• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور (قسط نمبر11)

جنوبی اسپین کا یہ قرطبہ ،جو کبھی ماضی کی یادگاروں ، یادوں کے سائے میں سانس لیتا ہے، حال کے ملاپ میں دن گزارتا ہے، تو کبھی اِن دونوں کے دل کش ملاپ کی تصویر پیش کرتا نظرآتا ہے۔یہی وہ شہر ہے، جہاں قدامت کا حُسن اور جدّت کے رنگوں کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔تاریخ کےمطالعےسے پتا چلتا ہے کہ قبل مسیح سے بھی سیکڑوں سال پہلے یہ شمالی افریقا کے کارتھا گنیئن Carthaginianلوگو ں کا شہر تھا۔ اب اللہ جانے اُن پر کوئی اُفتاد پڑی یا کیا ہوا کہ وہ یہاں سے چلے گئے، پھر 206قبل مسیح میں یہاں رومنزکی حکومت قائم ہوگئی تو انہوں نےاس سر زمین کو خوب صُورت عمارتوں اور مضبوط قلعوں سے سجا دیا۔

قریباً پانچویں،چھٹی صدی میں یہ گوتھوں(Visigoths)کے زیرِ اثر آیااور آٹھویں صدی میں مور، مسلمانوں نے یہاں حکومت قائم کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سر زمین کی تاریخ کتنی ہی ثقافتوں ، تہذیبوں سے مالا مال ہے۔اس کےچہرے پر کہیں رومنزکے نقوش بکھرے ہیں،کہیںگوتھوں کے ، تو کہیں موروں کے۔ اِن سبھوں نے جو جو کچھ اِس شہر کو دان کیا ،اس سےاسےایک منفرد رعنائی ملی۔دسویں صدی میں اسی شہر نےیورپ کو بھی بتایا کہ خواہ روم ہو ، پیرس یا لندن اس کے پلّے کا دنیا میں ایک بھی شہر نہیں ۔

یہ علم کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت اور مذہبی رواداری میں بھی اپنی مثال آپ ہے، تو جب اسے ورلڈہیریٹیج نے اپنے کلیجے سے لگا یا تواس کے چہرے ، جسم پر جو زخم اور دھبّے نظرآئے ،اُن کی مرہم پٹی کی اور پھر میک اَپ سے اس کا سنگھارکچھ اس انداز سے کیا کہ لوگ کہنے پہ مجبور ہوجائیں’’واہ! کیا رعنائی و زیبائی ہے۔‘‘ دنیا میں شاذ ہی ایسی جگہیں ہیں، جو خود کوہسپانیہ کے پلّے کا ثابت کرسکیں۔جہاں سوچ و فہم کے دیے روشن ہوئے،علم کے چراغ جلے، فنونِ لطیفہ کے علوم نے قلب و روح کو منوّر کیا۔اس شہر کو عظمت کا تاج پہنانے والے مسلمان حکمرانوں پر سلام، جنہوںنے شہر میں جابجاکتب خانے کھولے،میڈیکل کالجز، یونیورسٹیزقائم کیں اور اسے شہرِ علم بنادیا۔

وہ حصّہ، جسے ٹیکسی ڈرائیور نے جیوڈیریا (Juderia) یعنی پرانا جیوش کوارٹر کہا تھا، مسجد کے قریب ہی ہے۔ٹیکسی اس راستے سےہوتی ہوئی ،ایک بلندوبالا گیٹ ، ’’Almo Novar Gate‘‘ سےاندر داخل ہوئی۔ قرطبہ بھی پرانے زمانے کی ریت کی فصیلوں میں قید تھا۔بڑے بڑے سات محرابی دروازے اس کی شناخت تھے،چند ایک اب بھی باقی ہیں۔ کچھ بڑی اور خوب صُورت عمارتوں کے پاس سے گزرتے ہوئے ڈرائیور نے ہمیں ایک میدان میں اُتار دیا۔ یہ قدیمی حصّہ، جو غلام گردشوں، سفیدی میں نہائے صحنوں اور تنگ گلیوں پر مشتمل تھا،قرون وسطیٰ کے تعمیراتی حُسن سے سجا ہوا سیّاحوں کو خُوب مرعوب کررہا تھا۔ 

گھروں کوسفیدی کا حُسن دینا قرطبہ کے اسلامی دَور کی روایت ہے، جسے اہلِ قرطبہ نے آج بھی زندہ رکھاہوا ہے۔ ان گھروں کی اندرونی وبیرونی دیواریں کہیں بیلوں، گُل دانوں ، تو کہیں گملوں میں مہکتے پھولوں کی صُورت آنکھوں کو تازگی وفرحت بخش رہی تھیں۔بالکونیاں اورشان دار دُکانیں بھی ایسے ہی مناظرسے بَھری ، پھول پودوں سے سجی روح تازہ کرتی تھیں۔ہم یونہی پِھرتے پِھراتے ، گھومتے ہوئے ایک ایسی تنگ گلی میں جانکلے، جس کے منہ ماتھے اور جسم پرخستگی اور کہنگی تھی، مگر اس قدر حسین کہ اس کی ایک ایک تفصیل حیرت کے جہاں وا کرتی ہے۔دروازوں کے آگے رنگا رنگ پھول اور دیواروں پر پھیلی سبز بیلیں۔

پتھروں کی گلیاں، دیواریں اور اُن میں بنی بالکونیاں، جانے کتنی ہی دیر ہم وہاں کھڑے رہے۔تمام مناظر کلاسیکل تھے، جو ماضی کی اساطیری دنیا میں لے جاتے ۔بمشکل تین آدمیوں کے ساتھ ساتھ پھنس کر چلنے جیسی گلیاں ،دائیں بائیں مڑتی ،نئے منظر کھولتی اور نیا جہاںوا کرتی ہیں۔ تین منزلہ ،دومنزلہ عمارتوں کے نچلے حصّوں میں دُکانیں ،جن میں سیاحوں کے پَرے کے پَرے گھسے کہیں خریداری کرتے اور کہیں اس کے نظاروں سے لُطف اٹھاتے تھے۔پھر ایک اوردل کشاسا منظر سامنے تھا،قدامت کے حُسن سے لبریز منظر۔بگّھی میں جُتا گھوڑا اپنی لمبی گردن بڑھائے خستہ حال سے فوّارے کے پانیوں میں منہ دیئے گھونٹ گھونٹ پانی پی رہا تھا اورتالاب کے اوپر بنے فینسی سے، بڑے حجم والے مرتبان نما برتن میں جمع پانی میں لگے پائپ سے ایک آدمی منہ لگائے پانی پینے میں جُتا ہوا تھا۔ 

انسان اور حیوان ایک ہی گھاٹ پر پیاس بجھاتے ہوئے ایک پُر لطف کہانی کی یاد دلاتے تھے۔سیمنٹ کی بڑی بڑی سلیبوں والا یہ صحن ،اچانک ہی ایک تنگ سی گلی کے خاتمے پر ہمارے سامنے ظاہر ہوا تھا،جسے دیکھ کر آنکھیں مانوسیت کے احساس سے جگمگا اٹھیں۔اب سیما اور مہرالنساء دُکانوں میں داخل ہوناچاہتی تھیں۔اُن کی کوشش ناکام بناتے ہوئے مَیںنے حتمی لہجے میں کہا’’ پہلے ذرا گھوم پھر لیں، پھر خریداریوں کے چکّر میں پڑنا۔‘‘ چلو شکردونوں نے بات مان لی۔پھر اگلی گلی ہمیں ایک چھوٹے سے کشادہ میدان میں لے گئی، جہاں چمکتی دھوپ ،موتی برساتےفوّارے کاحُسن مزید بڑھا رہی تھی۔ 

تنگ گلی مسجد کے اکلوتے مینار کی دل کشی بھی نمایاں کر رہی تھی ، جس کی بلندی پر لٹکی گھنٹی بھی نظر آئی ۔انہی گلیوں میں گھومتے ہوئے جیوش کوارٹر کے عین وسط میں واقع پلازاابنِ میمون دیکھنا بھی ایک انوکھا اور خوب صُورت تجربہ تھا۔ مو سیٰ ابنِ میمون، جو قرطبہ میں پیدا ہوا تھا،صلاح الدّین ایوبی کا معالج، اپنے وقت کاعا لم ہی نہیں،فلکیات کا ماہر اور قابل فزیشن بھی تھا ۔ اس اسکوائر کا نام اسی کے نام پر ہے، یہی نہیں، یہاں کتاب پکڑے اس کا ایک مجسمّہ بھی رکھا ہوا ہے، جوآپ کو تھوڑی دیر کے لیے روکتا اور تصویر بنانے کو کہتا ہے۔

اسے دیکھ کر احساس ہوا کہ مجسّمہ ساز نے مجسمّے کی آنکھوں میں وہ علم وتدبّرکانور پیدا کرنے کی اپنی سی پوری کوشش کی ہے ،جو اُس ذات سے وابستہ تھی۔اُس سے آگے سر سبز بیلوں سے آراستہ محرابی راستہ آگے بڑھنے اور اندر جانے پراُکساتا ہے۔جہاں خوب صُورت کمروں میں موسیٰ ابنِ میمون کی بہت سی چیزیں ، جیسےجوتے، ٹوپی، صدری وغیرہ رکھی تھیں۔’’صدری ٹائپ واسکٹ کیا اُس دَور کی ہے؟‘‘ ہمارے دل میں خیال سا آیا۔

کمروں میں فریم شدہ خوب صُورت حاشیے والی تصویریں بھی آویزاں تھیںاوررسم الخط عبرانی زبان کی ترجمانی کرتا تھا۔ شوکیسزمیں مسوّدات دھرے تھے۔ آنگن کا فرش چھوٹے گول پتھروں سےمزیّن،انتہائی دل کش لگتا تھا۔ایک جگہ سیاہ خوں خوار بُل فائٹر بھی کھڑاتھا۔اور باغ کی سجاوٹ تو انتہائی متاثر کُن تھی۔سَرو کے بُوٹوں کی قطاریں بہت جاں فشانی اور محنت سے تراشی گئی ہیں۔سیڑھیوں کی دیواروں پر آویزاں گملوں میں پھول ہنستےہیں۔

ویانا محل اور اس کا باغ دیکھنے کا بھی اپنا ہی ایک لُطف تھا۔فوّاروں میں موتی اڑرہے تھے،گول چھوٹے پتھروں سے بنے نفیس محرابی راستے، کھجور کے درخت، بوگن ویلا کی بیلوں کا پھیلائو ،چنبیلی کی خوش بوئیں اور مالٹوں سے بھرے درختوں کا حُسن… دل موہ لینے کوکافی تھا۔ وہاں سے نکلے تو چند ہی قدم پر اس وقت کے نام وَرسرجن، ابو قاسم کا گھر بھی دیکھا۔پھر میری سہیلیاں خریداری کے لیے بے چین ہونے لگیں، تو مَیں دونوں کو وہیں چھوڑ کر، مسجد کے عقبی چبوترے پر ملنے کا کہتے ہوئے آگے چل دی کہ مسجد ہر سمت سے مرکز میں تھی۔

مَیں پتھریلی ڈھلانی سڑک پر چل رہی تھی کہ دفعتاً نظروں کی زَد میں انتہائی شان دار سی حویلی نما عمارتیں آئیں۔رُک کر مسجد کو دیکھا، سمت کا تعیّن کیا، اندازوں کے گھوڑے دوڑائے، تو گمان نہیں ،یقین ہوگیا کہ جس جگہ کھڑی ہوں،اُن میں سے ایک عمارت بینڈولورا ہےاور دوسری کا نام یاد نہیںآرہا تھا۔ انہی میں سے ایک کی پیشانی پر چار دن تک ’’اقبال اِن کارڈوبا‘‘ کابینر لہرایا تھا۔ یہی وہ جگہیں ہیں،جہاں میرے مُلک اور دنیا بھر سے اقبال شناس جمع ہوئے تھے۔اب قرطبہ کے جدید حصّے میں ایک گلی "Poeta Mohammad Iqbal"ـکے نام سے وابستہ کردینے کا کمال بھی تو اہلِ قرطبہ ہی کا ہے۔بڑی مشکل سےبینڈ ولورا کے اندر جانے کا موقع ملا۔

یہاں انتہائی تاریخی سا ماحول تھا۔ پھول پتّے تو تھے ہی، پرانی بندوقیں بھی سجی ہوئی تھیں ۔ اب گلیوں میں پِھر رہی تھی۔قدیم قرطبہ کی ڈیوڑھیوں کے کُھلے دروازے دعوت دیتے کہ آئو اور ہمیں دیکھو۔اس سیر سپاٹے میںPatios (کشادہ صحن یا کاروباری زبان میں شاپنگ پلازا)سے بھی لُطف اُٹھایا۔اس کے لازمی جزو zocoکوبھی Patio سے جوڑیں کہ یہ ایک دوسرے کا اَٹوٹ انگ ہیں۔ رنگارنگ پھولوں کے زیورات سے سجے یہ آپ کو ایک ایسی مسرت سے سرشار کرتے ہیں کہ جس کا اظہار لفظوں میں ممکن ہی نہیں۔کتابچوں کے مطالعے سے یہ بھی پتاچلا کہ یہاں مئی کے آغاز میں ’’پاتیو میلہ‘‘ بھی ہوتا ہے، جس میں اِن گھروں کے مالک اپنے پاتیوزکوپھولوں سے لدی پھندی دُلہن کی طرح سنوارتے ہیں، جس پرانتظامیہ انہیں انعام بھی دیتی ہے۔ 

زمانۂ قدیم میں تو یہ بڑے لوگوں کے گھر تھےاورزوکو ان کے صحن ۔ دمشق، حلب اورقرطبہ میں یہی طرز ِتعمیر رائج تھا،مگر آج یہ شاپنگ سینٹرز اور طعام گاہیں بنی ہو ئی ہیں۔اُف !کیا گلیاں تھیں ، چھوٹے سے چھوٹے مکان کا صحن بھی پھولوں سے سجا تھا۔ اکثرکمروں کے دروازے اور کھڑکیاں برآمدوں میں اور کہیں آنگن میں بھی کُھلتی تھیں۔ کہیں کہیں صحنوں میں موڑھے بھی رکھے نظرآئے۔دروازے چوبی اور سلاخوں والے تھے،اکثر گھروں کے دروازے توسیّاحوں کو دعوتِ نظارہ دیتے۔کہیں پرانے وقتوں کے چرخی والے کنویں نظر آئے، توکہیں بیچ میں فوّارہ دِکھائی دیا،جس کی منڈیر گملوں ،پودوں سے بھری تھی۔

ہائے!جی چاہتا تھایہیں موڑھوں پرآنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں اوراُس دَور میں چلے جائیںجب اِن گھروں کے مکین اپنی روایتوں کے ساتھ زندہ تھے۔ تو ایسے میں بھلا الطاف حُسین حالی کی نظم کیوں نہ یاد آتی۔ ؎کوئی قرطبہ کے کھنڈرجاکے دیکھے… مساجد کے محراب و دَر جاکے دیکھے…حجازی امیروں کے گھر جاکے دیکھے۔ یہیں کے ایک پاتیو میں ہم نے اپنی بھوک کا روزہ ویجی ٹیبل پیزا سے کھولا۔ ویزی گوتھ (Visigoth)والوں کا قلعہ بھی قریب ہی تھا،یہ ہمیشہ سے قرطبہ کی بڑی اہم جگہ رہی ہےکہ جب مسلمانوںنے ہسپانیہ فتح کیا تو یہ مورش حکمرانوں کے تصرّف میں بھی رہا، ہسپانیہ کے کیتھولک بادشاہوںنے بھی اسے توجّہ دی ، توکبھی رومن بادشاہوں کی رہائش گاہ رہی۔یہ ال کازر AL-CAZR بھی تو عین وہیں مسجد کے ہم سائے میں تھاکہ بس دو گلیاں ٹاپو اور اس کے کھلے میدان میں پہنچ جائو۔

بڑی دیو ہیکل قسم کی دیواریںاور برج تھے، جو صُورت میں کہیں ہشت پہلو اور کہیں اسطوانی تھے۔یہاں ٹکٹ اور اسکریننگ کے لیےلوگوں کی لمبی قطاریں تھیں،اس لیےسیما اندر جانے پر آمادہ نہ تھی اورمَیں درخت کی چھائوں میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ دیکھنے میں کوئی ہرج بھی نہیں ہے۔اس کی تعمیر تو 1328میں شروع ہوگئی تھی، پھر رومیوں اور مسلمانوں اسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ باغ باغیچے تو کہیںبعد میں بنے۔ابھی میرا ذہن تاریخ کی ورق گردانی میں مصروف تھا کہ مہرالنساءٹکٹ لے آئی اورہم اندر داخل ہوگئے۔

الفانسودہم سے سرسری سا تعارف الفاظ کی صُورت تو ہوا تھا۔تاہم،اب یہاں پورے قد بت کے ساتھ شناسائی ہوئی۔جس ہال میں داخلہ ہوئے،بڑا عالی شان اور وسیع تھا۔ بھئی، آخر کیوں نہ ہوتاکہ کیتھولک بادشاہوں کا دربار یہیں لگتا تھا، ازابیلا اور فرڈی نینڈ یہیں بیٹھاکرتے تھے۔باغات کا پُر کشش حُسن ،فوّارے، تالاب، روشیںاور درختوں کی قطاریں…دیکھنے والے کا جی چاہےکہ یہیں بیٹھا انہیں تکتا رہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین