردار سمجھا جاتا ہے۔

ذریعے نے پنجاب میں ایک افسر کی جانی پہچانی ساکھ کو ’’ٹیکا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح وزیراعلیٰ پنجاب صوبے میں بیوروکریسی چلا رہے ہیں اسے بہترین انداز سے اگر بیان کیا جائے تو اسے ’’بزدار کی ٹیکا حکمرانی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔

تازہ ترین