• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور (قسط نمبر7)

ہم دونوں کے مقابلے میں سیما کچھ کم زور بدن اور ہڈیوں کی بیماری آسٹیو پوروسس کا شکار تھی، مگر جذبے جوان تھے۔ ہمہ وقت سفر کرنے کی دل دادہ۔اجنبی لوگوں سے بات چیت کرکے جگہوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرلیتی اور نت نئی معلومات بہم پہنچا کر ہمارے علم میں بھی اضافہ کرتی کہ فلاں جگہ کی بہت تعریف سُنی ہے، وہاں تو ضرور جانا ہے۔آج غرناطہ میں ہمارا آخری دن تھا، جسے ابنِ بطوطہ نے ’’شہروں کی دلہن‘‘ کہا۔ کل صبح دس بجے اِس خُوب صُورت تاریخی شہر کو الوداع کہنا تھا۔ صبح ناشتے کے دوران طے پایا کہ البیازین کی سیر کے ساتھ رائل چرچ اور دیگر مقامات بھی آج ہی دیکھ لیں گے۔ سیما نے چائے کا سِپ لیتے ہوئے کہا ’’Sacriomonte ضرور جانا ہے۔ فلیمنگو رقص دیکھیں گے اور ان کا گانا بھی سُنیں گے۔‘‘ اس کے پاس مختلف پیکیجز کی پوری تفصیلات تھیں، ’’28یورو میں پِک اینڈ ڈراپ سروس اور شو کے ساتھ ڈرنک بھی۔‘‘ ’’تو اگر یہ ڈرنک شراب ہوئی، جس کاننانونے فی صد امکان ہے، تو کیا کروگی؟‘‘،’’کرنا کیا ہے؟‘‘ وہ طمطراق سے بولی، ’’فخر سے کہوں گی، مسلمان ہوں، شراب نہیں پیتی۔ 

مجھے فریش اورنج جوس دیاجائے۔ البتہ، میری دونوں ساتھی بڑی لبرل ہیں، انہیں بے شک دے دیں۔‘‘،’’ہاں ہاں مسلمان تو خیر سے تم ہی ہو، ہم تو کچھ اور ہی ہیں۔‘‘ہماری باتوں کو ہوا میں اُڑا کر ہنستے ہوئے بولی، ’’اور ہاں دیکھو، 52 یورومیں کھانا اور سیرسپاٹا الگ۔‘‘،’’تم زیادہ اسمارٹ مت بنو۔ سیر سپاٹے بہت کرلیے۔ چلو اٹھائیس یورو ٹھیک ہیں۔‘‘ میں نے قصّہ ختم کرنا چاہا تو وہ بڑی اَدا سے ہاتھ نچاتے ہوئے بولی ’’بڑی دانش وَر بنی پھرتی ہیں۔ معلوم ہے، وہاں کچھ لوگ اسی پر بات کررہے تھے کہ وہ تو پہاڑیوں میں چُھپا ہوا جِم ہے۔ اور ہاں، میں نے نکولس سے بات بھی کرلی ہے۔ چلو چل کر اُسے پیسے دیتے ہیں، وہ بکنگ کروادے گا۔‘‘’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ہماری طرف سے سب ٹھیک ہے۔ اچھا ہے کا سگنل تھا۔’’ٹیکسی پکڑو۔‘‘ سیما کا نادر شاہی حکم تھا۔ اس ’’ہوپ آن، ہوپ آف‘‘ سے وہ بُری طرح تنگ آچکی تھی۔ چڑھنے، اُترنے میں اُسے بہت مسئلہ ہوتا تھا۔ خیر مسئلہ تو یہ ہمارا بھی تھا، مگر ذرا شدّت کم تھی۔

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور (قسط نمبر7)
غرناطہ میں مصنّفہ، حیدرآباد دکن کی عذرا اور سہیلیوں کے ساتھ

پہلا معرکہ رائل کیتھڈرل دیکھنا تھا، جو پہلے کبھی مسجد تھی۔ بمشکل پانچ منٹ میں ٹیکسی ایک ایسی جگہ رُکی، جہاں ایک عظیم الشّان عمارت رائل کیتھڈرل چرچ کی صورت اِستادہ تھی۔ اُسے بجائے مسجد کے، چرچ قبول کرتے ہوئے ہمارے شوق و وارفتگی میں کہیں دُکھ اور ملال کی بھی آمیزش تھی۔ پہلی نظر کیتھڈرل کے سامنے کُھلے میدان میں داہنے ہاتھ کے کونے میں چرچ کو جانے والی سیڑھیوں پر بیٹھی ایک سانولی سلونی خاتون اور پاس بیٹھی نوعُمر لڑکی پر پڑی، جو سو فی صد ماں کی جوانی کا عکس تھی۔ دونوں اپنی وضع قطع سے پاکستانی یا بھارتی لگیں۔

قریب جاکر علیک سلیک کی، تو معلوم ہوا کہ وہ عذرا ہے، حیدرآباد دکن کی عذرا۔ ثانیہ مرزا کے شہر کی اور بنگلور کی یونی ورسٹی میں فزکس کی اُستاد ہے۔ بیٹی تھیٹر سے وابستہ تھی، فلم میکنگ کے لیے امریکا جانے کا پروگرام بنارہی تھی۔ شہرئہ آفاق فلم ساز، شاعر اور ادیب گلزار کے ساتھ بھی تھوڑا بہت کام کیے بیٹھی تھی۔ ماں اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ سیر سپاٹے کے لیے آئی تھی۔ بہت محبت سے ملیں۔ بڑی بیٹی اندر جانے والی قطار میں لگی کھڑی تھی۔ مہرالنساء ٹکٹ لینے گئی۔’’کبھی یہ مسجد تھی۔‘‘ اِس کے منہ، ماتھے پر نظریں جماتے ہوئے بے اختیار ہی دُکھ بھرے لہجے میں میرے ہونٹوں سے نکلا۔ عذراکے لہجے میں بھی تاسّف کی جھلک تھی کہ ’’عبادت گاہ کسی بھی مذہب کی ہو، اس کی تکریم اور حفاظت انسانیت کا تقاضا ہے۔ بھئی، اپنے لیے نئی عبادت گاہ بنالو۔ اُسے رہنے دو۔ 

اُسے کیوں چھیڑتے ہو؟‘‘ تبھی مہرالنساء نے آکر بتایا کہ ’’تمام ٹکٹ بُک ہیں۔‘‘ بڑا ملال ہوا، جی چاہتا تھا اندر جاکر دیکھیں تو سہی، کہیں کوئی باقیات ہیں بھی یا سب نشانات تعصّب کی بھینٹ چڑھ گئے۔ عذرا نے ذرا دل داری کی کہ ’’کل کی کوشش کرلیں۔‘‘،’’ارے کل تو واپسی ہے۔‘‘ سیما نے کہا، ’’چلو اب اِس کا گردو نواح دیکھ لو۔ ساتھ ہی ریشم مارکیٹ ہے۔‘‘ سیما اور مہرالنساء دونوں خوشی سے کِھل اٹھیں۔ عذرا کو خدا حافظ کہتے چرچ سے ملحقہ گلی میں داخل ہوئے، تو وہاں جیسے رنگ و نور اور حُسن و دل کشی کا ایک طوفان امڈ آیا تھا۔ تھڑوں تک پھیلی دکانیں ہمارے یہاں کے اُس منظر کے عکّاسی کررہی تھیں کہ جب بچپن میں نذر ونیاز کی تقسیم کی صدائیں لگتیں، ’’بالو، بلونگڑو، نیانو! چِیج ونڈی دی لئی جائو۔‘‘ یہ منظر بالکل ویسا ہی معلوم ہورہا تھا۔ کیا کیا چیزیں نہیں تھیں، عورتوں کو پاگل بنانے والی سب چیزیں۔ مگر مُفتے والا کوئی سلسلہ نہیں تھا، بلکہ کھلڑی اُدھیڑنے والی بات تھی، پر لوگ تھے کہ ٹوٹے پڑرہے تھے۔ 

اُن دونوں کو اس میں اُلجھا دیکھ کر میں قرب جوار کی گلیوں میں تاکا جھانکی کرنے لگی۔ کیا حُسن تھا، جو نظروں کو گرفت میں لیتا تھا۔ تنگ گلیاں اور چھوٹی چھوٹی دکانیں، مگر شان و شوکت دیدنی تھی۔ سرسراتے، مکھن جیسے نرم اور حسین رنگوں میں لتھڑے رنگا رنگ ملبوسات کاطوفان دکانوں سے باہر امڈا پڑا تھا۔ بہرحال، یہ بات بھی مزے کی لگی کہ یہاں دکانوں پر پچاس فی صد سے زیادہ عورتوں کی حکمرانی تھی۔

مراکش کے دو لڑکوں سے ملاقات ہوئی۔ آنکھوں کی چمک، چہرے کی مسکراہٹ نے اپنائیت کا احساس دیا۔ میرے پوچھنے پر کہ کون سی چیزیں ہمیں دیکھنی چاہئیں،اُن میں سے ایک لڑکے نے جلدی جلدی ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر میری طرف بڑھادیا۔ جب واپس لوٹی دونوں اُسی دکان میں گُھسی ہوئی تھیں۔ تقریباً چالیس پچاس یورو کی شاپنگ سے دونوں کی تشفّی ہوگئی تھی۔ انہیں لدی پھندی دیکھ کر میری ہنسی نکل گئی۔ ’’اگر تشفّی ہوگئی ہو، تو دو قدیم تاریخی عمارتیں چند قدم پر ہیں، انہیں دیکھ لیں۔‘‘مارکیٹ کے بغل ہی میں قدیم اسلامی درس گاہ تھی۔ ماضی فوراً آنکھوں کے سامنے آگیا۔ زندگی کا کون سا شعبہ ایسا تھا، جس میں اُندلس کے مشاہیر نے نام پیدا نہ کیا اور دنیا کو نہ نوازا۔ دنیا کا عظیم مفکّر، فلاسفر، ماہرِ تعلیم ابنِ خلدون بھی یہیں پڑھاتا تھا۔ شہرئہ آفاق سیّاح، ابنِ بطوطہ بھی یہاں آیا تھا۔ غرناطہ کو جو خراجِ تحسین اس نے پیش کیا، وہ تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے۔ 

غرناطہ، اُندلس کے سب شہروں سے زیادہ حسین ہے۔ اس کے دریائے شنیل، باغ باغیچے اور محل باڑیوں سبھی نے بے حد متاثر کیا۔ یہ اُندلس کا دمشق، شہروں کی دُلہن ہے۔ قریب ہی ایک ویران اُجڑی ہوئی سرائے تھی، اس کے بڑے سے صحن کے گرد خالی کمرے تھے۔ چند کمروں پر دکانوں کا گمان گزرا۔ الحمرا کی چھپّر چھائوں میں بسنے والی پہلی قدیم ترین آبادی البیازین، جسے قدیم عرب کوارٹر کہا جاتا ہے۔ حُسن و خُوب صُورتی کا نمونہ، تنوّع کی وراثت کی حامل ہے، جس پر غرناطہ جتنا فخر کرے، کم ہے۔ البیازین وہ قابلِ فخر وَرثہ ہے، جو غرناطہ کا جزو بدن ہونے کے باوجود اپنی منفرد پہچان کا حامل ہے۔ اسے جب تک انسانی آنکھ سے نہ دیکھا جائے، اس کے حُسن کا اندازہ ہی نہیں ہوسکتا۔ اسپین کے خود مختارصوبے اُندلسیہ کے شہر غرناطہ کا ضلع، البیازین ایسا حسین و جمیل ٹکڑا ہے کہ جسے جتنا دیکھو، اُتنا کم ہے۔ 

خم دار، تنگ گلیوں والا یہ البیازین مورش تہذیب و تمدّن کے آغاز سے سجا قرونِ وسطیٰ کا حُسن آنکھوں کے سامنے مجسّم کرتا ہے۔ البیازین کے جس محرابی دروازے سے ہم اندر داخل ہوئے، وہ گیٹ Puerta Elvira قدرے سرخی مائل بھورا تھا۔ نام کے حوالے سے بہت سی روایات ہیں۔ تاہم، مجھے تو صرف ایک حقیقت کے قریب تر لگی تھی کہ جب لگ بھگ کوئی تیرہویں صدی کے کم و بیش وسط میں مسلمانوں کو بیازا(Baeza)شہر سے عیسائیوں نے دیس نکالا دیا، تو وہ بھاگ کر غرناطہ کی اِن شمالی پہاڑیوں پر آباد ہوگئے اور انہوں نے اِس مضافات کو اپنے پرانے شہر کا نام دے دیا، جسے آج البیازین کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ال کذابا (Alcazaba) تھا اور قرطبہ کے زوال کے بعد مسلمانوں کی طاقت کا سارا مرکز غرناطہ بن گیا۔ 

شہر خُوب صُورت مساجد سے سجا نظر آیا، جو کوئی آٹھ دس نہیں، پچیس تیس کے لگ بھگ تھیں۔ خُوب صُورت مکانات، بازار، بڑے بڑے محرابی گیٹ یا باب، ڈھلانی گلیاں، موروں کے تہذیبی و ثقافتی ورثے کی عکّاس۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک ایسی بستی ہے، جو آج بھی اپنی انفرادیت کے ساتھ قائم ہے۔ یہاں کے بہت سے چرچ تو وہ ہیں، جو مسلمانوں کی مساجد پر بنائے گئے ہیں۔ بعض خُوب صُورت مینار، بیل ٹاور بنادیئے گئے۔ اِن میں سب سے خُوب صُورت اور حسین Al Minar de San Colegita اور اس کا صحن لگا، یہ کبھی مسلمانوں کی بہت بڑی مسجد تھی، جسے چرچ آف ڈیل سیلواڈور سے منسلک کردیا گیا ہے اور چرچ کی ایک مَن گھڑت کہانی میں بتایا گیا ہے کہ اسلام کو عیسائیت میں بدلنے کے لیے کیا کیا جتن ہوئے۔ 

اس گیٹ سے اندر داخل ہونا گویا ایک عہدِ قدیم میں داخل ہونے کے مترادف تھا۔ یہاں کہیں کہیں دیواروں پر بکھری خستگی اور کہنگی بھی نظرآئی۔ کہیں بلند و بالا پتھریلی اینٹوں اور پتھروں کی سیڑھیاں، جو گھروں کے ساتھ ساتھ اوپر چڑھتی چلی جاتی تھیں۔ پھول، پتّے، بیلیں، گملے بھی آنکھوں کو طراوت بخشتے تھے۔ ہر گلی دوسری گلی سے مختلف تھی۔ کہیں کوئی محرابی دروازہ توجّہ کھینچتا، کہیں گلی یا تنگ دہانہ کسی الف لیلوی داستان کی طرح پھولوں سے چمکتے کِسی میدان میں دھکیل دیتا۔ کہیں چُونے اورگچ میں گُندھے مکان نظر آتے، جہاں عربوں کے شان دار ورثے کی مالک آبادی ہے۔ کہیں کشادگی اور کہیں اتنی تنگی کہ دو منزلہ سہ منزلہ گھروں کی بالکونیوں، دریچوں سے ذرا سا ہی ہاتھ بڑھانے سے سالن اور چائے کے کپ کا لین دین ہوجائے۔ 

مکانوں کی چھتیں اور چوباروں کی کھڑکیاں گویا ایک دوسرے کے گھر میں کُھلتی تھیں۔ کہیں پیڑوں پر سجے سنگترے، مالٹے۔ ہائے، جی چاہتا تھا توڑ کر کھائیں۔ کہیں سے نمک، مرچ مل جائے تو چٹخارے بھرتا بچپن آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ کہیں چڑھائی، کہیں اُترائی، کہیں پھول، کہیں بیلیں، کہیں پیڑ، کہیں درخت۔ سب اس کا حُسن بڑھانے کے اسباب تھے۔ سب سے زیادہ لُطف سان نکولس چرچ کے احاطے میں آیا، جہاں اونچی منڈیر پر سیّاحوں کے جتّھے،رنگ رنگیلے جپسیوں کے فلیمنگو گیت، گٹارکی دُھن پر سُن رہے تھے۔ اِس منظر کا حصّہ بننے میں ہم نے بھی خُوب لُطف اٹھایا۔ یہیں دھوپ میں بیٹھ کر اپنے مخصوص ریسٹورنٹ سے بنوایا ہوا ویجی ٹیبل پیزا کھایا اور کولڈڈرنک پیتے ہوئے الحمرا کے نظاروں سے لُطف اندوز ہوئے۔

گھومتے پھرتے بابِ رمبلا کے گیٹ پر جاپہنچے۔ عربی میں یہ باب رملہ ہے۔ ایک نام Arch of the ears بھی ہے۔ یہ اس شکستہ دیوار کے پاس ہی ہے، جس کے اب صرف کہیں نشان رہ گئے ہیں۔ گیٹ کے شکستہ حصّے غرناطہ میوزیم میں اپنی تاریخ کے ساتھ سجے ہوئے ہیں۔ پلازا بابِ رملہ کو دیکھنا بہت مسحور کُن تھا۔ یہ دراصل اُندلس اور اسپین اسٹائل کا خُوب صُورت اسکوائر ہے اور غرناطہ کے اہم حصّوں کی اربن تاریخ کی بہترین نمائندگی کا عکّاس بھی۔ اس کا آغاز نصر دَور سے ہوتا ہے، اُس وقت یہ شہر کے مرکزی دروازوں سے منسلک تھا۔ مسجد بھی قریب تھی اور منڈی بھی، بہت شان دار لوکیشن۔ اس میں سقوطِ غرناطہ کے فوراً بعد ہی بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ کشادہ کرنے کے لیے اردگردکے بہت سے گھر ڈھا دیئے گئے۔ تاہم، اس کے کونوں پر اب بھی تنگ تنگ گلیاں موجود ہیں۔ 

سولہویں صدی تک یہ عوامی تقریبات کا بڑا مرکز رہا۔ یہاں کھیلوں کے میدان میں بیلوں کی ریس، جلسے جلوس اور شاہی تقریبات کے انعقاد کے علاوہ اناج، پھل، سبزیوں کی منڈی بھی لگتی تھی۔ گیٹ آف اسکیلز بھی دیکھا۔ اُس دور کے حکمرانوں کے انتظامِ سلطنت کی کیا بات تھی۔ ایک ڈیوڑھی نما محرابی راستہ اُس مارکیٹ میں لے جاتا تھا، جہاں کِسی دکان دار کی مجال نہ تھی کہ اس کے ناپ تول کے پیمانے مقررکردہ سرکاری پیمانوں سے مختلف ہوں۔ اگر کوئی جرم کا ارتکاب کرتا، تو اس کا سب مال ومتاع بحقِ سرکار ضبط ہوجاتا۔ فردِ جرم بابِ اسکیل پر چسپاں کرکے جی بھر کر ذلیل کیا جاتا۔The gate of Pomegranateبھی اعلیٰ طرزِ تعمیر کا شاہ کار دروازہ ہے، جس کے سر کی چوٹی پر انار، دو حصّوں میں تقسیم ہوکر اپنے رسیلے دانوں کی نمائش کرتا ہے۔ یہ چارلس پنجم کے محل کی تعمیر کے وقت تعمیر ہوا۔ روایت ہے کہ تین اناروں سے امن اور خوش حالی کو نمایاں کرنے کی کاوش کی گئی، مگر وہ جو منہ پھاڑے، گاٹیاں نکالے اژدھے نظر آرہے تھے، اُنہیں کیا نام دیں۔ محرابی چیک پوسٹوں پر مستعد دربان کھڑے تھے۔

آج پیدل ہی بہت گھوم پھر لیے تھے، ٹانگیں شل ہورہی تھیں۔ایسے میں جب ’’ہوپ آن، ہوپ آف‘‘ پازیبیں بجاتی کِسی نئی نویلی دلہن کی طرح نمودار ہوئی، تو اسے دیکھ کر دل کو کافی سُکون ہوا۔ ہاتھ دیا اور ایک دوسرے کو کھینچ کھانچ کر اس پر سوار ہوگئے۔ پورا چکّر کاٹ کر جب اُس نے رُخ بدلا، تو ندی کے ساتھ ساتھ کشادہ سی گرین بیلٹ پر ڈھابوں کا ایک جمعہ بازار نظرآیا۔ بڑا فسوں خیز سا ماحول تھا۔ عقب میں بلندوبالا تاریخی دیوار نظر آرہی تھی۔ ’’چلو چلو اُترو۔‘‘ بھوک سے بلبلاتے ہوئے ایک ڈھابے پر پہنچے اور میز کے درمیان رکھی کرسیوں پر بیٹھے ہی تھے کہ چارلڑکے لپکے، ہم نے فوراً مدعا عرض کیا کہ حلال کھانا چاہیے۔ چاروں سینوں پر ہاتھ رکھ کر کورنش بجالائے اور ’’الحمدللہ، مسلمان ہیں‘‘ کا نعرئہ مستانہ بلند کیا۔ 

ہم نے مینیو پر نگاہیں ڈالیں، کچھ پلّے نہ پڑا۔ ’’ارے بھئی، تم ہی کچھ مدد کرو۔‘‘ سیما اور مہرالنساء نے رٹو توتے کی طرح بولنا شروع کردیا اور مینیو کارڈ پر انگلیاں پھیرنے لگیں۔’’یہ کھائیے۔اِس کی پلیٹ منگوایئے۔‘‘ لیکن کسی حتمی فیصلے پر نہ پہنچ سکے تو سارا معاملہ اُن کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ اُف جب سروس شروع ہوئی، میز پلیٹوں سے سجی، تو دیکھا، سامنے چھوٹی سی مچھلی مُنّی چُنّی آنکھوں والی اپنے سارے وجود سمیت کیسری چاولوں کے درمیان دَھری تھی۔ دہل کر پلیٹ کو دیکھا، ’’یہ کیا ہے؟‘‘ لڑکا ہنسا۔ نام اُلٹے پُلٹے، شکلیں ٹیرھی میڑھی، ذائقے بے سوادے۔ بہرحال، اب زہر مارکرنے والی ہی بات تھی، سو کیا۔

واش روم کے لیے وہ ہمیں کم و بیش کوئی پچاس سیڑھیاں چڑھواکر اُس گھر میں لے گئے، جو اِس ڈھابے کے مراکشی مالک کا تھا۔ خُوب صُورت دو نوجوان بیویاں، ماشاء اللہ درجن بھر بچّے اپنے اور کچھ اتنے ہی اِدھر اُدھر کے برادر ممالک کے، جو اس کے پاس کام کرتے تھے۔ ہماری مسلمانیت سے انہیں بڑی عقیدت محسوس ہوئی ہے۔ قہوے سے تواضع کے بعد پورے خاندان نے بڑی چاہت سے ہمارے ساتھ تصویریں بھی بنوائیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین