• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور (قسط نمبر9)

ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے مَیں کسی گہرے غار کے اندھے کنویںکی پنہائیوں میں تہہ دَر تہہ اُترتی چلی جارہی ہوں۔ ایلس اِن ونڈر لینڈ کی طرح میرے سامنے نئی نئی راہیں اور راستے کُھلتے چلے جا رہے ہیں۔ دھیرے دھیرے جیسے جسم کا ہر عضو ایک لطیف سی آرام دہ کیفیت کی آسائش میں ڈوبتا جا ر ہا ہے۔ اس کیفیت میں کب تک ڈوبی رہی، یقینا ًساری رات۔ تو بس ساری رات سوتی اور بس سوتی رہی۔کھوتے ،گھوڑے ،اُن کی کُھرلیاں ،پھٹّے اور الف لیلیٰ کی کہانیوں والی سرائیں سب بیچ باچ کر اطمینان اور سر شاری سے سوتی رہی۔ 

ہاں، کہیں کہیں یہ بھی محسوس ہوا تھا یا شاید یہ واہمہ تھا کہ جیسے آس پاس، ارد گرد میرے چاروں اور مکھیاں سی بھنبھنا رہی ہوں،جیسے کوئی دُور، بہت دُور سے پکار رہا ہو، ’’ اب اُٹھ جائو ، چلنا نہیں کیا؟‘‘مجھے تو رتّی برابر بھی یاد نہیں، پر وہ دونوں مُصر ہیں کہ تم نے بُڑبُڑ کرتے ہوئے یہی کہا تھا۔ صبح سویرے اُٹھی تودونوں کے خرّاٹے گونج رہے تھے اور شاید وہ دونوں بھی اُسی کیفیت میں تھیں کہ جس سے رات مَیں گزری تھی۔نماز کے بعدپھر سو گئی کہ روانگی توگیارہ بجے تھی۔اور جب دوبارہ آنکھ کُھلی توپہلی آواز سیما کی تھی ’’تم نے اتنی خُوب صُورت، انوکھی، نرالی اور اتنی شان دار چیزمِس کی ہے، جس کا قلق تمہیں ہمیشہ رہے گا۔ وہ توایک ایسی دنیا تھی ،جو خوابوں میں بھی نصیب نہیں ہوتی۔‘‘اب موبائل کے بٹن آن ہوئے اور میری آنکھوں کے سامنے حیرتوں کا جہا ں واہوا۔ ’’لو بھئی، یہ تو میرے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔ اٹھائیس یورو بھی گئے اور ایک نئے دل فریب منظر نامے سے بھی محروم ہوگئی۔’’محراب دَر محراب غاریں تھیں یا کوئی تعمیری جدّتیں ۔

تصویروں سے سجے رنگوں میں سمائے لوگوں سے بَھرے کمرے، جہاں الف لیلیٰ کی کہانیوں کی اپسرائیں محوِ رقص تھیں، جہاں موسیقی کی اُبھرتی ڈوبتی تانیں تھیں۔‘‘در اصل انہوں نے La-Zambra de Maria La-Camasbra کا شودیکھا تھا ،غرناطہ کی شاید قدیم ترین غار میں۔سیما دوبارہ بولی،’’شو اپنی طرزکا منفرد اور شان دار ہی تھا۔ گٹار بجانے والوں کے جوش وجذبے اور لگن پر بھی آفرین اور وہ فلیمنگوزبان کا سنگر۔زبان تو پلّے نہیں پڑرہی تھی، مگر آواز تھی کہ کلیجہ نکالے دیتی ۔

جب نشیلی آواز کا سُر دھیرے دھیرے گِرتا تو دل ہی ڈوبنے لگتا۔ وہ رقص کرتا جوڑا، ان کی ادائیںاور بانکپن ،سچّی واری صدقے ہونے کوجی چاہتا تھا۔ ہائے کہنے کو گو رات تھی ،مگر روشنیوں میں ، گل رنگ چہروں اور خوشیوں میں جھومتے مختلف النّوع انسانوں کے ہجوم میںلِپٹا ماحول کس قدر طلسمی اور رومانی تھا کہ بندہ خود کو ہوائوں میں ڈولتا ،جھومتا محسوس کرے۔

تماشائی بھی یورپ کی نازک اندام چھوکریاں، چھوکرے اور موٹی مٹیاریں اور دیوہیکل رانجھے تھے۔‘‘ اب تو حد ہی ہو گئی تھی۔ بکواس ختم ہو نے میں نہ آرہی تھی۔ میرے اندر جیسے بھٹّی جل رہی تھی،کان بھی سُنتے سُنتے تپنے لگے۔اس وقت ہم لوگ ناشتا کررہے تھےاور مَیں چیخی۔’’اب اگر تم لوگوں نے اپنی بکواس بند نہ کی، تو خدا کی قسم یہ پلیٹیں اُٹھا کر تمہارے سَروں پر دے ماروں گی۔‘‘دونوں مکاّری سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائیں، پھر سیما نے پرس میں سے بروشر ز نکال کر میرے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’چلو ،جو ہوا ،سوہوا،مٹّی پائو۔ تمہارے مقدّر میںاگر اس دل کش شو سے محرومی تھی، تو اس میں ہمارا کیادوش ۔

خیر، انہیں دیکھ لینا، شاید تھوڑی بہت تشفّی ہو جائے۔‘‘اب یہ تو اُن دونوں کا کہنا تھاکہ ’’تم تو بھنگ پی کر سوئی تھی، تمہارے تو خرّاٹے یوں گونجتے تھے، جیسے انجن سڑک کی روڑی کُوٹ رہا ہو۔آدھی رات آگے اور آدھی پیچھے، جب ہم آئی تھیں، تب بھی ایک بار پکارا تھا۔‘‘ پہلے تو جی چاہاکہ کاغذوں اوربک لیٹس کا یہ پُلندہ اٹھاکر ان کے منہ پر ماردوں۔ پھر غصّہ بھگاتے ہوئے اپنے آپ کو ڈانٹا’’اب زیادہ غصّہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ کیا کرتیں، قصور تو تمہارا اپنا ہے۔‘‘

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور (قسط نمبر9)
مسجدِ قرطبہ کا اندرونی منظر

تو یہ Sacromonte کون ہیں؟ بھلا کب غرناطہ آئے؟اب کہیں تو درج ہے کہ سولہویں صدی کے لگ بھگ ان کا نزول ہوا۔سیکرومونٹی کی وجۂ شہرت، جپسیوں کی وہ غاریں ہیں جو اب کہیں تو میوزیم بنی ہوئی ہیں اور کہیں کمرشل ناچ گانوں کامرکز۔ اگر ان کے تاریخی پس منظر کاجائزہ لیا جائے ،تو جپسیز اوّلین لوگ نہیں تھے ،جنہوں نے غاروں کے منہ متّھے سیدھے کیے۔ دراصل یہ عرب تھے، جنہوں نے Valparaiso کی پہاڑیوں کی نرم زمین کُھدائی کے لیےموزوں سمجھی اور وہاںقدرتی غاروں کو رہائشی صُورت دی۔ جِپسیوں کی اس علاقے میں آمد سقوطِ غرناطہ کے بعد ہوئی۔اس کی جائے وقوع کا حُسن جہاں پہاڑوں کے دل کش نظارے، چراگاہیں دریا اور مختلف قوموں کے ثقافتی وَرثے پر مشتمل ایک انوکھا اور حیرت انگیز اثاثہ آپ کو محظوظ کرنے کا منتظر ملتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اپنے رنگا رنگ تہذیبی اور نسلی امتیازات کے ساتھ ،جس میں عربوں،یہودیوں،ہسپانیوں اور جپسیوں کے امتزاج کی رنگینی اپنے منفرد پس منظر کے ساتھ شامل ہے، طلسم سے بھرا ایک جہان بھی وا کرتے ہیں۔یہ لوگ جب یہاں آئے ،تو غاروں کو اپنا مسکن بنا بیٹھے۔

آغاز میں پہاڑوں کی قدرتی ساخت کی چھوٹی موٹی،کہیں ٹیرھی میڑھی غاروں میں رین بسیرا ہوا،پھروقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔غرناطہ کی سیّاحت میں اب ایک اہم کردار ان کا بھی ہے کہ یہ غاریں سڑک کےنزدیک ہونے کی وجہ سے انسانی دسترس میں ہیں۔ یہودیوں کی طرح یہ لوگ بھی اپنے حسب نسب کے کھرے اور حقیقی شناخت کے بارے میں بہت محتاط رہتے ہیں۔کہہ لیجیے، ہمارے پاکستان کے کیلاشیوں جیسی صُورت ہے۔بس یہاںذرا ماڈرن اِزم اور یورپی تڑکے ہیں۔ فلیمنگو گانے اور رقص پر مشتمل اِن قبائل کا ایک اپنا وَرثہ ہے، جس میںاُندلس میں قیام نے جدّت پیدا کی۔غار میں کوئی ایک سو سے ڈیڑھ سو افرادتک کی گنجائش تھی۔

علاّمہ اقبال نے پورے 25دن ہسپانیہ میں گزارنےکے بعد یہاں سے جاتے ہوئے دوست کو لکھا’’ بس قرطبہ دیکھ لینا ،اِس سے پہلے کہ دنیا سے چلے جائو۔‘‘توبھئی ،پھر سچّے ہوئے ناں ہم ،قرطبہ میں موجود ہونے کا اپنا ہی ایک نشہ اور خمار ہے۔اورآخر کیوں نہ ہو، اسے

’’ The Place of Gold ‘‘جوکہا جاتا ہے۔ اس پر طرّہ مسجد ِقرطبہ دیکھنے جانا ۔ ہاں، آپ کو یہ بھی بتادوں کہ ہماری ’’مسلمانیت ‘‘جو بے چاری وطن میں تو بڑی دَبی دَبی اور مغموم و اُداس سی رہتی ہے ،بیرونِ مُلک جاتے ہی کسی منہ زور سیلاب کی طرح شوکریں مارنے لگتی ہے۔پس،ہم تینوںنے ایک دوسرے سے کہا ’’چاہے گِٹّے گوڈے سجدے کی اجازت نہیں دیتے ، چاہے فرش کی وہ پاکیزگی کہیں نہیں ،جس کا تقاضا مسجدکرتی ہے،تب بھی کوئی بات نہیں ۔ اب جو بھی اُلٹی سیدھی سوچ، ڈر،خوف، اچھا، بُرا احساس دماغ پر طاری ہے ،اُسے اٹھا کر باہر پھینک دو اور قرطبہ کو دل کی آنکھ سے دیکھنا ہے۔‘‘ویسے آپ سے کوئی پردہ تو ہے نہیں، سچّی بات تو یہ ہےکہ ہمارے دل کون سے پاکیزہ ہیں۔ دنیا کی طمع اور حرص و ہوس کی غلاظتوں سے اَٹے پڑے ہیں۔ 

بس تو طے تھا کہ وہاں موقع محل دیکھ کر پیشانی ضرور ٹیکنی ہے۔ٹیکسی میں بیٹھتے ہی دل بڑے انوکھے جذبات کی اُتھل پتھل میں ڈوبنے اُبھرنے لگا۔ قرطبہ کی مسجد مسلمانوں کے عہد کا ایک عظیم وَرثہ ہے، اسے دیکھنا اپنی خوش قسمتی ہی کہوں گی۔ گاڑی نے عین مرکزی دروازے کے سامنے لاکھڑا کیا۔پتھروں کی گلی اپنی کشادگی، قرونِ وسطیٰ کے عہد کے فسوں خیز تعمیری نمونوں کے ساتھ آنکھوں کے سامنے تھی۔بلندوبالا کنگورے دار چوکور پتھروں والی دیوار نے جیسے ایک پیغام دیا تھا کہ’’ اندر جانے سے قبل میری باہر والی صُورت تو دیکھ لو۔ ‘‘تو جب چلنا شروع کیا، توکیسے ممکن تھا کہ اُس کی تاریخ ساتھ نہ چلتی۔’’ سُنو رُک جائو…!! آپے سے باہرنہ ہو۔میرا ہاضمہ اب جوانی جیسا نہیں ، جو کبھی لکڑ ہضم، پتھر ہضم جیسا تھا۔

سچّی یہ تمہاری فصیل نما دیوار،اس پر طرّہ تمہارے دروازے ،خواہ وہ پارڈن گیٹ Pardon Gate،مِلک گیٹ Milk Gate گیٹ یا پھر استبان گیٹ Esteban Gate ہوں،سب تاریخ سے لبالب بَھرے ہیں۔ ہاںاُن کے اوپر بنے جھر وکوں کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے۔یہ سب خلیفہ اندازکے حُسن و رُوپ سے سجے ،سونے پر سہاگا تمہارا یہ بلندوبالا چوکور مینار، ہر جانب سے متوجّہ کرتا ہے۔یہ مجھے چلتے چلتے روکتے ہیں،گو یہ سب بند ہونے کی وجہ سے اپنا آپ میرے اوپر نہیں کھول رہے ۔‘‘ پورا چکر کاٹنے کے بعد ذرا سستانے کے لیے اس بڑھاوے پر بیٹھ گئے ، جو مسجد کی دیوار کے ساتھ بنا ہواتھا۔نقشہ کھولا تو احساس ہوا دریا بس دو قدم پر ہےاور تھوڑی سی تفصیل پر بھی نظر پڑی کہ جب قرطبہ موروں کے قدموں میں سرنِگوں ہوا، تو یہاں بنی عبادت گاہ، کبھی گوتھوں کے معبد ،کبھی رومیوں کے ٹیمپل میں ڈھلی،پھر عیسائیوں نے اِسے سینٹ وِنسٹ کے نام سے چرچ بنا لیا۔ 

پھر رومیوں کےٹیمپل اور عیسائیوں کے چرچ کو مسلمانوںنے مسجد میں بدل دیااوردمشق کی اُمیہ مسجد کی طرز پراس کی بنیاد رکھی ۔ بہرحال ،یہ ماننا پڑے گا کہ عبدالرحمٰن اوّل کی شخصیت رواداری اور اخلاقی اقدار کی حامل تھی کہ اس نے زور زبردستی سےمسجد نہیں بنوائی، بلکہ اسے خریدنے کی پیش کش کی، جس پر پہلے پہل توانکار ہوا، پھر نصف پر آمادگی کا اظہار اور بعدازاں مزید جگہ منہ مانگے داموں بیچ دی گئی۔مکمل قرطبہ فتح ہونے کے بعد خستہ حال گرجوں کی مرمّت اور تعمیرِ نوکی بھی اجازت دی ۔ کندہ کاری سے مزیّن بلند قامت دروازے بابِ پامز سے (Palms) جسے رحمتوں کی محراب بھی کہتے ہیں،اندر داخل ہوئے۔اس دروازے سے مسجد تک رسائی سیدھی تھی ،مگر ہمیں تو ابھی بہت کچھ دیکھنا تھا۔پہلےتو برآمدے میں رُک کر نظریں طواف میں مصروف اور دل شکرگزاری کے جذبات میں بہنے لگا۔

سامنے صحن تھا،ایک جانب ہال اور بقیہ تین جانب کمرے اور برآمدے۔ بلندوبالا مینارزمانوں کے تغیّروتبدّل کا بار سینے پر اُٹھائے، اپنی عظمتوں کے ساتھ کھڑا تھا۔پانچ وقت اذان کی پُرسحر آواز سے جب گھنٹیاں بجنے کے وقت کا سامنا کیا، تو کیا کچھ محسوس ہوا ۔جی چاہتا تھا، پہلے تو اِس سے باتیں کروں،اقبال کو یاد کروں، ان کے شعر گنگنائوں۔؎اے حرمِ قرطبہ، عشق سے تیرا وجود… عشق سراپا دوام ،جس میں نہیں رفت و بود… رنگ ہو یا خشت و سنگ ،چنگ ہو یا حرف و صوت… معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود۔

نظروں کے والہانہ پن نے تالاب دیکھا،پھر درختوں پر آرُکیں ۔بسنتی رنگے مالٹے سبز پتّوں میں سے لشکارے مارتے تھے۔آ ہنی جنگلے میں محصور زیتون کا پیڑ،جو عبدالرحمٰن اوّل کا لگایا ہوا ہے،ابھی تک اپنی تاریخ کے ساتھ کھڑا ہے ۔ کہتے ہیں یہ اندر سے تو کھوکھلا ہوچُکاہے، مگر اوپر سے بڑا تروتازہ تھا۔عبدالرحمن اوّل کو درختوں اور پودوں سے عشق تھا۔ کہا جاتا تھا کہ ملکوں ملکوں گھوم پھر کر اس کے کارندے انواع و اقسام کے پھول پودے اکٹھے کرتے۔قرطبہ کو انہوںنے اِن رنگا رنگ پھولوں کی خوش بُو سے مہکا اور رنگوں سے سجا دیا تھا۔ بائیں ہاتھ والے برآمدے کے عین وسط میں ٹکٹ گھر تھا، جہاں سے آٹھ یورو کا ٹکٹ خریدا۔قطار میں لگنے سے پہلے ہم نے برآمدوں کا ایک چکّر کاٹا۔

مرکزی دروازے کی سمت اِن کمروں میں کبھی درس و تدریس ہوتی تھی۔اُن روشن فکر، اعلیٰ دماغ اور فطین ہستیوں کی تربیت کے مراحل یہیں طے ہوئے تھے۔یہ سوچتے سوچتے مَیں وہیںرُک گئی اورصحن کی بنّی پر بیٹھ گئی۔ سوچا کہ پہلے تو چند لمحوں کے لیے ایک بار پھر امویوں کے شہزادے، عبدالرحمٰن بن معاویہ کو خراجِ عقیدت پیش کروں کہ جس نے میرٹ اور مذہبی رواداری کی ایسی اعلیٰ مثال قائم کی تھی کہ اس کا وزیرِ اعلیٰ ایک یہودی اوروزیرِ خارجہ کیتھولک آرچ بشپ تھا۔ اس کے بعد آنے والی نسلوں نے اُندلس کو علم و فن کی جن بلندیوں پر پہنچایا،اُس کا اعتراف تاریخ نے خود کیا۔ طِب کی دنیا کا وہ بڑا نام، ابوالقاسم الزہراوی جس نے ’’کتاب التصرف‘‘ لکھی۔ 

طبّی سائنس کا یہ وہ نایاب تحفہ تھا، جس سے یورپ کے سائنس دان صدیوں تک فیض یاب ہوتے رہے۔ امام قرطبی ابنِ رُشد اور عباس بن فرناس فنِ موسیقی کا نایاب گوہر، زریاب اسحاق موصلی کا شاگرد اور اِن جیسے بے شمار صاحبِ علم و فن جنہوںنے دنیاکو متاثر کیا، یورپ کی تحریکِ نشاۃ ِثانیہ میں اپنا حصّہ ڈالا ۔فن کی دنیا کا کون سا شعبہ ایسا تھا، جس میں تحقیق اور ایجادات نہ کیں۔یہی سوچتے سوچتے دُکھ اور افسردگی دھیرے دھیرے وجود میں اُترآئی، پھرمایوسی میں خود سے سوال وجواب کرنے کا عمل بھی تو بڑافطری سا تھا کہ جب صحن کے چبوترے پر بیٹھا شخص اِس سارے منظر کے ماضی و حال میں سانس لے رہا ہو۔وقت کے دھارے کا ایک طرف وہ کمال اور دوسری جانب تنزّلی کا یہ عالم کہ یہ بے چاری مسلم امّہ بے حسی و بے حیائی کے پاتال میں جاگِری ، چہار جانب گھٹا ٹوپ اندھیرا مقدّر بنا ہوا ہو اور کہیں روشنی کی کوئی کرن نظرنہ آتی ہو ۔

ہاں شاید وقت ہمیشہ عروج و زوال کے حصار میں قیدہوتا ہے۔ روشنی تو پھوٹے گی ،مگر کب…؟ اس کا فیصلہ آسمانوں پر ہے۔اُٹھے اور قطار میں کھڑے ہوگئے۔اندر جاتے ہوئے قدموں میں ہلکی سی لرزش اور دل میں دھڑکنوں کا شور تھا۔ہو نٹوں پر اقبال آگیا ؎شوق مِری لے میں ہے، شوق مِری نے میں ہے… نغمۂ اللہ ہُو، میرے رگ و پے میں ہے۔مگر ساتھ ہی میرے نفس نے پھٹکارا۔ ’’ہائے کاش! یہ نغمہ ’’اللہ ہو‘‘ تُو اپنی رگ رگ میں اُتار لیتی، تو کیا ہی بات تھی۔ ‘‘وہ تصویر جو ہمیشہ مضطرب کرتی تھی، آج مجسّم میرے سامنے تھی، مگر کِس انداز میں…سچ تو یہ تھا کہ جیسے دَم بخود ہونے والی بات تھی۔ پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں اور آنکھیں پھٹنے کی حد تک پھیلی اپنے سامنے اِس حیرت کدے کو دیکھتی تھیں، جو جاہ و جلال کی منہ بولتی تصویر تھا۔ 

ستونوں کا ایک جنگل ،مگر کتنا خوب صُورت اور کِس تناسب کے ساتھ کھڑا کہ کِسی بھی اگلے منظر کا راستہ نہیں روکتا تھا۔ محراب دَرمحراب چلتا ہوا سلسلہ،رنگوں کی خوب صُورتی اور امتزاج خواب ناک سی تاریکی کا فسوں ہر سُو پھیلا ہوا تھا۔کتابچے میں درج تھا کہ بیرونی مشرقی دیوار میں کوئی کھڑکی ،دروازہ نہیں تھا، کبھی یہاں محرابی دروازوں والے برآمدے تھے۔ایک جانب صحن کے دل کش نظارے، تو دوسری جانب دریائے الکبیر کے۔کشادگی،وسعت،روشنی ،ہوا اور فضا کی مہک سب دامن دل کو مسرت و شادمانی سے ہم کنار کرتے۔ 

ایسے میں بھلا اقبال کیسے نہ یاد آتے، ساتھ اُن کے جذبات و احساسات کی شدّت بھی اسی انداز میں شعروں کی صُورت ہونٹوں پر تھرکنے لگی۔؎تیرا جلال و جمال مرد ِخدا کی دلیل… وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل… تیری بِنا پائیدار ،تیرے سُتوں بے شمار… شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل… تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور… تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل۔ (جاری ہے)

تازہ ترین