• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تہتر سال پہلے 27 اکتوبر کو بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوئی تو آنجہانی شیخ محمّد عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کے ایک دیرینہ ورکر صوفی نور محمّد پر جیسے ہیجان کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ شیخ عبداللہ کے شیدائیوں میں سے ایک تھے اور مہاراجہ ہری سنگھ کیخلاف جدوجہد میں پیش پیش رہے تھے۔ اس دوران آپ کئی بار جیل بھی گئے جس کی وجہ سے آپ سیاسی حلقوں میں معروف تھے۔ فوجیوں کی آمد سے صوفی نور پر اس قدر صدمہ طاری ہوا کہ انہوں نے کہیں سے ہندو سادھوؤں والی نارنجی رنگ کی پوشاک حاصل کی، گھر جاکر چاند تارے سے کنندہ اپنی قرمزی رنگ کی رومی ٹوپی ، واسکٹ اور شلوار قمیض اتارکر نیا لباس پہنا اور سرینگر کے دل موجودہ لال چوک کی طرف ہولئے۔ راستے میں جو بھی واقف کار ملا، اس سے زور زور سے نمستے کہہ کر مخاطب ہوئے۔ پھر اپنے نیشنلی ساتھیوں کے پاس جا جا کر انہیں بھی نئے انداز سے پکارا۔ اکثر لوگ ان کی ذہنی کیفیت کو سمجھ رہے تھے، اسلئے خاموش رہے البتہ جب نیشنل کانفرنس کے ایک اور معروف ورکر منشی غلام حسن نے استفسار کیا تو صوفی نورمحمد پھٹ پڑے: ’’میں وہی کر رہا ہوں جو ہمارے لیڈر کا فیصلہ کچھ دہائیوں کے بعد ہم سے کروائے گا‘‘۔ بہتر سال بعد 5اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے چند ہی روز بعد اعلان کیا کہ وہ وادی میں پچاس ہزار مندر تعمیر کرے گی۔ حالات و قرائن سے یہی لگتا ہے کہ صوفی نور محمد کا پون صدی پہلے کا اندیشہ آخرش حقیقت میں بدلنے جارہا ہے۔

جس جگہ صوفی نورمحمد اپنی دلبرداشتگی کا برملا اظہار کر رہے تھے،وہاں سے صرف تین کلومیٹر کی دوری پر نیشنل کانفرنس سے وابستہ نیم فوجی جماعت پیس بریگیڈ کی ایک ٹکڑی بھارتی فوج کےاستقبال کیلئے رام منشی باغ میں جمع ہوگئی تھی۔’پیس بریگیڈ‘ شیخ عبداللہ کے تنخواہ دار غنڈوں اور لٹیروں کی مادر پدر آزاد ایک فوج تھی جو بظاہر ’بیرونی حملہ آوروں‘ کے خلاف لڑنے کیلئے بنائی گئی تھی مگر ان کا اصل ہدف باعزت کشمیری قوم پرست تھے اور غیر نیشنلی یا مسلم کانفرنس سے تعلق رکھنے والوں کے گھروں میں گھس کر لوٹ مار کرنا تھا تاکہ وہ نہ صرف دبے رہیں بلکہ آنجہانی عبداللہ کے اقتدار کیلئے کسی بھی قسم کا خطرہ نہ بن سکیں۔ پیس بریگیڈ سے وابستہ لوگ عموما ٹولیوں کی صورت گلی کوچوں میں نیم فوجی طرز کا مارچ کرتے ہوئے ’’حملہ آور،خبردار ہم کشمیری ہیں تیار‘‘ کے نعرے لگاتے رہتے تھے جس سے عوام میں ان کی دہشت بیٹھ جاتی تھی۔ دورانِ مارچ یہ لوگ اپنے کندھوں پرعموماً لمبے اور بھاری ڈنڈے یا لکڑی سے بنی ہوئی بندوقیں اٹھاکر چلتے رہتے تھے مگر ان کی طاقت کااصل مرکز ان کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی تھی جسے وہ بغیر کسی خوف کے جاری رکھے ہوئے تھے۔ رام منشی باغ ابھی پیس بریگیڈ کی ٹولیوں سے بھر ہی رہا تھا کہ اچانک مہمان فوجیوں نے گولی چلادی جس سے موقع پر پانچ نیشنلی ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔ اس قیامت خیز منظرمیں نیشنلی لیڈر زخمیوں کو تڑپتا چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گئے۔ چند سال پہلے کشمیر کے مؤقر ہفت روزہ ’کشمیر لائف‘ میں بلال ہنڈو کی ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی جس میں ایک عینی شاہد کے مطابق جب انہوں نے شیخ عبداللہ سے استفسار کیا کہ ’’کیا کشمیریوں نے اسی دن کیلئے آپ کو لیڈر بنایا تھا؟‘‘ تو عبداللہ نے انہیں جواب میں ایک زوردار تھپڑ مارا اور پھر جلدی میں اپنی سرکاری موٹر میں بھاگ گئے۔

اسی روز فوجیوں کی ایک اور ٹکڑی نے سرینگر ائیرپورٹ سے نکلتے ہی گوگو نامی بستی کا گھیراؤ کیا، اور وہاں رہنے والے مرد و زن اور بچوں کو ایک لائن میں کھڑا کرکے ان پرگولی چلادی جس سے دو خواتین سمیت دس افراد جاں بحق اور بیشمار زخمی ہوگئے۔ اس کے بعدفوجیوں نے تمام مکانوں کو آگ لگا کر ظلم کے تمام ثبوت مٹادئیے مگر اس سے پہلے وہ تمام چیزیں بشمول پالتو جانور لوٹ کر لے گئے۔ اسی اثناء میں شیخ عبداللہ نے ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر کے نام سے حکومت سنبھالی تھی۔ ان کی سرکاری رہائش گاہ صرف چند میل دورہونے کے باوجود انھوں نے کبھی گوگو بستی کے لوگوں کا حال تک نہ پوچھا حالانکہ وہ یخ بستہ سردی میں کئی مہینوں کھلے آسمان تلے انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزارتے رہے۔ اپنی آمد کے دسویں دن 5 نومبر کو رام منشی باغ میں فوج کی جانب سے کھودی گئی خندقوں سے پیس بریگیڈ سے وابستہ مزید گیارہ افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ غم وغصے سے بپھرے ہوئے عوام جلوس کی صورت میںسڑکوں پر نکل آئے مگر شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں نے صورتحال کو قابو کرکے لاشوں کو قبضے میں لے کر خاموشی سے دفن کردیا۔تب سے کشمیری تواتر کے ساتھ لاشیں وصول کررہے ہیں اور کبھی خاموشی اور کبھی احتجاج کرکے انہیں دفن کرتے رہتے ہیں۔

تازہ ترین